قرآن کریم کی سورۃ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اے
نبیؐ ہم نے بھیجا ہے آپ ؐ کو گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا اور (بروقت)
ڈرانے والا اور دعوت دینے والااﷲ کی طرف سے اس کے اذن سے اور روشن کردینے
والا آفتاب اور آپ مژدہ سنادیں مومنوں کو کہ ان پر ا ﷲ کا بہت بڑا فضل
ہے(آیت ۴۵،۴۶،۴۷) ۔سورۃ الانبیاء میں فرمایا ،اور نہیں بھیجا ہم نے آپؐ کو
مگر سراپا رحمت بنا کر تمام جہانوں کے لیے۔ (آیۃ ۱۰۷)۔اﷲ رب العالمین نے
جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سورۃ احزاب میں تمام مومنوں پر
فضلِ کبیر یعنی سب سے بڑا فضل اور سورۃ انبیاء میں تمام عالمین پر رحمت
قرار دیا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں رب کائنات نے خود کو رب العالمین یعنی تمام
جہانوں کا پروردگار فرمایا، اسی طرح عالمین کی ہر شے جس کا وہ رب ہے کے لیے
اپنے محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا دیا۔ یہ بہت عجیب سے
بات ہو گی کہ رحمت سے مراد صرف دین اسلام اور عالمین سے مراد صرف جن و بشیر
کو ہی تصور کر لیا جائے،اگر یہ مان لیا جائے تو اس تشریح سے نہ صرف کائنات
کی دیگر نعمتیں اس تعریف سے باہر ہو جائیں گی بلکہ (معاذ اﷲ) اﷲ رب
العالمین کی ربوبیت بھی محض جن و بشر تک محدود قرار پائے گی۔ کیونکہ شریعت
کے مکلف تو صرف جن اور انسان ہیں، نہ کہ نباتات ، جمادات ، حیوانات ، ارض و
سماء، ملائکہ اور ان سے ماسوا جو کچھ بھی علمِ ربی میں ہے ۔ لہذا ان آیات
کے مطابق اﷲ تعالیٰ اپنے تخلیق کردہ تمام عالمین کا رب اور نبی مہربان جناب
محمد مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان پر رحمت ہیں۔ کائنات کے ہر خزانے
کا مالک و محتار اﷲ تعالیٰ ہی ہے لہذا عالمین پر رحمت کے معنیٰ یہ ہوئے کہ
تمام آفات و بلیات ہمارے برے اعمال کی وجہ سے براہ راست اﷲ تعالیٰ کی جانب
سے وارد ہوتی ہیں اور ہر طرح کی رحمتوں کا نزول رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے وسیلے اور ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اﷲ عطا
کرنے والا ہے،۔جامع ترمذی میں حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ دعا آسمان اور زمین
کے درمیان معلق رہتی ہے ،اُس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں جاتا یہاں تک کہ
رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بدیہ درود پیش نہ کیا جائے۔
قرآن کریم کی سورۃ یونس میں ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ’’ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم فرما دیں اﷲ کے اُس فضل اور رحمت اور اس پر چاہیے کہ خوشی کریں، یہ
بہتر ہے(دنیاوی و اخروی مال) جو وہ جمع کرتے ہیں(آیۃ ۵۸) دنیا میں لوگ دو
ہی چیزیں جمع کرتے ہیں ، نیکو کار بھلائی اور خیر جبکہ دنیاد ار دنیاوی مال
و متاع۔ اِس دنیا کی تو بات ہی کیا ،کہ خود رب ذوالجلال نے اس دنیا کی
وُقعت مچھر کے پر کے برابربھی نہیں بنائی اگر وہ اس قدر بھی ہوتی تو وہ رب
اسے کافروں کو ہر گز نہ دیتا۔ سرو ر کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
ہیں کہ ’’اس دنیا کی حیثیت بدبودار مردار سے بڑھ کر کچھ او رنہیں‘‘بعض
مفسرین کے مطابق اگر سورہ یونس میں مذکور ’’فضل و رحمت‘‘ کو قرآن یا دین
اسلام ہی مان لیا جائے تو قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیۃ مبارکہ میں تو صرف
فضل و رحمت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس پر حکم دیا جارہا ہے کہ مومنین
خوشیاں منایا کریں جبکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو تو رب العالمین نے فضلِ
کبیر اور رحمت للعالمین قرا ردیا ہے۔اگر محض فضل و رحمت پر خوشی منانا حکم
ِقرآن ہے اور یہ عمل ہر جمع کردہ نعمت سے بڑھ کر ہے تو جس ذاتِستودہ صفات
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خود رب ذوالجلال فضلِ کبیر اور رحمت اللعالمین
قرار دے رہا ہے ،کے مل جانے پر خوشی منانے کی کیا عظمت و شان ہو گی۔ یہ
کتنا عظیم عمل ہے کہ جس سے ابولہب جیسا کافر وزندیق بھی اجر پا گیا اور
دوسری طرف آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں معمولی سی بے احتیاطی سے
تمام اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام ہی
تمام اعمال کی مقبولیت کی سند اور کنجی ہے ، بقول مولانا رومؒ
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید ؒو بایذید ؒایں جاء
مولانا رومؒ نے روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو آسمان کے نیچے ایک ایسا
عظیم مقام قرار دیا ہے جس کے معاملہ میں عرشِ اعظم سے بھی زیادہ احتیاط کی
ضرورت ہے۔ یہ وہ عظیم مقام ہے جہاں عارفوں کے سردار حضرت جنید بغدادیؒ او
راولیاء کے سرتاج حضرت بایذیر بسطامیؒ سانس بھی ادب سے لیتے ہیں۔
جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یو مِ ولادت پر خوشی منانا
درحقیقت رب ذوالجلال کے حضور اظہار تشکر کرنا ہے۔ ’’عید‘‘ عربی زبان میں
خوشی منانے کو کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
غلاموں نے اپنے محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عید سے
تعبیر کیا ہے۔ یہی وہ عید ہے جو مسلمان 12ربیع الاو ل کو خصوصی اہتمام سے
منانے ہیں جبکہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یوم ولادت
پر ہر سوموار کو (روزہ رکھ کر) اس کا اظہار فرمایا ہے ۔ حضرت ابو قتادہؓ نے
جب آپ ؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپؐ ہر پیر کو
روزہ کیو ں رکھتے ہیں ؟،تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن
میری ولادت ہوئی تھی ۔ گویا حضور رحمت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی
ولادتِ با سعادت کی خوشی میں رب العالمین کے حضور روزہ رکھ کر اظہار تشکر
فرمایا۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اِسی روز( یعنی یوم ِولادت) حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا وصال بھی ہوا تو اس کا غم کیوں نہیں مناتے؟ اُن کی خدمت میں فقط
اتنی گزارش ہے کہ اگرچہ کسی لمحہ انسان کا کسی بات پر غمزدہ ہو جانا فطری
اور جائز عمل ہے ،مگر قرآنِ کریم نے خوشی منانے کی طرح غم منانے کا کہیں
حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کی بھی ایک حد مقرر کردی گئی ہے کہ کسی میت کے ورثاء
کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔ اس لیے مسلمان اپنے آقا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں ،وصال کا غم نہیں مناتے۔ اعلیٰ حضرت
عظیم البرکت الشاہ امام احمدرضاخاں ؒ فرماتے ہیں،
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ،وہ جون ہ ہوں توکچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی ،جان ہے تو جہان ہے
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و کرم اور رحمتوں کا بحرِبیکراں ازل سے
ابد تک ابرِباراں کی طرح جاری و ساری ہے۔ اﷲ رب العالمین کا بے حد و حساب
شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنے اُس محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت
میں پیدا فرمایا، جس کی عظمتوں کا چرچا اور جن کے ذکر کو وہ پروردگار خود
بلند فرماتا ہے۔آزادکشمیرکے دارالحکومت مظفرآباد میں مرکزی سیرت کمیٹی کی
تحریک پر غلامان رسول نے جس طرح جشن عیدمیلادالنبی ﷺ کے حوالے سے یکم ربیع
الاول سے ہی شہرمیں چراغاں وسجاوٹ کا آغازکردیاتھا،نوربیع الاول تک
پوراشہرسجادیاگیاہ،جس کی پورے ملک میں مثال نہیں ملتی۔مساجدمیں روزانہ
بعدنمازفجرمحفلِ درودوسلام،محافل نعت،جلسہ ہاء میلادالنبی ﷺ کا
انعقادکیاجارہاہے ‘لائق تحسین وقابل تقید ہے۔مظفرآباد میں تمام تعلیمی
اداروں،سرکاری ونجی اداروں میں محافل نعت کا انعقادجاری ہے۔اسی طرح مقبوضہ
کشمیر اور پاکستان سمیت دنیابھرمین مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم سے محبت وعقیدت کے اظہارکے لئے جشن میلادالنبی ﷺ منارہے ہیں۔
الحمدﷲ، ہمیں بھی ایک بار پھر اﷲ کے محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
میلاد ِپاک کی خوشیاں منانے اور رب العالمین کا شکر ادا کرنے کا موقع مل
رہا ہے۔ ہو سکتا ہیکہ یہی لمحات ہماری دنیاو آخرت میں کامیابی کا زینہ بن
جائیں۔ تمام اہل اسلام کو جشن عید میلاد النبیؐ مبارک ہو
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند، اُس دل افروز ساعت پر لاکھوں سلام
ڈال دی قلب میں عظمت ِمصطفیؐ، سیدی اعلیٰ حضرتؒ پہ لاکھوں سلام
مصطفیؐ جان رحمت پر لاکھوں سلام،شمعِ بزم ہدایت پر لاکھوں سلام |