نوازشریف کے خلا ف جو تحریک چلائی جارہی
ہے۔وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔یوں لگتاہے۔جیسے اب تمام اداروں اور سیاسی
جماعتوں کے لیے اس شخص کو دیوار سے لگانے کے علاوہ کوئی مشغلہ نہیں
بچا۔پوری کوشش ہورہی ہے کہ کسی طریقے سے نوازشریف کو منظر عام سے غائب
کردیا جائے۔پورازور لگ رہاہے۔مگرکامیابی نہیں مل پارہی۔نوازشریف کو دو قدم
پیچھے دھکیلا جاتاہے۔تو جانے کون سی قوت انہیں چار قدم آگے لابٹھاتی
ہے۔انہیں بدنام کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔مگر عام آدمی کی نظر میں یہ بدنامیاں
ان کی نیک نامی کی سندبن رہی ہیں۔انہیں غائب کرنے کا عزم رکھنے والے ہلکان
ہورہے ہیں۔ہانپ رہے ہیں۔مگر میاں صاحب ہیں کہ اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں پہلے
دن تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ بھی نوازشریف مخالفین کے خلاف
ہورہی ہے۔پہلے پہل مخالفین کی باتوں کو قوم نے بڑا سیریس لیاتھا۔مگر وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ میڈیا اور کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے نوازشریف
کے خلاف جو بھونڈا رویہ دیکھاگیا۔اس سے رائے عامہ بدلنے لگی ہے۔
نوازشریف نے لندن نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلے انہوں نے 20 نومبر کو لندن
روانہ ہوناتھا۔اب یہ روانگی ملتوی کردی گئی ہے۔ یہی نہیں عوامی رابطہ کا
شیڈیول بھی کچھ لمبا کردیا گیا۔پہلے مسلم لیگ ن کی طرف سے ایبٹ
آباد۔شیخوپورہ۔اور ملتان میں جلسے کرنے کا اعلان کیا گیاتھا۔اب میاں صاحب
دیگر شہروں میں بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کریں گے۔اس سلسلے میں 2دسمبر کو
وہ کوئٹہ جارہے ہیں۔رحیم یارخاں میں بھی اب وہ عوامی جلسے سے خطاب کریں
گے۔لیگی قیادت کی جانب سے لندن جانے کا فیصلہ تبدیل کرنا یقینا ملکی سیاست
کی موجودہ صورت حال دیکھنے کے بعد ممکن ہواہے۔وہ اب تک اپنے خاندان سے کیے
کئے امتیازی سلوک سے متعلق مختلف پلیٹ فارم سے رابطہ کرتے رہے ہیں۔اپنے
عالمی دوستوں سے ان کے ربطے ہوئے۔اپنی اتحادی جماعتوں کو انہوں نے
کھننگالا۔اپوزیشن کی نبض بھی ٹٹولی۔اب جبکہ وہ تمام اطراف کا مزاج بھانپ
چکے۔ان کی طرف سے عوامی رابطہ مہم کے ایک نئے شیڈیول کااعلان
کردیاگیا۔تقریبا سبھی جگہ سے ایک سا ریسپانس ملا۔سبھی نے انہیں کھل کر
پیغام دیا کہ سب طاقت کے ساتھ ہیں۔میاں صاحب اگر کمزور ہونگے تو کوئی ان کے
ساتھ نہ ہوگا۔اگر وہ اپنی طاقت منوا ئیں گے تو ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں
کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔میاں صاحب نے صلاح صفائی۔اور پرامن بیک ڈور چینل کی طر
ف سے غیر متوقع ریسپانس کے بعدہی عوامی رابطے کو اپنا آخری آپشن چنا ہے۔
عمران خاں نے ان کے ایبٹ آبادکے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ عوام کو
احتساب کرنے کا کہ کرنوازشریف انہیں بہکانے کی کوشش کررہے ہیں۔لوگ ان کی
بات پر کان نہ دھریں۔انہیں عدلیہ نے نااہل کیا ہے۔خاں صاحب کے جوڑی دار
علامہ قادری نے بھی فرمایا ہے کہ نااہل شخص کس منہ سے جلسے کرتاپھر رہا
ہے۔خاں صاحب اور قادری صاحب کی تلملاہٹ پر تعجب نہیں ہوتا۔دونوں نوازشریف
کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں اسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرچکے ہیں کہ عزت
سادات جا چکی۔ان کی تمام اچھل کود بے کار گئی۔ڈوریاں ہلانے والوں کو بالاخر
ا س جوڑی کو نامراد کہہ کر بیس سال یاد رکھے جانے والا فیسلہ سنانے والوں
سے مدد لینا پڑی۔خاں صاحب آج عوام کو نوازشریف کی باتوں پر کان نہ دھرنے کا
مشورہ دے کر اپنے کہے کی نفی کررہے ہیں۔ کل تک وہ بھی عوام سے بہت کچھ کہتے
رہے ہیں۔کیا وہ بھی عوام کو بہکانے کی کوشش تھی۔قادری صاحب بھی جس نااہل
شخص کے جلسوں پر ناک بھوں چڑھارہے ہیں۔ اس کی نااہلی کے فیصلے کی عوام میں
جو درگت بن رہی ہے۔وہ ڈھکی چھپی نہین۔ اس فیصلے کو ایک مخصوص تناظر میں کیا
گیافیصلہ قرار دیا جارہاہے۔ نوازشریف کا لندن نہ جانے کا فیصلہ دراصل
مفاہمت اور سمجھداری کے نام پر کم ہمتی دکھانے کے مشورے کو مسترد کرنے کا
فیصلہ ہے۔عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا گیاہے۔جو بالکل درست فیصلہ
ہے۔مخالفین کے لیے نوازشریف کی طرف سے ایک نئی عوام رابطہ مہم شروع کرنا
ایک نئی مصیب بن سکتی ہے۔ان کے خلاف کوئی بھی وار کارگر نہیں ہوپارہا۔ ساری
ترکیبیں ناکام ہورہی ہیں۔یہ نئی عوام رابطہ مہم مخالفین کومذید بد حواس
کرسکتی ہے۔وقت نے نوازشریف کوایسا چراغ بنادیا ہے۔جسے بجھانے کے لیے
آندھیوں کی ضرورت ہے۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھتادکھائی نہیں دیتا۔آندھیاں چلا
ناممکن توہے مگر ان آندھیوں کی قیمت چکانے کا یارا نہیں ہوپارہا۔مخالفین
چاہ کر بھی آندھیاں چلانے کاحوصلہ نہیں کرپارہے۔ |