دھرناختم، حکومت کیلئے نئے بحران کا آغاز

6نومبر کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کے مقام کو ختم نبوت ﷺ کا موضوع بناکر موجودہ حکومت کیلئے ایک آزمائش کا انتظام کیا گیا ، یہ 2014 کے بعد دھرنا آزمائش کی ایک اور لہر تھی ، حکومت کیلئے جب سے مسلسل آزمائشوں نے گھیر رکھا ہے ، پاناما کے بعد اس نئے نئے امتحان میں سب ہی کردار پرانے ہیں البتہ میاں نواز شریف سیاسی جماعت کے رہبر کی حیثیت سے اس سارے معاملے میں شامل رہے ۔ 22دن بعد اس دھرنے کا اختتام حکومت کے تئیں ہیپی انڈنگ تھا ، دھرنا تقریبا ً پر امن انداز میں اختتام کو پہنچا حالانکہ 20ویں دن دھرنا دینے والوں کیخلاف سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز دن چڑھتے ہی کردیا تھا ، فیض آباد انٹر چینج میدان ِ جنگ بن گیا۔ آپریشن کے خلاف ملک بھر میں حامیان ِ تحریک لبیک نے غم و غصہ کا اظہار کیا، احتجاج کا دائرہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کئی شہروں میں پھیل گیا، نظام ِ زندگی معطل کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں، لوگوں میں حکومت کے خلاف ردعمل بھی دیکھا گیا۔ حکومت آپریشن شروع تو کربیٹھی لیکن اس کے اوسان اس کے ساتھ نہیں تھے ، ابتداء میں ٹی وی چینلز کو براہ ِ راست نشریات کو روکنے کے احکامات صادر ہوئے اور پھر ذرا سی دیر میں ہونک ہوئی حکومت نے خبروں کے تمام نجی ادروں کی نشریات ہی بند کرڈالیں ، سوشل میڈیا بھی اس پابندی کی زد میں آگیا کہ خدانخواستہ حکومت کی پریشانی کا سبب میڈیا ہی نہ بن جائے، اس پابندی نے ملک بھر میں غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ، افواہیں اور قیاس آرائیوں نے جنم لینا شروع کردیا ۔ یہ حکومت کی نااہلی اور حماقت کی اولین دلیل ثابت ہوئی البتہ آرمی چیف کی براہِ راست مداخلت سے 27گھنٹوں بعد اس پابندی کا خاتمہ ہوا اور آپریشن روک کر افہام و تفہیم ، خیر سگالی اور خوش اسلوبی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سے معاملات طے کئے جانے پر زور دیا گیا۔ عسکری و سیاسی قیادت میں طے پایا کہ فوج دارالحکومت میں سرکاری تنصیبات کی حفاطت کرے گی جبکہ دھرنے کے خلاف جاری آپریشن میں حصہ نہیں لے گی ۔ قمر جاوید باجوہ نے بات چیت کو حتمی نتائج کا راستہ کھولتے ہوئے کہا کہ فوج اپنے عوام پر طاقت کا استعمال نہیں کرے گی ، بدامنی اور انتشار کی صورتحال ٹھیک نہیں ، دنیا میں ملک کی بدنامی کا سبب بنے گا۔ بالآخر حکومت نے اس ادارے کی رائے پر عمل کیا جو اس کے ماتحت تھا، یہ اس معہدے کا ثالث بھی بنا جو27نومبر کو حکومت اور تحریک ِ لبیک کے مابین ہوا۔ وفاقی وزیر ِ ِ قانون جو اس معاملے کے اہم کردار تصور کئے جاچکے تھے انہیں وزارت کی قربانی بھی دینا پڑی ، چشم ِ تصور میں جائیں تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان میں ایک پنجاب کے وزیر ِ ِقانون بھی کچھ وقت کیلئے قربانی کا بقرہ بن چکے ہیں ، بعد میں وہ گنگا جل میں نہا کر آئے اور دوبارہ وزیر قانون پنجاب بن کر تاحال موجود ہیں ۔حوکمت کے خیال میں زاہد حامد کی قربانی سے معاملہ ٹل گیا ، چہار جانب زندگی پھر سے آزاد فضاؤں میں سانس لینے لگی ہے اور کار ِ سرکار پرانی ڈگر میں چل پڑا ہے لیکن اس اختتام نے نئے مضامین کا آغاز کر ڈالا ہے ، نئے امتحان سر پر منڈلانا شروع ہوگئے ہیں ، نئی آزمائشوں نے سر اٹھا لیا ہے ، کیوں ۔۔۔؟ کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسی روز سماعت کے دوران جہاں ایک طرف وفاقی وزیر داخلہ کو انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کرنے کی وجہ قرار دیا وہیں فوج کے ثالثی ہونے پر بھی سوالات اٹھا دئے ہیں۔

آپ بائیس روزہ دھرنے کے سارے منظر نامے پر غور کریں تو یہی لگتا ہے کہ سوائے عدلیہ کے حکومت یا کسی اور کو عوام کی کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی ملک کی عزت و سلامتی کا کسی کو خیلا تھا،تمام تر صورتحال میں یہی لگتا رہا کہ حکومت نے شروع دن سے ہی احتجاج پر قابو پانے کیلئے کوئی سنجیدگی کا مظاہر ہ کیا اور نہ ہی احتجاج کی اس چنگاری کے شعلہ بن جانے اور اس سے پورا ملک جل جانے کی فکر کو دامن گیر کیا۔تین ہفتوں تک دھرنا بدستور جاری رہا ، تقریریں بھی ہوتی رہیں ، عقیدہ ختم نبوت ﷺ کیخلاف تفصیل سے حکو متی اقدامات پر بات کی ، مذاکرات ہونے کے باجود نتائج کا عدم حصول اس بات کی دلیل رہی کہ حکومت کو اپنی پرواہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت مان بھی گئی ، اس سے آئینی غلطی ہوئی ہے، گلطی کو درست بھی کردیا گیا، پھر اسے کس بات کا خوف تھا کہ وہ ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے سے گریزاں تھی ، یہ حکومت کی ضد تھی ، ہٹ دھرمی تھی جس نے حالات اس نہج تک پہنچادئے تھے۔ اگر ذمے داروں کو بروقت بے نقاب کردیا جاتا تو شاید صورتحال اس قدر کراب نہ ہوتی ، دھرنا بھی ختم ہوجاتا ، عوام کو مشکلات نہ پیش آتی اور حکومت پر بھی کوئی قدغن نہ آتی۔ معاملات کا حل تحمل اور تدبر سے کیا جانا چاہئے تھا جو موجودہ حکومت میں ناپید ہے ۔ اس تمام تر صورتحال میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پس منظر میں رہے ، حالانکہ ان کے منصب کا تقاضہ تھا کہ وہ اس نحرانی کیفیت میں اپنا حسن تدبر استعمال کرتے ، مگر محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے و ہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا اولین مقصد اور منصب پارٹی سربراہ سے وفاداری نبھانا ہی رہ گیا ہے جبکہ نواز شریف عدلیہ کی جانب سے نااہل ہوچکے ہیں ، کسی نااہل شخص کی تابعداری یقینا خود ہی بہت بڑی نااہلی ہے ۔ بہر کیف وفاقی وزیر داخلہ ہی کو لے لیجئے ، موصوف بھی اس تمام تر صورتحال سے بے خبر نجانے ملک کی ترقی کیلئے کس شے کی منصوبہ بندی کرنے پر لگے رہے کہ ان کے ماتحتوں کو عدلات کے رو برو کہنا پڑگیا کہ احسن اقبال ہی دھرنے کیخلا ف اقدامات کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں ۔ صحافیوں سے گفتگو کرنے اور ٹی وی چیلنز پر انہوں نے اپنے سے اس آپریشن کا بوجھ اتارکر تمام ملبہ عدلیہ پر ڈالا دیا کہ ڈی سی اور آئی جی جس آپریشن کو انجام دے رہے ہیں وہ عدلیہ احکامات کی پاسداری ہے وہ اس کا حصہ نہیں کیونکہ انہیں تو عدالت نے شو کاز نوٹس دے رکھا ۔ 27 نومبر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم باب بن گیا جب کادم حسین رضوی کی قیادت میں ہونے والا دھرناایک ایسے معاہدے کے بعد سمیٹ لیا گیا جس میں ساری من مانی مظاہرین کی تھی اور ثالثی کا کردار فوج نے ادا کیا۔ عدالت کو حکومت کی جانب سے بھی اطمینان کرادیا گیا کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوگیا ہے ، معاہدہ ہوگیا ، سب کچھ معمول پر آچکا ہے ، فکر کی کوئی بات نہیں ۔ عدالت کو معاہدے سے کیا لینا دینا تھا، اسے تو دھرنا ختم ہونے کی تفصیل درکار تھی البتہ اس معاہدے کی باگزت نے حکومت کیلئے عدالت میں نئی صورتحال بنا دی جب اس میں فوج کی ثالثی کا ذکر کیا گیا۔ دھرنے میں عدالت کے خلاف زہر افشانی کی معافی کا تذکرہ نہ ہونا ایک الگ بحث چھیڑ دینے کا بنا۔ شوکت عزیز صدیقی کو تشویش لاحق ہوگئی کہ ایک ایسا ادارہ جو انتظامیہ کا حصہ ہہے وہ ثالث کیسے بن گیا۔انہیں فوج کا یہ کردار قابل ِ قبول نہیں کہ قانون توڑنے والے او ر قانون نافذ کرانے والوں کے درمیان یہ ادارہ ثالثی کا کردار ادا کرے، اس معاہدہ کے بعد سے انہیں فوج کے آئینی کردار کے اندر رہنے پر شکوک و شبہات ہیں۔

ملک میں نو ن لیگ کا کردار روز بروز تزلی کی جانب جارہا ہے ، پارٹی میں اختلاف رائے سے بات کہیں آگے جاچکی ہے ،احسن اقبال ہی کے منصب پر رہنے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدی نثا ر ان دنوں کافی کھل کر اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، انہوں نے دھرنے کیخلاف آپریشن اور پھر بعد کے حالات کا ذمہ دار بھی احسن اقبال کو قرار دیا ہے اور اسے ان کی بدانتظامی و خراب منصوبہ بندی بھی گردانتے ہیں ۔ طلال چوہدری جو نااہلی تک نواز شریف کا غالباً اسی لئے دفاع کررہے تھے کہ شاید انہیں کوئی وزارت عطا ہوجائے ، نااہلی کے بعد نوازشریف کے جانشینوں نے انہیں بھی وزارت دے کر ان کی آزمائش میں اضافہ ہی کر دیا ہے کیونکہ ادھرفوج کو ثالثی کاکردار دینے کے احسن اقبال نے سمجھا کہ وہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال کے پیش ِ نظر ان کی منصوبہ سازی درست تھی جسے عدالت نے غلط قرار دیا، سیاست دانوں کا بھی ملا جلا رجحان ہے تاہم سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری بھی وفاقی وزیر کی اس حکمت ِ عملی کے خلاف باضابطہ طور پر بول رہے ہیں ، وہ کہہ رہے ہیں کہ جو یونیفارم پہنتے ہیں، ان کی وردی کا رنگ چاہے کوئی بھی ہو، انہیں غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی منصوبہ بندی کے وزیر بھی ان نورتنوں میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی نااہلی کی وجہ سے نواز شریف نااہل ہوئے ہیں۔
ممتاز قادری کی پھانسی سے قبل کون جانتا تھا کہ تحریک لبیک یارسول اﷲ ﷺ کیا ہے ؟خادم حسین رضوی سے کتنے لوگ آشناتھے؟ممتاز قادری کی اچانک پھانسی نے انہیں ملک میں متعارف کروایا ، پھر یہ تحریک
NA-120 میں خصوصی طور پر نون لیگ کیخلاف الیکشن لڑی ، اب اس نے ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے میں ترمیم پر اپنی سیاست چمکاکر دنیا کو اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلایا۔سیاست کی بات چمکانے کا اس لئے کہا کیونکہ جب اس ملک میں قادیانیوں کے خلاف باقائدہ تحریک چلی ، قانون پر کام شروع کیا گیا تب ایک مجلس ختم نبوت ﷺ نے جنم لیا تھا ، جس نے علماء کرام کے ساتھ مل کر ختم نبوت ﷺ کی تحریک چلائی ، قادیانیو ں کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا موقع دیا تھا ، انہیں قائل کرکے ہی قانون بنا یا گیا جس پر پھر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو ا کہ اس کے انسانی حقوق پامال ہوئے ہوں ۔ بائیس روزہ سرگرمی میں ہم نے اس مجلس کو کہیں نہیں پایا، کسی نے اس جانب توجہ بھی نہیں دی ۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے جس کی جانب جسٹس صدیقی نے ریمارکس دئے ہیں ،آپ کیلئے بھی سوچ کا یہ اہم زاویہ ہے ، تفکر ضرور کیجئے گا۔
ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے کے عنوان میں تبدیلی سے متعلق حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک غلطی تھی جو درست کردی گئی ۔ حلف نامے کے پرانے عنوان 7Bاور7Cکو قانون میں نہ صرف بہتر بلکہ بحال بھی کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ آپ ہمارے ملک کی سیاسی کمزوریوں پر نظر ڈالیں تو وقتا ً فوقتاً اس معاملہ پر بحث ہوتی رہی ہے ۔ 9/11کے بعد جہاں پوری دنیا کے مسلمانوں کو مسائل پیش آئے وہیں ختم ِ نبوت ﷺ پر ایمان رکھنے والے ہم پاکستانیوں کو بھی پرائی جنگ میں جلنا پڑرہا ہے ۔ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو شدت پسند کہا جارہا ہے البتہ قادیانیوں کو نہ صرف مسلمان بلکہ پر امن اور مظلوم ترین مسلمان قرار دیا جارہا ہے ۔ یورپ سمیت مغربی قوتیں قادیانیوں کو ًمغرب پسند مسلمان ً کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ ہر اس فورم پر جہاں کسی مسلمان کی نمائدگی ہوتی ہے قادیانی لازم ہے کہ مدعو کئے جاتے ہیں جبکہ انہیں وی آئی پی پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے ، ہندوستان کا زیرا عظم نریندر مودی جو مسلمانوں کی جان کا دشمن اور انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند کہتا ہے وہ بھی ان سے مل کر داد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ لوگ بہت پر امن ہیں ۔ یہ عالمی سطح پر ختم نبوت ﷺ کے خلاف اور پاکستان کی جڑیں کاٹنے کاکام کرتا ہوا طبقہ ہے جو عالمی قوتوں کے ذریعے ہمارے حکمرانوں پر دباؤ بڑھاتا ہے ۔ موجودہ ترمیم بھی اسی سلسل ے کی ایک کڑی ہے ۔
تحریک لبیک نے چاہے اسے سیاسی مقد کیلئے استعمال کیا ہے لیکن اس کا ردعمل عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کے تحت انسانی حقوق کا ایک زیلی ادارہ ہے جس کے تحت دنیاکے ممالک میں انسانی حقوق کی صرتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے جسے PERIODIC REVIEWکہا جاتا ہے ۔ لبیک والوں کے دھرنے کے ساتویں روز یعنی 13نومبر کو اس جائزے کے اجلاس میں امریکی نمائندے جیسی برنسٹین Jesse Berstein نے اس ًجائزہ گروپ ً کو پاکستان سے متعلق تین سفارشا ت پیش کیں جس کی پہلی سفارش میں کہا گیا کہ پاکستان فوری طور پر توہین ِ رسالت کے قانون کو ختم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام پابندیا ں بھی اٹھائی جائیں جن کے ذریعے ًقادیانی مسلمانوں ً ( قادیانیوں ) کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ اپنا خصوصی نمائندہ بھی پاکستان بھیجے جو وہاں آزادی ء رائے اور اظہار کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔

جائزے میں دیگر سفارشات کا تذکرہ موضوع سے مختلف ہے لہٰذا اسے چھوڑئے البتہ جائزے کے آخر میں دوبارہ سے قادیانیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہم توہین رسالت کے نفاذ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہی تشویش قادیانیوں پر عائد پابندی سے متعلق ہے ۔ ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ توہین ِ رسالت کے قانون اور دیگر ایسے قوانین کو سیاسی مخالفین کو دبانے اور ذاتی دشمنی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔امریکا کی جانب سے پہلی بار کھل کر اس تشویش کا اظہا ر کیا گیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ وہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھنا چاہتا جو بنیادی طور پر اسلام کے تما م احکامات کو مانتے ہوں ، عمل پیر ا ہوں اور یہ ان کے ایمان کا حصہ ہوں ۔ جائزہ گروپ کی سفارشات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ غلطی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی سازش تھی جو مقامی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر تیا ر کی گئی تھی ، ی وہ طاقتیں ہیں جو ہمارے ایمان کا سودا کرنے کے لئے پر دور میں تیار موجود ہیں ۔ یہ پاکستان کی کی برباد ی کا ایک خطرناک اور چھپا ہوا ہتھیار ہے جو استعمال ہونے کو ہر وقت تیار ہے بس کاندھا ملا نہیں اور اس نے ہلاکت میں ڈالا نہیں ۔ شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس بہت سخت ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت سے عاری نہیں کہ جس قدر ختم نبوت کے معاملہ میں یہ ادارہ حساس ہے دیگر میں ایسی کیفیت نہیں ملتی ، ہو سکتا ہے کہ اس سارے منظر نامے میں اس کا کردار بہت بڑا ہو ، کیونکہ آج تک واضح نہیں ہوسکا کہ عسکری اور سیاسی قیادت واقعی ایک پیج پر ہیں یا نہیں ۔ حالیہ دھرنے میں حکومت اور مظاہرین نے فوج کی بات مان کر کئی لوگوں حیران کردیا ہے ، حکومت اپنے تابع ادارے کو ثالث بنالے گی اس کا کسی کو احساس اس طرح سے نہیں تھا، یہ پاناما سے زیادہ ہنگامہ ہے، اب حکومت پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ فوج کے نطور ثالث ہونے کے کردار کو بھر پور انداز میں ثابت کرے ورنہ نیا بحران آیا چاہتا ہے جس کی لپیٹ میں جانے کون کون آجائے۔
Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 49086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.