سندھ کی سیاسی صورتحال

سندھ کی سیاسی صورتحال

سندھ میں قومی اسمبلی کی اس وقت 61 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں ، سکھر کی دونوں سیٹ پیپلز پارٹی کے موجودہ اپوزشن لیڈر سید خورشید شاہ ، اور نعمان اسلام شیخ کے پاس ہیں یہاں پیپلز پارٹی کا کوئی مقابلہ نہیں کسی سے یہ دونوں سیٹ آہندہ الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہی ہونگی ، گھوٹکی کی دونوں سیٹیں بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں ایک سیٹ سابق وزیر اعلی سندھ علی بخش مہر کے پاس ہے اور دوسری علی گوہر مہر کے پاس ہے اب علی بخش والی سیٹ میں پیپلز پارٹی کا آہندہ الیکشن میں بھی کسی سے کوئی مقابلہ متوقع نہیں ہے جبکہ دوسری سیٹ سے پیپلز پارٹی کو سابقہ وفاقی وزیر خالد خان لنڈ جیسے امیدوار کا سامنا ہے جو پہلے پیپلز پارٹی کا حصہ تھے بعد میں مسلم لیگ ق میں شامل ہوے یہاں وہ پیپلز پا رٹی کو ٹف ٹایم دینگے سال ۲۰۰۲ میں وہ اسی سیٹ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ ایم این اے بن چکے ہیں اور باقی الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی سے مقابلہ میں بڑے سخت مقابلہ کے بعد ہارے تھے ،
شکار پور ضلع میں ایک سیٹ پیپلز پارٹی کے سابقہ وفاقی وزیر آفتاب شعبان میرانی اور دوسری مسلم لیگ فنگشنل کے غوش بخش مہر کے پاس ہے پیپلز پارٹی کے آفتاب شعبان میرانی صرف ۱۰۰۰ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے جب کے مسلم لیگ فنگشنل کے امیدوار کی فتح کا مارجن تقریبا 35000 تھا یہ ضلع پیپلز پارٹی کے لیئے کسی خطرہ سے کم نہین ہے ، یہاں سے دوسری سیٹ بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے ، پیپلز پارٹی کے گڑھ لارکانہ کی تمام چار سیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جن میں ایاز سومرو ، نزیر احمد بھگیو ، امیر علی خان مگسی ،اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور شامل ہیں جنہوں نے غنوی بھٹو کو ہرا یا تھا ، اس ضلع میں بھی پیپلز پارٹی مظبوط پوزیشن میں ہے اور کسی اپ سیٹ کے امکان نہیں ہے ، جیکب آباد کی بھی تینوں سیٹ پیپلز پارٹی کے اعجاز جھکرانی ، صابر علی بجرانی اور احسان الحمان مزاری کے پاس ہیں اس ضلع میں بھی پیپلز پارٹی کو ائندہ الیکشن میں ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے ، یہاں سے مسلم لیگ ن کے سابق سپیکر قومی اسمبلی الہی بخش سومرو اور مسلم لیگ فنگشنل کے میر حسن کھوسو امیدوار ہیں جو آیندہ الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینگے ، نوشہرو فیروز میں بھی سخت مقابلہ کا امکان ہے یہاں ایک سیٹ سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے اور نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتظی جتوئی کے پاس ہے جبکہ ایک پیپلز پارٹی کے اصغر شاہ کے پاس ہے جنہوں نے نیشنل پیپلز پارٹی کے ابراہیم جتوئی کو ہرا یا تھا لیکن اب یہاں سخت مقابلہ کی توقع ہے ، نواب شاہ آصف زرداری کا آبائی علاقہ ہے یہاں بھی پیپلز پارٹی اچھی پوزیشن میں ہے یہاں زرداری کی بہن اظہرہ پلیجو اور اور سید غلام مصتفی شاہ کامیاب ہوئے تھے اور آنے والے الیکشن میں بھی یہاں کسی اپ سیٹ کی امید نہیں ہے ، خیر پور کی تین میں سے دو سیٹ مسلم لیگ فنگشنل اور ایک پیپلز پارٹی کے پاس ہے یہاں گزشتہ الیکشن میں تینوں سیٹوں پہ سخت مقابلہ ہوا نواب علی وسان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعلی سندھ غوث علی شاہ سے ہوا جس میں وہ کامیاب ہوے جبکہ باقی دو سیٹوں پہ مسلم لیگ فنگشنل کے پیر صدر ادین شاہ اور پیر کاظم علی شاہ نے سخت مقابلہ کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ہرایا یہاں آئندہ الیکشن میں بھی سخت مقابلہ کی توقع ہے ، حیدرآباد ضلع کی چار میں سے دو سیٹیں ایم کیو ایم جبکہ دو ہی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں یہاں سے پیپلز پارٹی کے سابق صدر مخدوم امین فہیم (مرحوم ) کامیاب ہوے انکی وفات کے بعد انکے بیٹے یہاں سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے اس سیٹ پہ اب بھی سخت مقابلہ متوقع ہے یہاں مقابلہ مسلم لیگ فنگشنل کے عبدلرزاق سے ہوگا ایم کیو ایم نے اپنی دونوں سیٹ بہت بڑے مارجن سے جیتی تھیں تقریبا دونوں سیٹوں میں فتح کا مارجن ایک لاکھ ووٹوں کا تھا اب ایم کو ایم تین حصوں میں بٹ چکی ہے دیکھتے ہیں آئندہ الیکشن میں کیا اپنی سیٹ بچا پاتی ہیں یا نہیں پیپلز پارٹی کی دوسری سیٹ عامر جاموٹ کے پاس ہے اور وہ یہ مقابلہ بھی یکترفہ جیتے تھے ، ٹندو آدم ضلع کی دونوں سیٹ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اور عبدلستار بچرانی کے پاس ہیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کی راحیلہ مگسی کو ہرا یا تھا یہاں سے سیٹ پہ مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن سید نوید قمر کی آئندہ الیکشن میں بھی کامیابی کی امید ہے بدین کی دونوں سیٹ پیپلز پارٹی کی سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اور پارٹی سے ناراض زولفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا اور سردار کمال خان کے پاس ہے اب پیپلز پارٹی ائندہ الیکشن میں یہاں کس کو ٹکٹ دیتی ہے وقت بتاے گا لیکن اس بار اسے سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا ، جب کے دوسری سیٹ پہ بھی مسلم لیگ فنگشنل سے مقابلہ کا امکان ہے ۔۔ میرپور خاص کی تینوں سیٹ بھی پیپلز پارٹی کے یوسف تالپور ، شفقت جیلانی اور منور تالپور کے پاس ہے ، یہاں یوسف تالپور کا آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی سے سخت مقابلہ متوقع ہے جبکہ باقی سیٹوں پہ بھی اسے مسلم لیگ فنگشنل اور اسکی اتحادی جماعتوں سے مقابلہ متوقع ہے ، تھرپاکر ضلع ائندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے یہ دونوں سیٹ فلوقت پیپلز پارٹی کے پاس ہیں لیکن بہت سخت مقابلہ کے بعد جیتی گئی تھی، یہاں بھی ایک سیٹ پی مقابلہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کے پیر نور شاہ جیلانی سے ہوگا دوسری سیٹ پہ بھی انتہای سخت مقابلہ کی توقع ہے ، یہاں سے تحریک انصاف مظوط پوزیشن میں ہے ، دادو ضلع میں بھی پیپلز پارٹی کا راج ہے یہاں تینوں سیٹ پیپلز پارٹی کے ملک اسعد سکندر ، رفیق جمالی اور عمران ظفر لغاری کے پاس ہیں ، یہاں ضلع میں پیپلز پارٹی قدرے بہتر پوزیشن میں ہے اور امید ہے ائندہ الیکشن میں یہاں سے پھر کامیاب ہو جائے گی ، سانگھڑ ضلع کی تین میں سے دو سیٹ مسلم لیگ فنگشنل جب کے ایک پیپلز پارٹی کے پاس ہے ، یہاں اس ضلع میں بھی ائندہ الیکشن میں سخت مقابلہ متوقع ہے پیپلز پارٹی کی شازی مری اسی علاقہ سے مسلم لیگ فنگشنل کے پیر صدر الدین شاہ سے ہار گئیں تھیں یہاں پیپلز پارٹی کے ایم این اے روشن دین جونیجو ہیں جنکہ مسلم لیگ ف کے امامودین شوقین سے بہت سخت مقابلہ ہوا تھا اور اٗئندہ الیکشن میں بھی امید ہے کے پھر ایک بار اچھا مقابلہ ہوگا ، ٹھٹہ ضلع کی دو سیٹ میں سے ایک مسلم لیگ ن کے ایاز علی شیرازی کے پاس ہے جب کے دوسری پیپلز پارٹی کے صادق علی میمن کے پاس ایاز علی شیرازی آزاد حثیت سے ایم این اے بنے تھے انکا مقابلہ پیپلز پارٹی کے رمیض ادین سے تھا جبکہ دوسری سیٹ پہ بھی پیپلز پارٹی بہت مشکل سے کامیاب ہو سکی تھی یہاں بھی شیرازی برادان کے سید ریاض شیرازی نے صرف تین ہزار ووٹوں سے شکست کھائی تھی یہاں ایندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اپنی سیٹ کھونی پڑسکتی ہے کیونکہ ایاز شیرازی نے مسلم لیگ ن میں شامل ہو کے کافی فنڈز حاصل کر کے اپنے علاقہ میں لگائے ہیں جسکی وجہ سے وہ ابھی بھی اچھی پوزیشن میں ہیں سو یہاں بھی اچھا مقابلہ کی امید ہے ، کراچی میں قومی اسمبلی کی بیس سیٹیں ہیں جن میں سے 17 ایم کیو ایم ایک پیپلز پارٹی ایک تحریک انصاف اور ایک مسلم لیگ ن کے پاس تھی ، ایم کیو ایم کے نبیل گبول نے ایم کیو ایم چھوڑ کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور مسلم لیگ ن کے بھی ایم این اے عبدلحکیم بلوچ نے پیپلز پارٹی میں شمو لیت اختیار کر لی اسطرح پیپلز پارٹی کے پاس کراچی میں تین سیٹ ہو گئی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان تین حصوں میں بٹ گئی ایک ایم کیو ایم لندن (الطاف ) ایم کیو ایم پاکستان (فاروق ستار ) اور پاک سرزمین پارٹی ( مصطفی کمال ) اب ایم کیو ایم کے کافی ایم این اے منحرف ہو کر ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ہو چکے ہیں اب یہاں آئندہ الیکشن میں کیا ہوتا ہے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کیونکہ مہاجر نے ووٹ ہمیشہ الطاف حسین کو دیا ہے کیا وہ ائندہ الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان کو ووٹ دینگے یا پاک سرزمین پارٹی کو ووٹ دینگے یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا کیونکہ اب ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ پیپلز پارٹی بھی اٹھا ئے گی اور تحریک انصاف بھی جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس کو ئی خاص امیدوار کراچی شہر میں نہیں ہے بلکہ سندھ میں بھی اب نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے غوث علی شاہ ، لیاقت جتوئی ، ارباب غلام رحیم ، ممتاز بھٹو ، سب کو ناراض کر کے اپنا نقصان کیا ہے اور اب لیاقت جتوئی ارباب غلام رحیم ممتاز بھٹو پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں کوئی سیٹ نکالیں یا نکالیں لیکن ووٹ اچھا خاصہ نکال لینگے ، جبکہ مسلم لیگ ن اب سندھ سے فارغ ہوتی نظر آرہی ہے -

Muhammad wajid aziz
About the Author: Muhammad wajid aziz Read More Articles by Muhammad wajid aziz: 17 Articles with 15198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.