مشرقی تہذیب کو بچانے کیلئے مغربی روایات کو ترک کرنا
ہوگا آج کے حالات میں اقبال کے شاہینوں کی کمی ظاہر کرتی ہے کہ کہیں نہ
کہیں خرابی ضرور ہے-
علامہ اقبال جنہیں ہم مصور و مفکر پاکستان، فکر اسلام، دانشور، فلا سفر،
امام غزالی ان مختلف زاویوں سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو فرطِ عقیدت سے
شاعر مشرق بھی کہتے ہیں۔ اقبال کی شاعری میں جہاں مغرب پر تنقید، عظمت
انسانی، نظریہ خودی، مرد مومن، عقل و عشق کی کشمکش اور فلسفہ عمل وانقلاب
جیسے موضو عات موجود ہیں تو وہی انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نظم فاطمہ
بنت عبداللہ میں عورت کا مقام اسلامی نقطہ سے متعین کیا۔
آپ کی شاعری محض ایک شاعرانہ تشبیہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے ایک آفاقی
پیغام ہے اقبال نے اپنی شاعری میں جن تصوارت کو علامتی پیراہن دیا ان میں
تصور شاہین کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔اقبال کو شاہین کی خود دار ی،پر
پھیلائے فضاوں کا سینہ چیرتا ، اسکی یہی تیز نگاہی ، بلند پروازی اور خلوت
بہت پسند تھی آ پ امت مسلمہ کے نوجوان کوشاہین کی طرح تخلیقی صلاحیتوں والا
دیکھنا چاہتے تھے
وہی جہاں ہے تیرا جسکو تو کرے پیدا
یہ سنگ وگشت نہیں تیرے جو تیری نگاہ میں ہے
اقبال نے اپنی شاعری سے خوابیدہ قوم کو جگانے کی انت تھک کوشش کی۔
آپ کی شاعری ہمارے اسلاف کی عمدہ تصویریں اور تاریخ اسلام کی عمدہ تحریریں
ہیں۔جہاں پرچم حق وصداقت کو بلند کرنے کے لیے کھبی صلاح الدین ایوبی نعرہ
زن ہ ہے تو کہیں ٹیپو سلطا ن ۔کہیں فاتح اندلس نے اپنی کشتیاں جلایں تو
کہیں بحر ظلمات میں ہمارے اجداد نے گھوڑے دوڑائے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ آج کا نوجوان اقبال کے شاہین کی طرح بلندیوں کے لیے
سرگرداں نہیں ۔
اپنی اصلیت کھوتا جا رہا ہے اسے طاقت گفتار پر ناز تو ہے مگر بات کرنے کا
سلیقہ نہیں۔بلندی سے پستی میں آگراحالات اور حوادث کی آندھیاں اسکے بال و
پر نوچ رہی ہیں۔ تہذیب و اخلاق کھو چکا ہے مغرب کی نقالی کر رہا ہے۔جسکا
کام آسمان پر کمندڈالنا ہے اسے آسمان نے ثریا سے زمین پر دے مارا۔ خودی کو
بلند کرنے والا فلموں اور نائٹ کلبوں میں اپنا مقام تلاش کر رہا ہے آسمان
پر نگاہیں رکھنے والوں کی نظریں مشرقیت کی ساری زنجیریں توڑ کر بازار حسن
کا طواف کر نے لگیں۔
اور نگاہ مسلمان کند ہو گئی۔اقبال کا شاہین رقص وسرور کی محفلوں میں اتنا
محو ہے کہ نہ تو شجر سے پیوستہ ہے اور نہ امید بہار ہے۔نہ کلیم کا قرینہ ہے
اور نہ ہی کلمے کا سلیقہ۔۔۔۔۔
آج حالات کی سنگینی امت مسلمہ کے جوان سے اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ
انہیں ہر صورت بربادی سامان کو ترک کرتے ہوئے گفتارکی بجائے کر دارکاغازی
اور اقبال کا شاہین نوجوان بننا ہی ہوگا عشق حقیقی اور جوش کو امر کرنا ہو
گا ا پنے پر عزم ارادوں اور حب الوطنی سے اس وقت قوم کو گرداب کے بھنور سے
نکالنا ہے۔
آنے والی نوجوان قیادت کیلئے مثال بننا ہے۔بس اسکے لئے انہیں آج سے نہیں
بلکہ ابھی سے اپنی نینوں کو پر خلوص رکھتے ہوئے ثابت قدمی سے عمل کی طرف
گامزن ہونا پڑے گااور یہ سچ ہے کہ منزل دور نہیں ہے۔
آج مسلمان فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
والا اقبال کا درس بھول چکے ہیں کارواں کو متاع کارواں کا شعور نہیں رہا
اور احساس زیاں کی کوئی ہوش ہی نہیں رہی ہے جو لوگ ہائے کرپشن ہائے کرپشن
کرتے ہیں وہ ہی کرپشن میں سب سے آگے پائے جاتے ہیں اور کوئی شرمندگی کا
احساس بھی نہیں ہے جو نیکی اور پارسائی کی دہائی دیتے ہیں وہ ہی سب سے بڑے
بدکردار نکل آتے ہیں جیسے کہ گلے میں طوق پڑ چکے ہیں ان سے نجات کی کوئی
راہ دکھانے والا راہبر ڈھونڈنے کو نہیں ملتا -
میں تو کہتا ہوں کہ ان گلوں میں پڑے ہوئے طوقوں کو نکالنے کا یہی حل ہے کہ
اللہ کی نازل کردہ شریعت کے پیوکار بن جائیں اور ایسا تب ہی ممکن ہے کہ
ہمارے ملک کی فوج لوگوں پر اسلامی قانون نافذ کرے اور ہر فرد ملّت کا ستارہ
بن کر اپنے مجاہد حق ہونے کا ثبوت دے اور اس طرح سے فوج کی تعداد کروڑوں
میں ہو جائے جو ارکان اسلام اور اللہ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض کو سر
انجام نا دیں ان کو ٹیکس اور جرمانوں اور دیگر قانونی دشواریوں کا سامنہ
کرنا پڑے یا تو وہ اسلام کی مکمّل پیروی کرے یا وہ صاغرون ہو کر رہے شناخت
اور پہچان نماز روزہ جہاد اور سنّت نبوّی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہونا
چاہیے نا کہ بت پرستوں کی پیروی کرتے ہوئے تصویر اور کرپٹ سیاست دانوں کی
جھوٹی تصدیق- |