بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہراور بھارت کا مکروہ چہرہ

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے یکے بعد دیگر ہونے والے واقعات جس میں فوجی ‘پولیس آفسروں اور سیکورٹی فورسز پر حملے جبکہ تربت کے علاقے سے ملنے والی بیس افراد کی لاشیں جو بچارے غریب مزدور روز گار کی تلاش میں یورپ جانے کے خوب آنکھوں میں سجا کر گھر سے نکلے تھے۔ ان کی آنکھوں کے خوب تو پورے نہ سکے لیکن ان کی راہ تکتی آنکھوں کو نہ تھامنے والا طوفان دے گئے ہیں۔ صوبہ بلوچستان عرصہ دارز سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان تازہ واقعات سے کچھ ماہ قبل کوئٹہ میں ایک ڈی آئی جی کو شہید کر دیا گیا تھا۔ بلوچستان میں دھشت گردی کی تازہ لہر بلوچستان میں سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل دشمن کو ہضم نہیں ہو رہی دشمن برسوں سے اس کوشش میں رہا ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات کو خراب کرتا رہے تاکہ بلوچستان کی ترقی میں روکاوٹ ڈال کر وہاں کی عوام کی محرومیوں میں آضافہ کیا جائے اور ایک سازش کے تحت وہاں کی عوام کو محرومیوں کا احساس پیدا کر کے ان کو بغاوت پر اکسایا جائے۔ بھارت اور عالمی طاقتوں کو بلوچستان کی ترقی سے خوف ہے کہ پاکستان سی پیک کے منصوبے سے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرتے ہوئے دنیا میں مضبوط معیشت بن کر سامنے آجائے گا۔ بلوچستان میں گودار پورٹ کے لیے سی پیک کا مغربی روٹ بلوچستان کی عوام میں خوشحالی لائے گا یہ تو ابھی منصوبے کی ابتداء ہے اس کے کئی ثمرات بلوچستان کی عوام کو ملنے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس بات کو باخوبی جانتی ہیں کہ بلوچستان کی دھرتی قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اگر وہاں امن قائم ہو گیا تو پاکستان معدنیات سے مستفید ہو گا۔ جس کی وجہ سے دشمنوں کی نیندیں حرام ہیں۔
افغانستان میں امریکہ جو کچھ عرصہ تک وہاں سے نکلنے کی کوشش میں تھا ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے تک امریکا کا ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا سوچنے کی بات ہے امریکا کا اچانک فیصلہ کہ افغانستان میں مزید دستے بھجنا چاہتا ہے۔ اتنے عرصے تک خاموش رہنے والے افغانستان میں دوبارہ کیوں رہنا چاہتے ہیں۔ امریکا افغانستان میں بیٹھ کر چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے اور سی پیک سے خطے میں آنے والی اقتصادی تبدیلی امریکا بھارت پر بھی ناگوار گزر رہی ہے سی پیک کے خلاف سازش میں بھارت سب آگے ہے کلبوشن کی گرفتاری سے ساری سازش بے نقاب ہوچکی ہے۔ جو تسلیم کر چکا ہے کہ وہ پاکستان اور سی پیک منصوبے کے خلاف دھشت گردی کا نیٹ ورک چلارہا تھا بھارت بلوچستان میں آج سے نہیں کئی برسوں سے سازش کرتا چلا آ رہا ہے جس کا واضح ثبوت بھارت کے سرکاری ریڈیو " آل انڈیا ریڈیو " پر 1974 سے بلوچی سروس شروع کی گئی بلوچی زبان میں پروگرام نشر کرنا کا مقصد پراپیگنڈہ کر کے بلوچستان کے لوگوں کو پاکستان کے خلاف اکسایا جائے جبکہ گزشتہ برس سے بھارت نے پلوچی زبان میں ویب سائٹ اور موبائل ایپ بھی لانچ کیا ہے بھارت جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تخریب کاری کرنا چاہتا ہے لیکن بلوچستان کی عوام ان سب پراپیگنڈہ کو بھارت کے منہ پر مار چکے ہیں یہ ہی بھارتی سازش کی حصہ ہے کہ بلوچ عوام کو پاکستانی میڈیا سے دور رکھ جائے ان تک معلومات اور اصل حقائق تک ان کی رسائی نہ ہو جس کے نتیجے میں کچھ عرصہ سے بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اخبارات کی ترسیل شر پسندوں سے ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے بند ہے اور پریس کلب کو تالے لگے ہوئے ہیں صحافیوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اب تک کئی صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ بات صاف ظاہر ہے جب مقامی میڈیا نہیں ہوگا تو لوگ معلومات کی غرض سے کوئی نہ کوئی میڈیم ضرور استعمال کریں گے۔ اس لئے بھارت بلوچی زبان میں ریڈیو سروس اور بلوچی ایپ کا استعمال معلومات اور انٹرٹینمنٹ کے لیے ہو رہا ہے بلوچی ویب کے حوالے سے گزشتہ سال دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا بھارت ایسا کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے کر رہا ہے اگر حکومت چاہے تو ریڈیو سروس کی فرنکونیسی کو بلاک کر کے ٹیکنیکل طریقہ سے اس میں شور ڈال سکتی ہے جبکہ ویب اور ایپ کو بھی بلاک کیا جا سکتا ہے اور بھارتی پراپبگنڈہ کے جواب دینے کے لیے حکومت کی سرپرستی میں بلوچستان میں ایف ایم ریڈیو چینل شروع کر کیے بھارت ہی غیر ملک بیٹھے چند علیحدگی پسندوں کی سپورٹ کر رہا ہے۔ جنیوا اور لندن میں اشتہاری مہیم کے لیے ان لوگوں کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ اتنی مہنگی تشہر کے لیے صاف ظاہر پیسہ ملک دشمن ایجنسیوں نے دیا ہے جن میں سر فہرست " را " ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں کے اندر جنیوا میں ہونے والے چند چند افراد کے احتجاج میں سے اکثریت پناہ گزینوں کی تھی جن کا تعلق عراق شام اور دیگر ایسے علاقوں سے تھا جن کو باقاعدہ دیہاڑی پر لایا گیا تھا کرائے کے احتجاج نہ تو بلوچی زبان سمجھتے تھے اور نہ ہی اردو بلکہ یہ کیسے بلوچ لوگ تھے جو عربی زبان میں بات کرتے تھے صاف ظاہر ان کو کرائے پر لایا گیا تھا۔

بھارت مسئلہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے بلوچستان کا سہارا لے رہا ہے۔ بھارت ہی مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ مل کر حالات کشیدہ کر رہا ہے۔ بھارت کو موت اس لیے آ رہی ہے کہ پاکستان میں سی پیک سے تبدیلی آئے گی چین کو رہداری ملنے سے دنیا کی منڈیوں میں بھارتی مال کی جگہ چینی مال آ جائے گا۔ بھارت کے پاس پہلے ہی خریدار کم اور منڈیاں ہیں۔ افغانستان اور ایران کی منڈی بھی راہداری منصوبے کی وجہ سے جانے والی ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا اس کے ہاتھ سے پہلے جا چکے ہیں وہاں بھی چینی مال نے جگہ لے لی ہے۔ بھارت کو کہیں سے تجارت کے لیے راستہ ہی نہیں مل رہا۔ بھارت جنگی جنون اور پاکستان سے میں اپنی عوام کی فلاح بہبود بھول گیا ہے اس کی اپنی عوام 70 فیصد سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اتنی تعداد میں لوگ ٹوئلیٹ سے محروم ہیں بچے بھوک سے مر رہے ہیں کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں لیکن مودی احمق کو کون بتائے کہ بلوچستان کے خوب تو در کنارہ اس کے بارے سوچنا بھی بھول جائے کیونکہ بلوچستان کے غیور اور غیرت مند بلوچ پاکستانی ہیں اور محب وطن ہیں یہاں تذکرہ انسانی سمگلنگ کا کرنا چاہوں گا چال باز اور پیسے کے لالچی لوگ مصوم پاکستانی کو روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دیکھا کر ورغلا لیتے ہیں ان سمگلروں میں دہشت گرد اور جرائم پیشہ لوگ شامل ہو چکے ہیں وہ ان مصوم لوگوں کو لے جا کر اغوا کاروں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں اور ان ہی لوگوں کے سامان میں منشیات بھی رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے نکل گئے تو ان کو کروڑوں کا فائدہ ہو گا اگر پکڑے جائیں گے تو یہ لوگ ، گولی کا نشانہ بھی یہی بنیں گے۔ تربت واقعہ کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے ان سمگلروں نے ضرور ان افراد کو دھشت گردوں کے ہاتھوں فروخت کیا ہوگا۔ دھشت گردوں کا ان افراد کو مارنے کا مقصد لسانی اور قومیت کی بیناد پر پھوٹ ڈالنا ہے کہ پنجابی اور بلوچ کا جھگڑا شروع ہو جائے اور ہمارے بھولے فیس بک اور سوشل میڈیا کے دانش ور لوگ اس پر بار بار تبصرہ کررہے ہیں کہ وہ مصوم پنجابی تھے ان کا تعلق پنجاب سے تھا بھائی یہ کیوں نہیں کہتے وہ پاکستانی تھے اور یہ حملہ پاکستان پر ہوا ہے۔ ہمیں متحد ہو کر بھارت کی ہر سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے کے باشندے کو نقصان پہنچے تو وہ اس علاقے ذات پات اور کسی خاص زبان کا نقصان نہیں بلکہ یہ پوری قوم کا اور پاکستان کا نقصان ہے-

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 129694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.