امریکی سائٹ وائس آف امریکہ نے یہ بیانیہ شائع کیا ہے کہ
امریکہ نے پاکستان میں طالبان کی طرف سے پشاور میں ہونے والے دہشت گرد حملے
کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اور مزید کہا ہے کہ جمعہ کو پشاور میں زرعی تربیت گاہ پر دہشت گردوں کے
حملے میں کم ازکم 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ سکیورٹی فورسز نے کارروائی
کرتے ہوئے تینوں حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے میں 35 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے جن کی اکثریت مختلف اسپتالوں
میں زیر علاج ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ "ہم متاثرہ
خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور اس حملے میں زخمی ہونے
والے افراد کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔"
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ " ہم (امریکہ) پاکستان کے عوام اور حکومت کے
ساتھ ہیں اور پاکستان اور خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر دہشت
گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔"
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور اس کے
ایک ترجمان محمد خراسانی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ فوج کی انٹیلی جنس
ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ایک خفیہ دفتر پر کیا گیا۔
جمعہ کو پاکستان میں پیغمبر اسلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے عام تعطیل تھی
اور بتایا جاتا ہے کہ اسی بنا پر زرعی انسٹیٹیوٹ میں طلبا اور عملے کی
تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
حملہ آور برقع میں ملبوس تھے جو حکام کے بقول ایک رکشے کے ذریعےیہاں پہنچے
اور عمارت کے باہر موجود چوکیدار کو گولیوں سے نشانہ بنا کر عمارت میں داخل
ہوگئے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہیں پولیس اور پھر فوج کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور
کارروائی کے دوران تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔
یہ وہ خبر تھی جو امریکی سائٹ پر شائع ہوئی ہے اب انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ
خبر پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہے ایک طرف تو امریکہ
ہمارا ہمدرد بن کر تعزیت اور تسلیت پیش کر رہا ہے اور حملہ آوروں کی مذمت
کر رہاہے اور دوسری طرف سے انہی دہشت گردوں کی مدد بھی کر رہا ہے ان کو
اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے اور ان پر پیسہ بھی خرچ کر رہا ان کو سہولیات
بھی مہیا کر رہا ہے ۔
امریکہ کی یہ دوہری پالیسی آج تک کسی کو سمجھ آئی ہے اور نہ ہی آئے گی
کیونکہ ان کو پتا ہے پاکستانی قوم میں بکنے والے بہت ہیں یہ نہیں تو کوئی
اور سہی اور اسی طرح وہ اپنا زہر مسلمانوں میں سرایت کرتا رہے گا لیکن ہم
لوگ کبھی بھی اس بات کو جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ جب تک
ہمارے آپس کے اختلافات ختم نہیں ہوں گے تب تک ہمیں دوسروں کی غلامی کرنی ہے
۔
|