دھرناقائدین اورحکومت کے درمیان معاملات طے ہونے کے
بعدتحریک لبیک یارسول اللہ کے مرکزی امیرعلامہ خادم حسین رضوی نے دھرناکے
مقام پرپریس کانفرنس کرتے ہوئے معاملہ میں ذاتی دلچسپی لے کرجواں مردی
کامظاہرہ کرنے اورملک کوبحرانی کیفیت سے نکالنے پرآرمی چیف جنرل
قمرجاویدباجوہ اورمطالبات سننے کے بعدان کے حل کی یقین دہانی کرانے پرڈی جی
رینجرکاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ زاہدحامدکے استعفیٰ کے بارے میں معلوم
ہوچکاہے لیکن یہ ہمارے خون کی قیمت نہیں ہے جوحکومتی آپریشن کے دوران
بہایاگیاہماری آنے والی نسلیں بھی اس خون نہیں بھلاسکیں گی۔علامہ خادم حسین
رضوی نے مطالبات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے کارکنوں
کورہاکرنے اورڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی اوربہترین علاج کے لیے وزرات داخلہ
نے یقین دہانی کرائی ہے۔تحریک لبیک یارسول اللہ کے دوکارکنان بھی تحقیقاتی
کمیٹی میں شامل ہوں گے۔علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے
بتایا کہ الیکشن ایکٹ ترامیم کے ساتھ حلف نامہ لگادیاگیا ہے اوراس کی کاپی
بھی ہمیں پہنچادی گئی ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومت نے جشن عیدمیلادالنبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی تیاریوں میں ہمارے مطالبات منظورکیے ہیں۔اس
کے علاوہ حکومت اوردھرناقائدین میں جومعاہدہ طے پایااس کے مندرجات بتایا
گیا ہے کہ تحریک لبیک ایک پرامن جماعت ہے جوکسی قسم کے تشدداوربدامنی
پریقین نہیں رکھتی ہم ختم نبوت اورتحفظ ناموس رسالت میں قانونی ردوبدل کے
خلاف اپنانکتہ نظرحکومت کے پاس لے کرآئے مگرحکومت نے مسئلہ حل کرانے کی
بجائے طاقت کااستعمال کیا۔ اکیس دن تک مسئلے کومذاکرات سے حل کرنے کی کوشش
کی گئی لیکن ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جارہے تھے۔وفاقی وزیرقانون
زاہدحامدکے مستعفی ہونے کے بعدہماری جماعت ان کے خلاف کسی قسم کافتویٰ جاری
نہیں کرے گی۔ہماری جماعت مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت پاکستان الیکشن ایکٹ سال
دوہزارسترہ میں سیون بی اورسیون سی کومکمل متن مع اردوحلف نامہ میں شامل
کرے قائدایوان راجہ ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ تیس دن میں منظرعام پرلائی
جائے اس میں جوبھی ذمہ دارہواس کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کی
جائے۔چھ نومبرسے دھرنے کے اختتام تک گرفتارتمام کارکنوں کوضابطہ کارروائی
کے مطابق تین دن میں ر ہاکیاجائے اوران پرمقدمات اور نظر بندیاں ختم کی
جائیں۔پچیس نومبرسال دوہزارسترہ کوہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف ہماری
جماعت کواعتمادمیں لے کرایک انکوائری بورڈ تشکیل دیاجائے جو تمام معاملات
کی چھان بین کرکے حکومت، انتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کاتعین کرکے
تیس روزکے اندرانکوائری مکمل کرے اورذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی
کاآغازکیاجائے۔چھ نومبردوہزارسترہ سے دھرنے کے اختتام تک جوسرکاری
اورغیرسرکاری املاک کونقصان پہنچاہے اس کاتعین کرکے ازالہ وفاقی اورصوبائی
حکومت اداکرے۔حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پراتفاق ہواہے ان پرمن وعن عمل
کیاجائے۔ پنجاب ہاؤس میں مشاورتی اجلاس میں نواز شریف نے فیض آباددھرناختم
کرانے میں سول انتظامیہ کی ناکامی پرسخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ
دھرناختم کرانے کے لیے کوئی حکمت عملی کیوں نظر نہیںآئی۔ میڈیارپورٹس کے
مطابق زاہدحامدکے استعفیٰ پرمسلم لیگ ن میں شدیداختلافات سامنے آگئے ان لیگ
کی سنیئرقیادت کے اہم ارکان زاہدحامدکے استعفے کے حق میں نہیں
تھے۔سنیئرارکان کاخیال تھاکہ زاہدحامدکااستعفیٰ حکومت کونیچادکھانے کے
مترادف ہے مگرشہبازشریف نے ایک گھنٹے کی طویل ملاقات سے زاہدحامدکوملکی
مفادکی خاطرمستعفی ہونے پرآمادہ کرلیا۔شہبازشریف کاکہناتھا کہ یہ ملکی
معاملہ ہے ملک کونقصان نہیں ہوناچاہیے ۔اگرایک وزیراستعفیٰ دے دے تواس سے
فرق نہیں پڑتامگرملکی حالات خراب نہیں ہونے چاہییں۔جب کہ وزیراعظم کی
زیرصدارت اجلاس میں طے پایاتھاکہ ظفرالحق رپورٹ کے مطابق دووزیراستعفیٰ دیں
گے۔کیونکہ دھرنے والوں کامطالبہ زاہدحامدکامستفی ہوناتھاتواسی لیے دوسرے
وزراء کوبچانے کے لیے زاہدحامدکی قربانی دیناپڑی۔اورپارٹی معاملات معمول
پرلانے کے لیے شہبازشریف تگ ودوکررہے ہیں۔سرکاری ٹی وی سے انٹرویومیں وفاقی
وزیرداخلہ احسن اقبال کاکہناتھا کہ حکومت کے اندراورحکومت سے
باہرموجودقیادت کافرض ہے کہ وہ دھرنے سے ہونے والے نقصان کاازالہ کریں
اورملک کودوبارہ امن کے راستے پرلے کرجائیں جس قانون کے حوالے سے تمام
معاملہ ہوااس کوتمام جماعتوں نے مل کرپاس کیالیکن چندجماعتوں نے اس پرسیاست
کی اوران جماعتوں نے معاملے سے خودکوالگ کرکے حکومت کوپھنسانے کی کوشش
کی۔ان سیاسی جماعتوں نے تماشائیوں والاکرداراداکیا۔دھرناہمارے کیے بحیثیت
قوم بہت سارے سوالات چھوڑ کرجارہا ہے۔دھرنے کے دوران لوگوں کواشتعال
دلایاگیااورگھروں پرحملے کیے گئے۔جن کے گھروں پرحملے کئے گئے وہ بھی مسلمان
اورختم نبوت پریقین رکھتے تھے ۔ احسن اقبال نے کہاکہ سیاسی قیادت کی اونرشپ
کے بغیرآپریشن کیاگیا ۔ایگزیکٹوکوذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے موقع
دیاجاناچاہیے تھا۔جب دوسرے ادارے ایگزیکٹوکوموقع نہیں دیں گے توتوکارکردگی
بہترنہیں ہوسکتی۔وفاقی وزیرداخلہ کاکہناتھا کہ سیاستدانوں کافرض تھا کہ
زاہدحامدکی پشت پرکھڑے ہوتے، یہ اکیلے زاہدحامدکی ذمہ داری نہیں تھی ، وہ
صرف پیغام رساں تھے۔زاہدحامدپارلیمانی کمیٹی کے مسودے کوایوان میں پیش کرنے
کے پابندتھے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ میرے گھرکے باہرنارووال میں مظاہرہ کیاگیا
اورحملے کی کوشش کی گئی اس کی قیادت پی ٹی آئی کے ضلعی صدرکررہے تھے۔دھرنے
والوں سے جوباتیں طے ہوئی ہیں ان پرعمل ہورہاہے۔ہم حالت جنگ میں ہیں،دہشت
گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔پاکستان کے خلاف بیرونی سازشیں کی جارہی
ہیں۔ایسے اقدامات سے دشمن خوش ہوتے ہیں۔مظاہرین کے ساتھ معاہدے کوافسوس ناک
قراردیتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ فیض آباددھرنے کا
اختتام نہ خوشگوارہے اورنہ ہی اس پرفخرکیاجاسکتاہے۔معاہدے کی شقیں دونوں
فریقین نے مل کرترتیب دیں کچھ نکات مظاہرین نے دیے اورکچھ حکومت نے ۔دونوں
جانب سے تجاویزکورکھ کرمعاہدے کاڈرافٹ تیارکیاگیا۔جب کہ مظاہرین کے خلاف
ایکشن میری اجازت سے نہیں ہوابلکہ ضلعی انتظامیہ نے عدالتی احکامات
پرعملدرآمدکے لیے کارروائی کی اطلاع دی۔دھرنے کی صورت حال خراب کرنے میں
چندناکام سیاستدانوں کابھی ہاتھ ہے۔ سول وعسکری اداروں نے ملک کوتباہی سے
بچالیا۔ نجی ٹی وی کے ایک پرگرام میں گفتگوکرتے ہوئے راجہ ظفرالحق نے کہا
کہ دھرنے والوں سے مذاکرات کی ذمہ داری مجھ پرنہیں ہے ۔ دھرنے والے چونکہ
مجھ سے بات کرناچاہتے تھے اس لیے مذاکرات کے لیے ابتدائی قدم
اٹھایاتھادھرنے والوں کواپنے گھربلایاجہاں احسن اقبال کوبھی بلا لیا تھا اس
کے بعدراولپنڈی اوراسلام آبادکے بڑے مشائخ کوبھی بلالیاگیا،طویل نشست کے
بعدکمیٹی کے قیام کافیصلہ ہوا۔کمیٹی کادھرنے والوں سے رابطہ ہوتا رہا لیکن
معاملات آگے نہیں بڑھے۔ن لیگ کی طرف سے دھرنے والوں سے مذاکرات کوکسی خاص
شخص نے لیڈنہیں کیا۔وزراء کے استعفوں سے معاملہ حل ہوتا ہے تواس میں کوئی
حرج نہیں۔بعض لوگوں کوخدشہ ہے کہ ایک دووزراء نے استعفے دے دیے تومطالبات
بڑھتے جائیں گے۔چیئرمین سینٹ رضاربانی نے وزیرداخلہ احسن اقبال کی غیرحاضری
پرشدیدبرہمی کااظہارکرتے ہوئے انہیں فوراً ایوان میں طلب کیااورکہا کہ
وزیرداخلہ عدالت کے بلانے پرپندرہ منٹ میں پہنچ جاتے ہیں تویہاں کیوں نہیں
آئے۔ وزیرمملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ وزیرداخلہ جہازمیں ہیں اوراسلام
آبادسے باہرجارہے ہیں۔جس پرچیئرمین نے استفسارکیا کہ وزیراعظم کہاں ہیں
توبتایا گیا وہ سعودی عرب میں ہیں۔چیئرمین سینٹ نے طلال چوہدری کوجھاڑپلاتے
ہوئے کہا کہ ریاض اجلاس اہم تھا یاکہ ملک کی صورت حال اہم تھی۔کیسی روایت
قائم کی گئی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے مداخلت کی۔فوج کوآئینی شق ۵۴۲ کے تحت
طلب کیااوراس کے لیے سال دوہزارتیرہ کاپرانانوٹی فکیشن جاری کردیاگیا۔
شہداء دھرناکواٹھانے کے لیے معاہدہ ہواہے۔ارکان پارلیمنٹ کے گھروں پرحملے
ہوئے ہیں۔حکومت خودسسٹم چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔سینٹ کااجلاس جاری
تھاتواسے اعتمادمیں لیناچاہیے تھا۔وزیرداخلہ کےء پاس پندرہ منٹ بھی نہیں
ہیں کہ وہ سینٹ آکرآگاہ کردیتے۔وہ عدالت جاسکتے ہیں پارلیمنٹ میں کیوں نہیں
آسکتے۔رات کی تاریکی میں معاہدہ کیاگیا،ہاؤس کوکسی نے اعتمادمیں نہیں
لیا۔انتہائی خطرناک روایت قائم ہوئی ہے۔سیاستدانوں کے سیکٹرکمانڈرزکوارکان
پارلیمنٹ استعفے بھجوارہے ہیں۔ان لوگوں کے ساتھ کیسے نمٹاگیا ہاؤس کوکیوں
اعتمادمیں نہیں لیاگیا۔چیئرمین سینٹ رضاربانی کاکہناتھا کہ حکومت کوٹھیکے
پردے دیاجائے۔ریاض اجلاس اہم تھا یاپاکستان کی داخلی صورت حال۔وزیراعظم
کوملک سے باہرجانے کی بجائے سینٹ میں آناچاہیے۔وزیرقانون مستعفی ہوچکے ہیں
، سول حکومت نے پسپائی اختیارکی۔سویلین کی طاقت پارلیمنٹ ہے مگرحکومت اس کی
اہمیت تسلیم کرنے کو تیارنہیں ہے۔اگرتوہین عدالت کاڈرہے توتوہین پارلیمنٹ
بھی ہے میں بھی نوٹس جاری کرسکتاہوں۔سینٹ میں قائدایوان راجہ ظفرالحق نے
کہا کہ جوبھی ہوایہ بدقسمتی ہے۔چیئرمین سینٹ رضاربانی نے اجلاس کورولنگ دی
کہ کسی بھی صورت میں جمہوری نظام پرآنچ نہیں آنے دی جائے گی۔موجودہ حالات
میں ریاستی عملداری کوزک پہنچی ہے۔تمام سیاسی قوتوں کومل کراس کوبحال کرنے
کی کوشش کرنی ہے جوٹرینڈابھرکرسامنے آئے ہیں وہ ریاست اورجمہوریت کے لیے
انتہائی خطرناک ہیں۔یہ رولنگ انہوں نے ایوان بالامیں ارکان سینٹ کے فیض
آباددھرنے کے نتیجہ میں پیداشدہ صورت حال پرنکتہ ہائے اعتراضات کے بعدجاری
کی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ دین کے نام پرسیاست
خطرناک ہے۔ہم نے اپنے دورمیں مذہب اورسیاست کوالگ رکھنے کی کوشش کی
تھی۔سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کاکہناہے کہ دھرناختم کرانے کاکریڈٹ
حکومت کولیناچاہیے تھا۔پی پی دورمیں غلطی کرنے والے وزراء سے استعفیٰ لے
لیاجاتاتھا۔اب صورت حال مختلف ہے۔خالدرانجھاکہتے ہیں کہ انتخابی قوانین
بارے ترمیم میں ختم نبوت کے حوالے سے تبدیلی غلطی نہیں بلکہ ہوشیاری تھی ۔
پارلیمان میں جتنے بھی قوانین بنتے ہیں ان میں کئی دفعہ ایساہوتاہے کہ آئین
میں ترمیم کرتے وقت اس میں اچھی شق کے ساتھ بری شق بھی ڈال دی جاتی ہے تاکہ
وہ پاس ہوجائے اوراس طرف کسی کادھیان نہ جائے۔کیونکہ وہ شق اکیلے پاس نہیں
ہوپاتی۔جیسے الیکشن قانون میں ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کوڈال د یا گیا
۔چونکہ تمام لوگوں کی نظریں الیکشن قوانین پرتھیں اس لیے ان کاخیال یہ تھا
کہ کسی کوپتہ چلے بغیریہ شق بھی پاس ہوجائے گی لیکن یہ گزرنہیں پائی بلکہ
پکڑی گئی ۔یہ جومذاق انہوں نے کیااچھانہیں تھا۔جتنے بھی لوگ اس قانون میں
ترمیم کے حوالے سے مشاورت میں شامل تھے ان سب کوپکڑناچاہیے اوریہ بات
یادرکھنی چاہیے کہ جوقانون بھی پاس ہوتاہے اس میں پوری کابینہ شامل اوراس
کی ذمہ دارہوتی ہے۔میرے خیال میں ختم نبوت کے حوالے سے ۴۷۹۱ء میں جوشق پاس
ہوئی تھی اس کویہ کمزورکرناچاہتے تھے۔یہ اس کاپہلامرحلہ تھا۔جس کے بعداس
میں مزیدترامیم کاراستہ کھل جاتا۔یہ ایک دانستہ عمل تھا۔پارلیمان کی
جوکارروائی ہوتی ہے اس میں ڈرافٹس مین بغیرپوچھے کوئی چیزنہیں ڈالتا۔
تحریک لبیک یارسول اللہ اورحکومت پاکستان کے درمیان معاہدے اورفیض آبادمیں
دھرنے کے خاتمے سے یوں لگتاہے کوئی بھی خوش نہیں ہے۔کسی کو پارلیمنٹ کی
ساکھ خطرے میں دکھائی دیتی ہے توکوئی آپریشن کی ناکامی پرنالاں ہے۔کوئی
حکومت کی طرف سے پسپائی اختیارکرنے پرناخوش ہے توکوئی دھرنے والوں سے رات
کی تاریکی میں مذاکرات کرنے پرمعترض ہے۔ایسے لگتاہے کہ دھرنے کے خوش اسلوبی
سے خاتمے اوردھرنے کی وجہ سے عوام کی مشکلات ختم ہونے کی کسی کوخوشی نہیں
ہے۔چیئرمیں سینٹ رضاربانی کوشکوہ ہے کہ ایوان کوآگاہ کیوں نہیں کیاگیا جب
کہ احسن اقبال یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سیاستدانوں نے سابق وزیرقانون
زاہدحامدکوبے یارومددگارچھوڑدیا۔افسوس کی بات تویہ ہے کہ ختم نبوت کے قانون
میں نقب لگائی گئی اس کی توبات ہی کوئی نہیں کرتا۔ختم نبوت کے قانون میں
ترمیم کے ذمہ داروں کے خلاف بروقت کارروائی میں عمل لائی جاتی تویہ حالات
نہ دیکھناپڑتے۔کسی نے ختم نبوت قانون میں ترمیم کے ذمہ داروں کی مذمت نہیں
کی۔کسی سیاستدان نے ختم نبوت قانون میں ترمیم پرافسوس یاشرمندگی
کااظہارنہیں کیا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تحریک لبیک یارسول اللہ کے
ساتھ معاہدہ کرنے اورآپریشن کی ناکامی سے ریاست کی رٹ کمزورہوئی ہے۔لیکن یہ
پہلاموقع نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی متعددبار پارلیمنٹ کی رٹ سوالیہ نشان بن
چکی ہے۔راجہ ظفرالحق رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی
گئی تواس سے شکوک وشبہات اوربڑھیں گے جوکسی بھی نئے سیاسی بحران کاپیش خیمہ
ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے ذمہ داروں کوبے نقاب کرنااوران کے خلاف کارروائی
کرناضروری ہے۔ |