دھرنوں پر عوامی رائے ۔۔۔

اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں سے متعلق عوامی رائے پر لکھی جانے والی تحریر

فیض آباد ، اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کی اک تصویر

تحریک انصاف نے چند برس قبل اسلام آباد میں اپنے مطالبات کیلئے 126دنوں کا دھرنا دیا تاہم مطالبات پورے نہ ہوئے ۔ پشاور میں دہشت گردوں کے اسکول پر حملے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔اس دھرنے کے ملک کی سیاسی، سماجی ، معاشی صورتحال پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ۔ اس دھرنے کے بعد ملک میں دھرنوں کی اک ریت سی چل پڑی ہے۔ بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چھوٹے شہروں میں ہی نہیں گلی کوچوں میں بھی اپنے مطالبات منوانے کیلئے دھرنے دیدئے جاتے ہیں۔اسی دھرنے کی ریت کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ نے جو دھرنا دیا وہ ملک کی تاریخ میں ہمیشہ واضح لفظوں میں لکھا جائیگا۔ 22روزہ دھرنہ اسلام آباد میں ہوا اس کے ساتھ ہی پورے وطن عزیز میں بھی اسی تحریک کے دھرنے ہوئے ۔ شہر قائد میں دو درجن سے زائد مقامات پر دھرنے ہوئے جس سے پورے شہر میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اسی طرح لاہور ، فیصل آباد سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں دھرنے ہوئے جن پر انتظامیہ قابو نہیں پاسکی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے اپنی نوعیت کے منفرد آپریشن کے ذریعے دھرنے کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی، نجی ٹی وی چینلز ، فیس بک اور دیگر ذرائع نشریات تک کو بند کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی دھرنے والے ٹس سے مس نہ ہوئے۔

حکومت نے اس دھرنے سے نمٹنے کیلئے فوجی سپہ سالار کی خدمات حاصل کرنا چاہیں تاہم ا س میں انہیں ناکامی ہوئی۔ عوام اس بات پر فوج کو سلام کرتے ہیں کہ ان کی ہی مداخلت سے اور ان کے نمائندے کی موجودگی میں اک معاہدہ ہوا جس کے بعد دھرنہ بلاآخر ختم کردیا گیا ۔ دھرنہ دینے والے متعدد افراد حکومتی آپریشن کے دوران جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شامل رہے۔ متعدد زندگیوں کے چراغ دھرنے کے باعث ہسپتالوں کے راستے نہ ملنے کے سبب گل ہوگئے اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب لواحقین کو دینے والا کوئی نہیں ہے۔ تحریک لبیک کی ابتدائی کاروائی سے لے کر دھرنے کے آخری روز تک ملک کو کس قدر معاشی نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وجہ دھرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے اور کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے ختم نبوت سے متعلق قانون میں تبدیلی کی کوشش کی ؟ کیا مرکزی وزیر مذہبی امور زاہد حامد کے استعفی َ کے بعد سارے مسائل حل ہوگئے، کیا تمام سوالوں کے جوابات مل گئے ؟ یہ چند ہی نہیں اسی طرح کے دیگر سوالوں پر مبنی عوامی سروے کیا گیا جس میں اک فرد ہی نہیں ہر فرد کے جذبات نہ قابل بیان رہے۔

سوال سننے کے بعد ان کے چہرے سے ہی ان کے اندرونی جذبات کی عکاسی ہوجاتی تھی۔طلبہ و طالبات ، اساتذہ کرام، طبیب و شعبہ صحت کے دیگر شعبہ جات کے اراکین، کاروباری حضرات ،سیاسی ، سماجی ، مذہبی جماعتوں کے کارکنان ، دیگر مذاہب کے ماننے والوں سمیت تمام مکاتب فکر کے افراد سے ہونے والی گفتگو کو اگر ایک جملے میں سمیٹا جائے تو وہ یہی ہوگا کہ حضرت محمد ﷺ سے سب کو انتہا درجے کی عقیدت و محبت ہے اور ان کے نام پر ان کی شان پر سبھی جانیں قربان کرنے کیلئے یکدم تیار ہیں۔ بچے ، بوڑھے ، جوان مرد و خواتین سب محمد ﷺ پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس کے ساتھ یقین محکم سے بڑھ کر سبھی یہ بات کر تے ہیں کہ وہ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ۔ دستور میں جب ختم نبوت کے حوالے سے واضح کر دیا گیا تو پھر اس قانون کو ذرا سی بھی ردو بدل کرنے کی کوشش تو درکنار سوچ بھی ناقابل برداشت ہے۔تحریک لبیک کے دھرنون میں بیشتر تو ایسے لوگ بھی تھے جنہیں اپنے رہنماﺅں تک کے ناموں کا علم نہیں ہوتا تھا لیکن وہ اگر دھرنے میں شریک ہوئے تو اس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہی تھا کہ نبی ﷺ کے لئے بلایا گیا ہے اور ملک کے دستور میں ختم نبوت کے قانون کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے اس لئے وہ یہاں دھرنے میں آئے۔

سیاسی جماعتوں کے سبھی کارکنان کی رائے بھی یہی تھی کہ اس قانون میں کوئی بھی تبدیلی ناقابل برداشت ہے اور جنہوں نے اس اقدام کو کرنے کی کوشش کی ہے اسے قرار واقعی سزا دی جانے چاہئے ۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کا بھی یہ کہنا تھا کہ ہماری نظر میں محسن انسانیت صرف ایک ہستی ہیں اور وہ ہستی محمد ﷺ ہی ہیں۔ ہندو برادری کے لوگوں نے بھی حکومتی کاروائی کی مذمت کی اور ہر طرح سے دھرنہ دینے والوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوﺅں کا ملک تو بھارت ہے لیکن اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا ظلم ہوتا ہے اس سے اب پوری دنیا کے لوگ آگاہ ہوتے جارہے ہیں لیکن پاکستان میں ، ہمیں اپنے مندروں میں پوجاپاٹ کے دوران کھبی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے متعدد مرکزی اور صوبائی اراکین نے اپنی جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی ایسے عام درجے کے کارکنان کی تعداد کہیں زیادہ ہے جنہوں نے مسلم لیگ کے اس اقدام پر اپنی جماعت کو چھوڑ دیاہے۔

شعبہ ڈاکٹرز کا یہ کہنا بھی تھا کہ بیرونی ممالک میں ہمارے وطن عزیز کے دشمن موجود ہیں جو کہ پاکستان میں ہر طرح سے بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں انہوں نے ہی منظم منصوبہ بندی کے ذریعے اس قانون کو بدلنے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ لیکن تحریک لبیک کی آواز پر عوام کے سامنے آنے والے جذبات سے انہیں اس بات کا علم ہوگیا ہوگا کہ اب پاکستان میں ختم نبوت سے متعلق قانون میں تبدیلی بس ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔ طالبعلموں کے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ختم نبوت کو نہ ماننے والے قادیانی پاکستان میں منظم انداز میں اپنی قاروائیاں کرتے ہیں اس تحریک سے انہیں بھی معلوم ہوجانا چاہئے کہ پاکستان کی 95فیصد عوام ختم نبوت پر کس انداز میں یقین رکھتی ہے اور وہ کسی بھی طرح سے دین اور ملک کے خلاف سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔

کاروباری خضرات کا کہنا تھا کہ دھرنوں کے نتیجے میں ان کے کاروبار متاثر ضرور ہوئے لیکن اس انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے اور دیکھتے ہیں کہ ہمیں بعض مواقعوں پر کہیں زیادہ فائدہ بھی ہوجایاکرتا ہے۔ لہذا تحریک لبیک کے ہم کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ اسکولوں کے بچوں نے بھی اپنے بھرپور جذبات ا ظہار کیا ۔ بعض بچے تو سینہ تھان کر کھڑے ہوجاتے اور باآواز بلند درود شریف پڑھنے لگ جاتے اور ساتھ میں یہ بھی کہتے کہ ہمیں وہ لوگ بتائیں جو محمدﷺ کے متعلق ختم نبوت والے قانون کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ سروے کے اختتام پر یہی کہا ، سنا، لکھا اور پڑھا جائے گا کہ پاکستان کی عوام حضرت محمد ﷺ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں ختم نبوت سے متعلق منصوبوں کو کامیاب تو درکنار برداشت بھی نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔
 
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 161253 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More