تبرکات سے محبت پاکستانی عوام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
یہ لوگ زندہ لوگوں کی اتنی قدر نہیں کرتے جتنی کہ ان سے منسوب اشیاء کی
کرتے ہیں۔ پھر تبرکات خاص طور پر تبرکاتِ نبوی ﷺ کی قدر ہونی بھی چاہیے کہ
یہ ہمارے عقیدے کا جزو ہے۔ امام قرطبی رحمہ اﷲ کے اشعارحضور نبی کریم ﷺ کے
نعلین مبارک کے بارے میں المواہب اللدنیہ میں منقول ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے:
’’ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس
عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہو سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں بلند ترین جگہ
پر رکھ۔ کیوں کہ درحقیقت یہ (ہمارے سر کا) تاج ہیں۔ اگرچہ دیکھنے میں جوتے
ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے لے کر اب تک تبرکات کی
حفاظت کا اہتمام ہوتا آیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ
کندن کے ساتھ ساتھ کھوٹ کی ملاوٹ بھی ہوتی آئی ہے۔ چناں چہ جہاں اصل تبرکات
دنیا میں موجود ہیں تو نقلی تبرکات بھی گردش میں ہیں۔ اسی لیے علماء کرام
نے فتوی دیا ہے کہ کسی بھی تبرک کا نہ تو انکار کیا جائے اور نہ ہی انھیں
حتمی قرار دے کر غیر شرعی احترام کیا جائے۔ کیوں کہ ممکن ہے جس کا انکار
کیا جا رہا ہے وہ اصلی ہو۔ لیکن جہاں اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ یہ نقلی
تبرک ہے تو اس کا ردّ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ عوام کالانعام جہالت کی
وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہو کر شرک و بدعت کا شکار نہ ہو جائیں۔
خلیفہ مہدی، عباسی سلطنت کا فرماں روا تھا۔ ایک مرتبہ اپنے دربار میں بیٹھا
تھا کہ ایک آدمی جوتوں کی ایک جوڑی لایا۔ کہنے لگا ’’یہ نعلین مبارک ہیں۔
انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود زیب تن فرمایا ہے۔‘‘ خلیفہ نے اس سے
جوتے لیے، انھیں بوسہ دیا، آنکھوں پر لگایا، اور پھر اُس آدمی کو اشرفیاں
دے کر رخصت کر دیا۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو ایک درباری سے کہا کہ یہ جوتے
باہر گلی میں پھینک آؤ۔ سارے درباری حیران ہو گئے کہ ابھی ان جوتوں کو
آنکھوں سے لگایا جا رہا تھا اور اب باہر پھینکنے کا حکم دے دیا گیا ہے؟
خلیفہ نے ان کی حیرانی بھانپ لی اور کہا ’’میں جانتا تھا کہ یہ جوتے ، نبی
علیہ الصلوۃ والسلام کے نہیں ہیں۔ یہ آدمی محض پیسوں کی لالچ میں انھیں نبی
علیہ الصلوۃ والسلام کی جانب منسوب کر رہا ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا خوف تھا
کہ اگر میں نے ان جوتوں کی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی جانب نسبت کا انکار
کر دیا تو یہ آدمی باہر جا کر بدنامی کرے گا اور کہے گا کہ خلیفہ مہدی نے
نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے نعلین مبارک کی بے حرمتی اور گستاخی کی ہے۔
چناں چہ میں نے شر اور بدنامی سے بچنے کے لیے یہ اقدام کیا۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محکمہ اوقاف کے کارپردازان بھی شاہی مسجد لاہور یا
دیگر جگہ پڑے تبرکات کو محض پیسہ کمانے یا عوامی ردِّعمل سے بچنے کا ذریعہ
سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ پندرہ سال کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک
ان نعلین مبارک کا سراغ نہیں لگ سکا جنہیں 31جولائی 2002ء میں بادشاہی مسجد
سے چُرا لیا گیا تھا۔ محکمہ اوقاف کی نااہلی دیکھیے کہ اس لمبے عرصہ میں اس
معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ حتی کہ عدالت میں درخواست تک نہیں دی
جا سکی۔ یہ درخواست بھی پرائیویٹ شہریوں پیر ایس اے جعفری اور جناب خالد
محمود صاحب نے جمع کرائی۔ جس پر فاضل جج مسٹر جسٹس محمد انوارالحق صاحب نے
محکمہ اوقاف کے سربراہان سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’چیف
ایڈمنسٹریٹر اوقاف اور محکمہ اوقاف آرگنائزیشن و مذہبی امور پنجاب نے چور
کی اطلاع دینے والے کے لیے بیس لاکھ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا
ہے۔‘‘کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ محض اعلان کر دینے سے کیا نعلین مبارک
برآمد ہو جائیں گے؟ شاید اسی لیے فاضل جج صاحب نے 22دسمبر تک اس کیس کی
سماعت ملتوی کر دی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ وطنِ عزیز سے قیمتی نوادرات چوری کیے گئے ہوں۔
بل کہ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک پاکستان سے چار سو بلین ڈالر یعنی
4,212,004,000,000,000 روپے کے قیمتی نوادرات چوری کیے جا چکے ہیں اور
انہیں امریکہ، یورپ، آسٹریا، یو اے ای اور برونائی وغیرہ کے ہاتھ فروخت کیا
گیا ہے۔ یہ چوریاں مذہبی نوادرات کے علاوہ ہیں۔ اور ریکارڈ میں آ سکی ہیں۔
مذہبی نوادرات کا سرقہ ان کے علاوہ ہے۔ مثلا کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک
آدمی نے سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کے دستِ مبارک سے لکھے گئے قرآن مجید کے دو
ورق محض ایک لاکھ روپے میں فروخت کر دیے تھے۔ اسی طرح میر پور خاص اور
تھرپارکر کے عجائب گھروں سے قیمتی اور نایاب قرآنِ مجید چوری ہونے کی خبریں
اخباروں کی زینت بن چکی ہیں۔ بادشاہی مسجد کے سابق خطیب مولانا محمد اصغر
عباسی صاحب کے بقول نعلین مبارک چوری نہیں ہوئے بل کہ انھیں چار کروڑ روپے
میں فروخت کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک ویب سائٹ کے مطابق انھیں برونائی کے
شہزادے نے خریدا ہے۔ جس نے چوری کی واردات سے کچھ عرصہ قبل یہ پیشکش بھی کی
تھی کہ اگر مجھے یہ دے دیے جائیں تو میں پاکستان کا سارا قرضہ اتار دوں گا۔
یہ تبرکات خاندانِ تیموریہ کے ذریعے سولہویں صدی میں برصغیر آئے۔ اور مختلف
ہاتھوں اور جگہوں سے گھومتے ہوئے بالآخر بادشاہی مسجد میں پہنچ گئے۔ جنہیں
حکومتِ پاکستان نے عوامی زیارت کے لیے رکھوا دیا۔ جن کی زیارت سے مجھ جیسے
گنہ گار لوگ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا اور ذہنوں کو معطر کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا
ہے کہ یہ نعمت بھی شاید ہم سے چھین لی جائے گی۔ محکمہ اوقاف کے کارندے یہاں
سارا دن کھڑے رہتے ہیں اور زائرین سے زبردستی چندا مانگتے ہیں۔ بعض لوگ ان
کے رویے کی بنا پر زیارت کیے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔حکومت اپنے ان
آدمیوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھے۔
نعلین مبارک کی تلاش کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک شفاف انکوائری کرائے۔ یہ
انکوائری محکمہ کے اندر کے لوگوں سے ہونی چاہیے۔ خاص طور پر اُس وقت کے
وزیراور ڈی جی اوقاف سے۔ نیز سابق وزیر اعلی چودھری پرویز الہی کے انکوائری
کمیشن جن کے سربراہ خواجہ طارق مرحوم تھے، کی رپورٹ بھی منظرِ عام پر لائی
جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان میں موجود مذہبی و دینی نوادرات کا
ریکارڈ جمع کیا جائے اور پھر انھیں کمپیوٹرائز کر کے آن لائن کر دیا جائے۔
تاکہ جو شخص بھی ان سے کسی بھی طرح مستفید ہونا چاہے (زیارت یا تحقیق کے
لیے) تو اُسے کوئی دِقّت نہ ہو۔ نیز ان کی شرعی و تاریخی حیثیت بھی واضح کر
کے آن لائن کر دی جائے۔ |