جیل کی کہر آلود شام ، بدنما چڑیل کی مانند آہستہ
آہستہ اپنی صورت بدل رہی تھی۔ آسمان کا قرمزی رنگ، لوہار کی بجھی ہوئی
بھٹی کی مانند سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ کال کوٹھڑی میں بند تین قیدی اپنے رب
کی حمد و ثنا میں مشغول تھے۔ ان میں سے ایک انتہائی ضعیف العمر تھا۔ نحیف و
نزار جسم ، خزاں رسیدہ پتے کی مانند ٹھنڈ کی زیادتی سے کپکپا رہا تھا۔ لیکن
اس کی سفید، ریشم جیسی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ یہ آنسو اس کی اپنی
رہائی کے لیے نہیں ، بل کہ اپنے اُن ہم وطنوں کے لیے تھے جو ’’آزاد قیدی‘‘
تھے۔ ان کے وطن کی سرحدیں جیل کی اونچی اونچی دیواروں کی مانند سدِّراہ
تھیں۔ جن پر اُس قوم کا غلبہ تھا جو نہ کسی بوڑھے کی رعایت کرتے تھے اور نہ
ہی کسی بچے سے شفقت۔ عورت جن کے لیے کھیل تماشا اور شباب و کباب سے استفادہ
منزل تھی۔ جنہیں اپنے بچوں سے زیادہ اپنے کتوں سے پیار تھا۔
کچھ لوگ اپنے لیے جیتے ہیں۔ لیکن عظیم انسانوں کی زندگیاں دوسروں کے لیے
وقف ہوتی ہیں۔ مالٹا کے اس قیدی یعنی شیخ الہند محمود حسنؒ نے بھی اپنی
حیات کا ایک ایک لمحہ اپنے ہم وطنوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ جیل کی کال
کوٹھڑیوں میں بھی یہ سوچتے رہے ’’میرے دیس سے فرنگی کا منحوس سایہ کیسے ٹلے
گا؟‘‘ انہوں نے تین سال سات ماہ یہ عقدہ حل کرنے میں لگا دیے کہ ’’مسلمانوں
کے زوال کا اصلی سبب کیا ہے؟‘ـ‘ بالآخر جب رِہا ہوئے تو اوّلاً اِسی کا حل
یوں پیش کیا۔ ’’ہم نے مالٹا کی زندگی سے دو سبق سیکھے ہیں… ایک مسلمانوں کی
قرآن مجید سے دُوری اور دوسرا آپس کے اختلافات و خانہ جنگی۔ اس لیے میں
وہاں سے یہ طے کر کے آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام کے لیے صرف کروں
کہ قرآن کریم کو لفظا اور معنًی عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے
مکاتب ہر ہر بستی میں قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں
اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے۔ اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے
آمادہ کیا جائے۔ نیز مسلمانوں کے باہمی جدال کو کسی قیمت برداشت نہ کیا
جائے۔‘‘
آپ نے یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ کیا اور
کاسۂ وحدت لیے علی گڑھ جا پہنچے۔ مسٹر و ملا کی دیوار گرانے کے لیے سر دھڑ
کی بازی لگا دی۔ مِلِّیہ کالج علی گڑھ اور مدرسہ امینیہ دہلی کی بنیاد
رکھی۔ باوجود پیرانہ سالی کے تحریکِ خلافت میں حصہ لیا۔ 1920ء میں جمعیت
العلماء ہند میں شمولیت اختیار کی۔ سیاست کی پُر خار وادی میں آپ کا یہ
پہلا قدم نہ تھا۔ اس سے پہلے تحریکِ ریشمی رومال کی قیادت فرما چکے تھے۔
مالٹا کی ابتلاء کا سبب بھی یہی تحریک تھی۔ بغضِ افرنگ آپ کی نس نس میں
رچا ہوا تھا۔ جامعہ ملیہ کی تقریبِ افتتاح پر شرکت سے کسی نے روکا، کہا
انگریز کو آپ کا جانا پسند نہیں ہے، فرمایا: ’’اگر میری صدارت سے انگریز
کو تکلیف ہوتی ہے تو میں اس میں ضرور شریک ہوں گا۔‘‘
جدید دور کے طریقہ احتجاج کو پسند کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر موجودہ زمانے
میں توپ، بندوق اور ہوائی جہاز کا استعمال ، مدافعتِ اعداء کے لیے جائز ہو
سکتا ہے۔ باوجودیکہ قرون اولی میں یہ چیزیں نہیں تھیں تو مظاہرہ و قومی
اتحادوں اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں بھی تامل نہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ
ایسے لوگوں کے لیے، جن کے ہاتھ میں توپ و بندوق نہیں ہیں، ان کے لیے یہی
چیزیں ہتھیار ہیں۔
بہترین قائد ، مردم شناس اور قائد گَر بھی ہوتا ہے۔ آپ میں یہ صفت بدرجہ
اتم موجود تھی۔ آپؒ نے اپنے ہم آہنگ و ہم آواز آٹھ سو سے زیادہ تلامذہ
کی کھیپ تیار کی۔ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ علم کا سمندر اور نور کا
مینارہ تھا۔ امام التصوف مولانا اشرف علی تھانویؒ،حافظ الحدیث مولانا شاہ
انور شاہ کاشمیریؒ، امامِ سیاست مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الاسلام سید
حسین احمد مدنیؒ، مفتی اعظم ہند کفایت اللہ دہلویؒ، مناظرِ اسلام اصغر حسین
دیوبندیؒ، امامِ انقلاب عبیداللہ سندھیؒاور شیخ الادب اعزاز علی
دیوبندیؒجیسے جبال العلم آپؒ ہی کے چشمۂِ فیض کا کرشمہ تھے۔ اس سلکِ
مروارید کا ہر ایک موتی اپنی جگہ آفتابِ ہدایت تھا۔ تصوف، سیاست، تدریس،
تعلیم، خطابت، سیادت اور جہاد فی سبیل اللہ میںآج تک ان ہی کا ڈنکا بجتا
ہے۔
ترجمۂ قرآن، ایضاح الادلہ، حواشی مختصر المعانی، تسہیل الدراسہ، تسہیل
البیان شرح متنبی، التعلیقات علی سبع المعلقات، شرح قصیدہ بانت سعاد، عطر
الوردہ شرح قصیدہ بردہ، تذکرۃ البلاغہ اور تسہیل الحساب آپ کی علمی
یادگاریں ہیں۔ جن سے رہتی دنیا تک، انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔
آپ صرف علومِ دینیہ ہی نہیں علومِ دنیاویہ پر بھی خوب دست رس رکھتے تھے۔
شاعری، ریاضی، فلکیات اور ادب و بلاغت پر آپ کو عبور تھا۔ سینکڑوں اشعار
آپ کے حافظے میں رقم تھے۔ ایک دفعہ مرزا غالب کے شاگردِ رشید منشی ہرگوپال
تفتہ آپ سے غالب کے سینکڑوں اشعار سن کر دم بخود رہ گئے۔ عام زبان میں آپ
اردو محاورات استعمال فرماتے اور دلیل میں مومن خان، میرؔ، ذوقؔ اور غالبؔ
کے سینکڑوں اشعار فی البدیہہ سنا جاتے۔
علم و عمل کا یہ پیکرآج سے ٹھیک ایک سو سال قبل 18ربیع الاول 1339ھ بمطابق
30نومبر 1920ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ قاسم نانوتویؒ، رشید
احمد گنگوہیؒ اور شاہ عبدالغنی مجددیؒ کا یہ روحانی فرزند اور سیدنا عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کا حقیقی بیٹا ہمیں یہ پیغام دے گیا کہ
ستُونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے داغ
جہاں تلک ستم کی یہ سیاہ رات چلے |