تحفظِ ناموسِ رسالتؐ۔۔۔ زندہ باد

حکومت کی طرف سے ختم نبوتؐ کے بل میں لفظ" حلفیہ " کا حذف کیا جانا سمجھ سے بالا تر تھا۔انتخابی اصطلاحات میں تبدیلی کرنے کی آڑ میں اس قانون میں ردو بدل کرنے کی ضرورت ہی آخر کیا تھی؟اس شق میں تبدیلی کے حوالے سے پوری قوم میں غم و غصے کی شدید لہر دیکھنے میں آئی اور پوری قوم کے جذبات کی نمائندگی کرنے کے لیے ابتداً ہزاروں اور بعد ازاں لاکھوں افراد نے اس کے خلاف بڑی مداومت و استقامت اور عقیدت سے دھرنا دیا جس سے چند روز کے لیے معاملات زندگی میں خلل پیدا ہو گیا۔قابل صد افسوس بات یہ ہوئی جن کم نصیبوں کو اس معاملے کی نذاکت کا احساس نہیں تھا وہ مختلف بے بنیادتوجیہات کو زیر بحث لا کر کبھی تودھرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا رونا روتے نظر آئے تو کبھی اس تحریک کے پیچھے کسی دوسرے ایجنڈے کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ یہاں پہلا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا حکومتی پالیسیوں کے خلاف دیے جانے والے دھرنوں (جو یقینا اس وقت دیے جاتے ہیں جب حکومت عوام کے جائز مطالبات کو بھی ماننے میں پس و پیش یا تساہل سے کام لیتی ہے اور مذاکرات کی راہ ناہموار کر لیتی ہے ) سے ہی عام عوام کو تکالیف کا سامنا ہوتاہے؟کیا ہر روز عام حالات میں ہم سب زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس نہیں رہے ہوتے۔وزیر جس کا معنی ہی بوجھ اٹھانا ہوتا ہے تو کیااُس بوجھ اٹھانے والے کے ٹھاٹھ باٹھ عوام سے پوشیدہ ہیں۔ جو لاتعداد گاڑیوں کے جھرمٹ میں سفر کرتے ہیں اور ان کی آمد سے گھنٹوں قبل سڑکیں عوام الناس کے لیے بند کر دی جاتی ہیں۔ایمبولینسزتک کو گذرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ذرا ان کے ہسپتالوں کے دوروں کے مناظر بھی توملاحظہ کیجیے کہ کس طرح عام افراد کے لیے نظام زندگی معطل کر دیا جاتا ہے۔ان تکالیف کو قوم کی قسمت اور اشرافیہ کا حق سمجھ کر کیوں چشم پوشی کی جاتی ہے۔ دوسری بات اگر ان مولویوں کا درپردہ کوئی اور سیاسی ایجنڈا ہے تو یہ بھی بتایا جائے کہ انہیں اس ایجنڈے کی تکمیل کا موقع دیا ہی کیوں گیا ہے۔کیا سڑکوں پر نکلنے والے مولویوں نے کہا تھا کہ قانون ختم نبوتؐ میں ترمیم کرو تا کہ ہم سڑکوں پہ نکل کراپنا ایجنڈا پورا کریں۔ یہ ملک قدیرِ کُل جہاں اور محبوبِؐ مالکِ شش جہات کے نام پہ بنا ہے اور اس کی بقا کا راز بھی اسی میں ہے۔ہم سب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ہماری اوقات کیا کہ ہم آقاؐ کی شان میں رتی بھر بھی اضافہ کر سکیں،ہم تو ان کی نسبت پر پہرہ دے کر اپنی آئندہ ،ہمیشہ رہنے والی زندگی میں سکون کا اہتمام کرتے ہیں۔بڑی عام فہم بات ہے کہ سائنسدانوں کے بقول ہم 100 میں سے اپنے دماغ کا 1 ،2 یا حد 3 فیصد حصہ استعمال کرتے ہیں۔اور ذہانت کی اس قلیل ترین مقدار(یعنی جو ہماری سمجھ کی آخری حد ہے) کے استعمال سے یہ جانے ہیں کہ اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس درِ اقدس کی تحقیر نہیں بلکہ تحقیر کا احتمال بھی کفر ہے اور آپؐ کی محبت میں جان،مال،اولاد،والدین،عزت،آبرو،تن،من،اور دھن سب قربان ہے تو اگر ہمیں پوری سمجھ عطا کر دی جائے تو دلوں میں سرکارِ دو عالمؐ کی محبت کا عالم کیا ہو گا؟اس کا اندازہ شاید پھر اس دماغ کے بس میں نہیں ہے۔سب لوگ سب کاموں میں براہ راست شریک نہیں ہوتے،میدان عمل میں موجود افراد بلاشبہ باقیوں سے عظیم ہوتے ہیں لیکن باقی بھی اپنی افکار و خیالات کی مماثلت سے کسی نہ کسی قبیل کا حصہ بن جاتے ہیں،بعض دفعہ تو خود انہیں بھی خبر نہیں ہوتی کہ ان کا نام اب کن حوالوں میں استعمال ہو گا۔دلوں کی گواہیاں بھی لکھی جاتی ہیں۔بڑے بڑوں کو ہر بات میں یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ حضورؐ پر عورت کوڑا پھینکتی تھی مگر آپؐ نے اس کا گھر صاف کیا،تیمارداری کی۔اول تو یہ اصول ان کی نظر میں آتا ہی تب ہے جب گفتگو میں کسی دوسرے کو پست کرنا مقصود ہو ،ورنہ حال یہ ہے کہ خود اپنے لباس پہ کوئی چھینٹ بھی برداشت نہ کریں۔خیر آقا کریمؐ کی حیاتِ مطہرہ کی ایسی مثالوں کا یک طرفہ پہلو دیکھنے والوں کی خرد کے حوالے یہ گزارش ہے کہ آقاؐ نے بنو مخذوم کی فاطمہ نامی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیا۔غزوات میں بھی شریک ہوئے۔لفظ "عضب " آقاؐ کی تلوار کا ہی تو نام ہے ۔طائف میں پتھر بھی کھائے،گلے میں اوجھڑیاں بھی برداشت کیں لیکن جب کسی نے زکوۃ سے انکار کیا توصحابہ ؓ کی تلواریں میانوں سے باہر آگئیں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین کو پھیلانے کا طریقہ اور ہے اور دین کو بچانے کا طریقہ اور ہے۔ہر مسلمان کا دل ہر نقصان پر خون کے آنسو بہا رہا ہے۔نجانے اتنے پیارے ملک کو کس کی بری نظر کھا گئی کہ ہر دفعہ گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ جاتی ہے۔کاش قانون ختم نبوتؐ میں اس طرح کے کسی ردو بدل کا سوچا بھی نہ جاتا۔اگر اس کی نذاکت کا احساس نہیں تھا ،کر لیا تو پھر سمجھنا چاہیے تھا کہ اب فوری اس کا ازالہ کیسے کیا جائے جس سے عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور ملک خانہ جنگی کی طرف نہ جائے۔ریاست کا فرض ہے کہ عوام کو اولاد کی طرح پالے۔ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اپنائے،اور ان مذاکرات میں لچک دکھانے کا جذبہ رکھے۔ حالیہ حالات کے تناظر میں اب یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ آئندہ کوئی بھی ہو ایسے حساس مذہبی معاملات میں ترمیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔اس میں کسی ایک کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تمام ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے ۔ارباب اختیار کو منیر نیازی کی نظم "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" پڑھنی چاہیے۔
Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 29720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.