گزشتہ کچھ عرصے سے کافی مشکل موضوعات پر تحریریں لکھیں
ابتدائی دو تین لائنیں لکھنے میں تھوڑا سوچنا پڑتا ہے پھر قلم خود ہی چل
پڑتا ہے لیکن اس تحریر کو لکھنے کے لیے دس بارہ دن سے سوچ رہا تھا لیکن
موضوع ایسا ہے کہ قلم اور ہاتھ دونوں ساتھ نہیں دے رہے سمجھ میں نہیں
آتاکہاں سے شروع کروں کہاں پر ختم کروں پیارے نبیﷺ کی اتنی باتیں ہیں کہ
’’ادھوری باتیں ‘‘ کالم میں بھی ادھوری ترین رہ جائیں گی اور یہ ڈر بھی ہے
کہ غلطی سے کوئی ایسا لفظ نہ لکھا جائے جس سے خدا نخواستہ پیارے آقاﷺ کی
شفاعت سے محروم نہ رہ جاؤں ۔ماہ ربیع الاول یہ وہ عظیم و مبارک مہینہ ہے جس
میں آپؐکی ولادت باسعادت ہوئی اسی کی مناسبت سے کچھ باتیں لکھ رہا ہوں اور
یہ سوچنے کی دعوت دے رہا ہوں کہ کیا ہم اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات
پر عمل کر رہے ہیں؟
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (لوگو!تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک
پیغمبر آئیہیں۔تمھاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اورتمھاری بھلا۴ی کے
بہت خواہش مند ہیں اورمومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور)مہربان ہیں
(توبہ)
ہم لوگوں کی رہنمائی کے لیے حضور اکرم ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع ہر جو
نصیحت فرمائی پہلے اسی کو ملاحظہ فرما لیں ،آپؐ نے حجتہ الوداع کے موقع پر
جو عالی شان خطبہ ارشاد فرمایا وہ ہم مسلمانوں کیلئے ایک عظیم رہنمائی
ہے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ٗاے لوگو۔جس طرح آج کا دن ٗمہینہ ٗاور یہ شہر
حرمت والا ہے اور اِس کی عزت اور احترام کرتے ہو ٗاِسی طرح ایک دوسرے کے
جان و مان کی عزت کرو اور اِسے اپنے اوپر حرام جانو ٗدوسروں پر ظلم نہ
کرو۔خبردار میرے بعد تم لوگ سچائی کے راستے سے بھٹک نہ جانا آپس میں خون
خرابہ مت کرنا ٗعورتوں کے ساتھ شفقت اور نرمی سے پیش آنا ٗغلاموں سے اچھا
برتاؤ کرنا ٗغذا اور لباس میں اُن سے کوئی فرق مت رکھنا اُن سے کوئی کوتاہی
ہوجائے تو معاف کردینا۔اور اے لوگو جو کام کرو سچے دل سے کرو آپس میں خیر
خواہی کا جذبہ رکھو اور اتحادو یگانگت کی راہ سے ہرگزنہ بھٹکو۔دیکھنے میں
یہ ایک مختصر سی نصحیت ہے لیکن اِس میں اخلاقی تعلیمات کا ایک سمندر موجزن
ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت
کی غمخواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا
گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی
تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے بھائی چارگی اور الفت
ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی
تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ
انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے،
صحابہ اعلان کرتے ہیں’’ آج بدلے کا دن ہے‘‘ آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا
دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا
دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں
کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر
بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں
گے۔لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں
ہوا، رحمت نبوی جوش میںآ ئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے
ٹکراتی ہیں ’’کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا
جائیگا‘‘ یہ تھاآپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ
نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔
آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ منافقین اورمشرکین تک پھیلا ہواتھا۔ آپ ﷺ ان منافقین
سے بہ خوبی آگاہ تھے۔اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کا راز فاش نہ کیا،تاکہ وہ
ظاہر ایمان لانے کے بعد مکمل شہری حقوق سے مستفید ہو سکیں۔جب تک وہ منافقین
مسلمانوں کے درمیان رہے،حیات بعدازممات سے متعلق ان کے انکار میں کمی بیشی
ہوتی رہی ہوگی،تاہم آپ ﷺ کے وجودمبارک کی برکت سے اللہ تعالی نے منکرین کو
گزشتہ اقوام کے انجام کے برخلاف مکمل تباہی سے بچائے رکھا، آ پ ﷺ کی محبت و
شفقت تمام جان داروں کواپنے حلقے میں لیے ہوئے تھی۔اس سلسلے میں آپ ﷺ نے
توازن قائم رکھا۔آپ ﷺ کسی بھی انسان کے مقابلے میں زیادہ رحیم و شفیق
تھے۔آپ ﷺ کو رب کائنات اورخالق ارض و سمانے جن و انس اور دیگر مخلوقات کی
ہدایت اورفلاح کے لیے معبوث کیا۔ آپ ﷺ نے خود کو دوسروں کے لیے وقف
کررکھاتھا، کیوں کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
بھیجا تھا۔آپ ﷺکی رحمت کی جھلک نرم خوئی اور رحم دلی سے ظاہر ہوتی ہے۔ضد
اور اشتعال جیسے جذبات کا آپ ﷺ سے کچھ تعلق نہ تھا۔ انھیں اوصاف کے باعث آپ
ﷺ کے راستے کی تمام مشکلات اورکاوٹیں کام یابی اورکامرانی میں تبدیل ہوتی
چلی گئیں۔
آپ ﷺ کمال اعتدال پسند واقع ہوئے۔آپﷺ کی رحمت اللعالمین انصاف کی راہ میں
حائل نہیں ہوئی اورنہ ہی آپ ﷺ نے عفوودرگزر کی وجہ سے ظلم وزیادتی اورقانون
شکنی سے صرف نظر کیا۔ مثال کے طور پر ایک معرکے میں اسامہ بن زید نے دشمن
کیایک سوار کو زیر کرلیا،جب وہ اسے قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا،
تاہم اسامہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ موت کے خوف سے مسلمان ہو رہاہے، اسے
قتل کردیا۔آپ ﷺ کوعلم ہوا توسخت برہم ہوئے اورفرمایا۔'تو نے اس کا سینہ چیر
کر دیکھا تھا کہ تجھے معلوم جاتا کہ اس کے دل میں کلمہ پڑھا تھا یا نہیں۔'
(مطلب یہ کہ دل کاحال تجھے کہاں سے معلوم ہوا۔)
حضور اکرم ﷺ احکامات خداوندی پر بہ ذات خودسختی سے کاربندتھے۔کوئی شخص نفلی
عبادت میں آپ ﷺ کی ہم سری نہ کرسکتاتھا۔معصوم ہونے کے باوجود آپ ﷺ رات گئے
تک اللہ کے حضور گڑگڑاتے اور مسلسل دودو،تین تین روزے رکھتے۔آپ ﷺکاہر لمحہ
یاد الہی میں گزرتا،تاہم امت پرکسی قسم کابوجھ آپ ﷺکو گوارانہ تھا، یہی وجہ
ہے کہ حضور ﷺ نوافل کو مسجد کے بجائے گھر پر ادافرماتے۔ایک دفعہ معاذ بن
جبل کے بارے میں لوگوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ وہ نماز عشا میں طویل قیام
کرتے ہیں۔ معاذ سے گہری محبت کے باوجود آپ ﷺ نے فرمایا۔' کیا تم خرابی
پھیلانا چاہتے ہو؟کیا تم خرابی پھیلانا چاہتے ہو؟کیا تم خرابی پھیلانا
چاہتے ہو؟' ایک موقع پرلوگوں نے کسی مسجد کے امام کے بارے میں شکایت کی کہ
وہ جماعت کو طول دیتاہے،آپ ﷺ منبر پر یتشریف لے گئے اور فرمایا۔'لوگوں
کونماز سے دور کرنے والو!تم میں سے جو امام ہو،اسے چاہیے کہ جماعت کو طول
نہ دے۔ممکن ہے مقتدیوں میں کوئی بیمارہو یاضعیف ہو یاکسی کوجلدی ہو،
صحابہ کرامؓ حضور ﷺکے ترتیب یافتہ افراد تھے۔صحابہ کی عظمت کایہ بین ثبوت
ہے کہ وہ قلیل تعداد کے باوجود محض چند عشروں میں ایشیا اورافریقہ کے
دوردراز علاقوں تک اسلام کاپیغام پہنچانے میں کام یاب ہوگئے؛ اوران علاقوں
میں اسلام کی جڑیں اتنی گہرائی تک پہنچ گئیں کہ روئے زمین سے اسے نابود
کرنے کی غرض سے جدید ٹیکنالوجی کے باوجود یہ دین ہرروز نئی توانائی حاصل
کررہاہے اورحقیقت یہ ہے کہ مستقبل کے انسان کی نجات کا یہی واحد راستہ
ہے۔صحابہ نے دور جہالت کی وحشی قوم کو اس قدر مہذب بنادیاکہ وہ قیامت تک کے
لیے دنیا کے ایک قابل ذکر حصے کی معلم اورتاریخ کی اعلی ترین تہذیبی
اقدارکی امین قرارپائی۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے اور نبی صلی اللہ
علیہ وسلم اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔ |