فتنوں کا محور

کچھ لوگ ریاست کے تابع ہونے کی بجائے اسے اپنے تابع رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ ریاست کو چلانے والے لوگ نااہل ہیں۔اگر ان پر معاملات چھوڑدیے جائیں تو یہ اس کا نام ونشان مٹادیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی نمائندے دھوکہ دہی سے اقتدار میں آتے ہیں۔ان میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی کہ ملکی انتظام کو بہتر انداز میں چلا پائیں۔ان کو مکمل فری ہینڈ دیناملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتاہے۔ان کے تفکرات بے جا نہیں عوای نمائندوں کی بد وضع حکمرانی نے ان تفکرات کو تقویت بخشی ہے۔جمہوری راستے سے آنے والے لوگ اب تک کچھ خاص قابلیت کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔مگرمسئلہ یہ ہے کہ جب بھی ان جمہوری نمائندوں کو ہٹا کر کوئی دوسرا سیٹ اپ قائم کیا گیا۔مسائل مذید بڑھے۔یہ متبادل سیٹ اپ تمام تر نیت اور کوشش کے کچھ کمال نہیں دکھا پایا۔یہی ناکامی قوم کو دوبارہ جمہوری قیادت سے رجوع کرنے پراکساتی ہے۔جمہوری اور غیر جمہوری سیٹ اپ کے درمیان کھینچا تانی او ردھینگا مشتی کے پیچ پھنسی قوم مسلسل ذہنی کوفت سے گزررہی ہے۔

تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺکی جانب سے جڑواں شہروں میں دیا گیادھرنا بالآخر ختم کردیا گیا۔ان کا وفاقی وزیر قانون کی برطرفی کا مطالبہ مان لیا گیا۔یوں رضوی صاحب کے دھرنے کے مقاصد حاصل کرلیے گئے۔جناب زاہد حامد نے ملک میں جاری سنگین بحران کے خاتمے کے لیے اپنا استعفی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پیش کیا ۔جسے منظور کرلیاگیا۔اس سے پہلے ملک بھر میں تب سنگین قسم کی بے چینی اور ابتری چھاگئی تھی جب حکومت کی طرف سے فیض آباد کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا اپریشن کیا گیا۔حکومت کی حماقت کے باعث یہ اپریشن ناکام رہا ۔غلط پلاننگ کے سبب یہ اپریشن تھوڑا زیادہ لمبا ہوگیا۔اس طوالت سے ملک گیر ہنگاموں کی گنجائش پیدا ہوئی۔اگرحکومت کسی جھٹ پٹ پلان کے تحت دھرنے کا مقام خالی کرواتی ۔یہ کام دو اڑھائی گھنٹوں تک نبٹالیا جاتاتو شاید معاملہ نہ بگڑتا۔بدقسمتی سے حکومت اپنے دائیں بائیں کے ڈراوں سے نہ نکل سکی۔خوفزدگی کے عالم میں کیا گیایہ اپریشن بری طرح ناکام ہوگیا۔بجائے یہ کہ فیض آباد کو دھرنے مظاہرین سے خالی کروایا جاتا۔ملک کے کونے کونے میں مظاہرین آن بیٹھے۔حکومت کے پاس سوائے پسپائی کے کوئی راہ نہیں بچی تھی۔سواسے اپنے وزیر قانون کی قربانی دیناپڑی۔دھرنا کے مرکزی کیمپ سے بڑی پلاننگ سے احتجاجی مہم چلائی گئی۔قدم قدم پر فیض آباد دھرنے کے پلاننر ز کودیکھ کر تحریک انصا ف کے پلاننر کھٹکتے رہے۔ملک گیرمقامات پر اکٹھے ننانوے فیصددھرنا مظاہر ین کے لیے عوام الناس کا یہ سوال بڑا پیچیدہ تھاکہ وہ دھرنا کس بات پر دے رہے ہیں۔وہ یہ تو کہتے کہ توہین رسالت کا مسئلہ ہے۔مگر مسئلہ ہے کیا اس کی وضاحت ان میں سے کوئی بھی نہیں کر پارہاتھا۔

علامہ رضوی کا دھرنا ۔علامہ طاہرالقادری کے دھرنے کا ری پلے سا لگا۔دونوں جانب سے انتہائی اقدام تک چلے جانے کا عزم دکھایا گیا۔دونوں جانب سے آخری حد تک لڑنے کا فیصلہ تھا۔دونوں جانب سے کسی بھی صورت کیفر کردار تک پہنچائے جانے کے بغیر پیچھے نہ ہٹنے کا ارادہ تھا۔اب جبکہ رضوی صاحب کا دھرنا احتتام پذیر ہوچکاہے۔اب دونوں دھرنوں کی مماثلت کھل کرسامنے آگئی۔قادری صاحب بھی انقلاب لانے اور سب کچھ تہس نہس کردینے کے دعوے کرتے کرتے خالی دامن جھاڑ کر اٹھ گئے تھے۔اب رضوی صاحب بھی بڑی بڑی باتوں کے بعد تھوڑے بہت پر مان گئے۔تب بھی قادری صاحب آرمی کے مشکور ہوئے۔اب بھی رضوی صاحب نے حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا ۔اس میں فوج کا شکریہ اداکرنے کا لکھوانا ضروری خیال کیا۔ یوں محسوس ہورہاہے ۔جیسے رضوی صاحب بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہی ہاتھوں میں کھیل گئے۔جو قادری صاحب کو کھلاتے رہے ہیں۔نوازشریف مخالفت کی بنیا د پر جاری اس کھیل کی یہ تازہ ترین کڑی تھی۔قادری صاحب کی طرح رضوی صاحب بھی نوازشریف کو شیطان اعظم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔قادری صاحب کی ناکامی کے بعد بیس سال یاد رکھے جانے والے فیصلے سنانے والے حضرات کو زحمت دی گئی تھی۔اب جب کہ رضوی صاحب گھر جارہے ہیں۔دیکھیں اب کس رضاکار کی خدمت لی جائے گی۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ مسلسل خود کے سیاسی اور حکومت معاملات سے الگ تھلگ ہونے کا تاثر دیتی رہتی ہے۔مگر جانے کیوں کچھ لوگ خواہ مخوہ ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ پاک فوج کو وضاحتی علامیہ جاری کرنا پڑے۔علامہ طاہر القادری اور ان کے جوڑی دار عمران خا ں صاحب نے اپنے تب کے تمام تر خطابات میں تھرڈ ایمپائر کی سپورٹ ملنے کا تاثردیا۔دھرنے کے دوران پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے متعد د با ردھرنا مظاہرین سے مکمل لاتعلقی کا اظہا رکیا۔مگر جانے کس بنیا د پر دھرنے کی جوڑی دھرنے کے آخری دن تک تھرڈ ایمپائر کی مدح سرائی کرتی رہی۔اب بھی علامہ رضوی کا دھرنا فوج کے شکریے کے ساتھ ختم ہونا عجب تاثردے رہاہے۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ بار بار لاتعلقی کے علامیے جاری کرتی ہے۔مگر کچھ لوگ جانے کیوں تھرڈ ایمپائر کو حکومت مخاف فتنوں کا محور ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.