ترقی پسندی کا خاتمہ ۱۹۵۳ ء میں ہو چکا تھااور اُردو ادب
کے دروازے پر جدیدیت شدّت کے ساتھ دستک دے رہی تھی لیکن ۱۹۷۰ء کے آس پاس
جدیدیت بھی دم توڑ رہی تھی۔ جو دھیرے دھیرے ۱۹۸۰ء تک آتے آتے بالکل ہی ختم
ہو گئی اور اُردو شاعری نے ایک نئی کروٹ لی اور ما بعد جدیدیت سے نئے عہد
کی تخلیقیت تک کا نیا غزلیہ منظر نامہ وجود میں آیا۔نظام صدّیقی اپنے فکر
آلود اور معنی خیز مضمون ــ ـ ــــ’’نئی غزلیہ تخلیقیت کی تیسری لہر‘‘میں
رقمطراز ہیں:
’’فی زمانہ روایتی ترقی پسندی بے معنی آموختہ اور روایتی جدیدیت بھولا ہوا
حافظ ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اس اختتامیت انگیز(ENDISM )تناظر
نہایت مثبت طور پر ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کا بسیط دور ہے۔ اس
میں نئی وجودیت ، ساختیات، مابعدساختیات ، مظہریات ، تفہیمیات ، رد تشکیل
اور قاری اساس تنقید کی لہریں بیک وقت رواں دواں ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے
منفی عناصر کا ارتفاع کرکے نئے عہد کی تخلیقیت سے ہم آہنگ ہو رہی ہیں․․․سکہ
بند محدود معنوں میں فیشن گزیدہ جدیدیت کی جو تحریک ۱۹۵۳ء میں ادارہ رسیدہ
ترقی پسندی کے آہن پو ش معتقدات کی فصیلوں کی شکست و ریخت میں کامیاب ہوئی
تھی، آج وہ خود حنوط شدہ دقیانوسیت ، عصبیت اور ادعائیت کے مترادف ہو گئی
ہے۔ یہ اپنے کو محفوظ گھونسلوں میں سمیٹنے کا ایک آسان وسیلہ بن چکی ہے،
اور ما بعد جدیدی منظر نامے میں نئی فکر کی تازہ ہواؤں کو روکنے میں ناکام
ہوکر خود اپنی شکست کی آواز بن گئی ہے۔
ما بعدجدیدیت موضوعاتی ، اسلوبیاتی، ساختیاتی، لفظیاتی اور نحویا تی سطح پر
بہت حد تک جدیدیت سے متغائر ہے۔ اس کو اپنے فوری پیشرووں سے سراسر انکار
کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو خود ہی اختتامیت(ENDISM ) بہ کنار ہیں۔ مابعد
جدید تنقید کے نئے جمالیاتی اور اقداری معیار (موٹے طور پر ) (۱) باغیانہ
ریڈکل کردار، (۲) وفور تخلیقیت ، (۳) کثیرمعنیات (۴) متن کالا شعور، (۵)
ادب میں سیاسی اور سماجی معنویت ، (۶) آئیڈیولوجی کی ہمہ گیر کارفرمائی،
(۷) قاری اور قراَت کا خلاقانہ تفاعل ، (۸) حسن پارے کی تمام طرفوں کی
واشگافی ہے۔ ان ما بعد جدید ادبی اور فکری معیاروں اور قدروں کی نسبت
جدیدیت گزیدہ، منجمد جمالیاتی فکر سے نہیں ہے۔ یہ اکثر متجسس، تازہ کار اور
متحرک جمالیاتی اور اقداری فکر ہے۔ عصری سیاق میں نئی قدریں، نیا حسن ، نیا
آدمی، نئی دنیااور نیا انصاف ہی یکسر غیر مرئی ہے۔ اس لیے آج کی سب سے بڑی
ضرورت ہے کہ نئی فکر ، معیار اور قدر کی بابت سمجھوتہ پرست اور مصلحت گزید
ہ روّیے اور برتاؤکو ختم کیا جائے اور ہر نوعیت کے تنظیم پرور اور فرقہ
پرست فکری اور فنّی جمود سے بے محابا نبردوآزما ہوا جائے جو یکسر روایت (ادبی
فرقہ واریت یا مردہ روایت) کے مترادف ہے۔ ان کے بر خلاف اپنے قومی اور
عالمی سیاق سے جڑ کر اپنی عظیم تر زندہ اور متحرک روایت کی روشنی میں مابعد
جدید معاثرے کی نوزائیدہ اور پروردہ نئے عہد کی تخلیقیت کی پرورش کی جا سکے۔‘‘
(ایوان اُردو، فروری ۱۹۹۶)
ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے شعرا کے ذہنی رویہ اور طریقۂ
کار سے مختلف رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اُردو غزل کے نئے تناظرمیں
تواریخیت، تانثیت، ثقافت، کثیرالمعنویت اور عمرانی (Sociological ) مسائل
موجود ہیں۔ اس ما بعدجدید نسل کے نمائندہ غزلیہ شاعروں بشیر بدر، ندا فاضلی
،عالم خورشید، خورشید اکبر، ندا فاضلی، ڈاکٹر سیفی سرونجی، گلزار، عنبر
بحرائچی، ابراہیم اشک، مقیم اثر، خالد عبادی، عبید صدّیقی، رؤف خیر، شہناز
نبی، عذرا پروین، جینت پرمار، عزیز پریہار، مہتاب حیدر نقوی، فرحت احساس،
شکیل اعظمی، شین․کاف․ نظام اور جمال اویسی و غیرہ کے نام شامل ہیں۔اس ما
بعدجدید نسل کے غزلیہ شعرا ء کے یہاں ہمیں تیزی سے بدلتا ہوا شعری و ادبی
تخلیقیت افروز منظر نامہ، مقامی و علاقائی تہذیب اور ثقافت کا احساس،
جاگیردارانہ عہد کی وضع کردہ ادبی پیمانوں سے انکار اور آزادیٔ فکر و نظر
ملتی ہے۔ جس نے اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بڑے تغیر کا سیلاب برپا کر دیا۔
ان غزلیہ شاعروں کے فن پاروں میں نئی جمالیات اور نئی تہذیبی قدریات
کارفرما ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کا تنقیدی اظہاریہ ما بعد
جدیدیت کے عالمی تناظر میں نہایت ہی روشنی بخش ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ
اپنی مایہ ناز نصنیف’’جدیدیت کے بعد‘‘کے صفحہ ۲۷ اور ۲۸ میں فرماتے ہیں کہ:
’’مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی کے خلاف ہے، اس لیے کہ کلیت پسندی،
آمریت، یکسانیت اور ہم نظمی کا دوسرا نام ہے، اور یکسانیت اور ہم نظمی
تخلیقیت کے دشمن ہیں۔ تخلیقیت غیر یکساں، غیر منظّم اور بے محابا ہوتی ہے۔
یہ LIBIDO ُخواہش نفسانی‘ کا نشاط انگیز اظہار ہے۔ تخلیقیت کا تعلق کھلی
ڈلی آزادانہ فضا سے ہے، یہ عبارت ہے خود روی اور طبعی آمد (SPONTANEITY) سے۔
تخلیقیت کو میکانکی کلیت کا اسیر کرنا اس کی فطرت کا خون کرنا ہے۔ کلیت
پسندی کے مقابلے پر ما بعد جدید فکر تفرق آشنائی کو موجودہ عہد کا مزاج
قراردیتی ہے۔ مرکزیت کا تصور اسی لیے ناپسندیدہ ہے کہ کلیت کا پیدا کردہ ہے۔
تخلیقیت مائل بہ مرکز نہیں ، مرکز گریز قوت رکھتی ہے۔ تخلیقیت آزادی کی
زبان بولتی ہے جبکہ کلیت محکومیت پیدا کرتی ہے، لیک پر چلاتی ہے، فکر پر
پہرہ بٹھاتی ہے اور معنی کی راہ بند کرتی ہے۔ پس ساختیاتی فکر کی رو سے آرٹ
کی خودمختاری مشکوک اسی لیے ہے کہ جب معنی کا مرکز نہیں توکثیرالمعنویت پر
پہرہ کیوں کر بٹھایا جا سکتا ہے۔ نیز معنی کے تفاعل میں جو نہی قاری (یا
سامع یا ناظر) داخل ہو جاتا ہے، آرٹ کی خود مختاری ساقط ہو جاتی ہے، اس لیے
کہ فقط قاری متن کو نہیں پڑھتا ہے۔ مصنف معنی کا حکم یا آمر نہیں کیوں کہ
معنی قرأت کی سرگرمی اور قاری کے تفاعل کا نتیجہ ہے اور ہر متن بدلتی ہوئی
ثقافتی توقعات کے محور پر پڑھا جاتا ہے۔ معنی خیزی کا لامتناہی ہونا
تخلیقیت ہی کی شکل ہے۔ لہٰذا تکثیریت، بے مرکزیت ، بھرپور تخلیقیت ،
رنگارنگی، بوقلمونی ، غیر یکسانیت اور مقامیت بمقابلہ کلیت پسندی و آمریت
ما بعد جدیدیت کے نمایاں خصائص ہیں۔ ‘‘
اپنے ذات، ذہن، ضمیر اور اپنے گردوپیش معاشرہ اور کائنات کی بابت مابعد
جدیدیت اور نئے عہد کی تخلیقیت کے شاعروں کا رویہ خاصہ سائنسی لیکن تخلیقی
عمل خاصہ جمالیاتی ہے۔ یہ غزل گو انسان کی جبلی و تخلیقی قوت کو آخری پناہ
گاہ تصور کرتے ہیں۔ سائنس، سماجی علوم یا فلسفے جو تمام مسائل کے حل کے
دعویدار تھے، وہ سب اس دور میں ناکامیاب ہو گئے ہیں۔ فی زمانہ عالمی ، قومی
اور عالمی تہذیبی منظرنامہ میں فلسفہ، فن اور ادب کے حاشیوں میں جشنِ مرگ
بپا ہے۔ اس عہد مرگ کے سیاہ تناظرمیں بھی مابعد جدید غزلیہ شاعری یکسر نئے
توازن ، نئی تبدیلی اور نئی شروعات کی آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور بیکراں
حقیقی ، تخلیقیت اور معنویت سے روشن غزلیہ شاعروں سے امید باندھتی ہے کہ
انسان اپنے تخلیقی عمل اور وسعت فکر و نظر سے اپنی کائنات خود تخلیق کر
سکتا ہے۔مابعد جدیدغزل گو کی غزلیہ تخلیقات میں بہت سارے سوالات ہیں، بے
اطمینانیاں ہیں اور فریب شکستگیاں موجود ہیں۔ شدید نائے عظیم(Great nay) کی
کیفیت برقرار ہے۔ وہ اکیسویں صدی کے تناظر میں روایتی مخصوص اور مشروط نظام
کائنات کی بعض چیزوں کو مقرر اور اٹل تصور نہیں کرتے ہیں لکہ وہ ہر جگہ سرخ
سوالیہ نشانات لگاتے ہیں۔ ما بعد جدید نسل کسی چیز کی جستجو میں زندگی کے
دروازے پر بار بار دستک دیتی ہوئی شدّت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ یہ زندگی سے
زندگی کی طرف کا سفر ہے۔ یہ سماجی نابرابری ، ذہنی نا برابری اور جنسی
نابرابری کے خلاف احتجاج اور انحراف کا بھی سفر ہے۔ بشیر بدر فرماتے ہیں
عالم کا یہ نقشہ بچّوں کا گھروندا ہے
ایک ذرہ کے قبضے میں سہمی ہوئی دنیا ہے
نئی غزلیہ تخلیقیت کی تیسری لہر کا جمالیاتی اور اقداری نقطۂ عروج ندا
فاضلی کے ارضی حسن وآفرینی کے رموز اعجازِ سخن میں خاطر نشیں ہو جو پورے
غزلیہ ادب میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر ایک نئی کنواری برف کو توڑنے
کے مترادف ہے۔ندا فاضلی کی غزلیہ میناکاری گہری جمالیاتی مسرّت اور
انسانیاتی بصیرت عطا کرتی ہے۔
بیسن کی سوندھی روٹی پر، کھٹّی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسن ،چمٹا پھُکنی جیسی ماں
بانس کی کھرّی، کھاٹ کے اُوپر،ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوتی، آدھی جاگتی،تھکی دُوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے، رادھا موہن، علی علی
مرغی کی آواز، کھُلتی گھر کی کُنڈی جیسی ماں
بیوی بیٹی، بہن پڑوسن، تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دِن بھر اِک رسّی کے اُوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ، ماتھا، آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اِک البم میں ، چنچل لڑکی جیسی ماں
عالم خورشید کے یہاں شناخت پر زور ملتا ہے اور موجودہ بے ڈھنگی زندگی پر
طنز بھی ملتا ہے۔ عالم خورشید زندگی کی تلخ سچّائیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے
لکھتے ہیں
اک دوسرے سے ٹوٹ کے ملتے ہیں سب مگر
مصروف سارے لوگ ہیں اک سرد جنگ میں
جدا ہو سب سے مری راہ یہ دعا کی تھی
سو اب سفر میں مرا کوئی ہم سفر ہی نہیں
خورشید اکبر کہتے ہیں
میں ریگ زار کی دریادلی سے واقف ہوں
ٹھر یہاں سے سمندر نکلنے والا ہے
گلزار کا یہ شعر غزل کے بدلتے منظرنامے کی حقیقی تصویر کو پیش کر رہاہے، جو
اپنے عہد کی آئینہ دار ہے۔ گلزار صاحب فرماتے ہیں
چاند فلک کی آنکھ ہے اس پہ اتنے راکٹ مت برساؤ
شائد اندھا ہو جا ئے گا کالی رات دہائی دے گی
اُردو غزل کے نئے منظر نامہ میں رؤف خیر ایک اہم شاعر ہیں۔ ان کے یہاں
مابعد جدیدیت کا اسلوب ملتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں
کوئی نشان لگاتے چلو درختوں پر
کہ اس سفر میں تمہیں لوٹ کر بھی آنا ہے
خالد عبادی کی شاعری میں پدری جبر سے چھٹکارا پانے کی خواہش صاف طور پر نظر
آتی ہے۔ خالد عبادی لکھتے ہیں
اچھے خاصے لوگ برے ہو جاتے ہیں
جاگنے کا دعویٰ کر کے سو جاتے ہیں
اب نہیں کوئی اُٹھانے والا
پھول پتھر پہ بھاری بہت ہیں
ڈاکٹر سیفی سرونجی کی غزلیہ شاعری میں ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت
تک کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ عدیم الفر صتی اور انسانی رشتوں کی رفاقتوں
کی کشمکش ( Dilemma)اور تہذیبی روایت کو بڑی عصری حسیت اور فنّی ذہانت سے
پیش کیا ہے
اتوار کی اک شام تو بچّوں میں رہوں میں
ورنہ کسے ہنسنے کا یہاں وقت ملا ہے
رکھا ہے میرے پاس آج بھی
اُس نے دیا تھا جو کبھی تحفہ کتاب کا
عذرا پروین کے اشعار میں تانیثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ سماجی جبر
سے چھٹکارا چاہتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں
یہ میرے انکار کی چتا ہے
میں جس پہ مرضی سے جل رہی ہوں
میں بجھ رہی ہوں مجھے نشہ دو
نیا خدا دو ، نیا خدا دو
مجھ پہ سر رکھتے ہی قد تو بڑھ گیا لیکن
لاش بازی سے کوئی ذہنیت بدلتی ہے
گڑیوں سے کھیلتی مری گڑیا کدھر چلی
ممتا تو کہہ رہی تھی یہ مہوش تمہاری ہے
میں دور بیٹھ کے خود اپنی راہ تکتی ہوں
بہت دنوں میں سمندر مجھے پلٹنا ہے
مابعد جدید شاعری نے عالمی ، قومی مقامی منظرنامہ میں بین الاقوامی،
سامراجی تہذیب اور قومی فسطائیت کے نفسیاتی، اخلاقی، سماجیاتی اور ثقافتی
مظاہر کے آکٹوپسی گرفت میں آج کے آ دمی اور زندگی کے پھڑپھڑانے کے باوجود
بھی بہر کیف جشنِ زندگی اور جشنِ تخلیقیت کا نگارخانہ رقصاں ہے۔ جس میں
’’رقاصۂ دیروز‘‘ بے پیرہن نظر آتی ہے۔ مظہر امام کے یہاں تمام نا امیدیوں
میں بھی ایک اثبات عظیم (Great Yea )کی زندگی پرور کیفیت ملتی ہے اور
کلاسکیت اور نئی غزلیہ تخلیقیت کا امتزاج بھی۔ مظہر امام لکھتے ہیں
جذبات کی آنکھوں میں چمکتا کوئی شعلہ
احساس کے رخسار پہ کچھ غازہ بھی ہوتا
رقاصۂ دیروز بھی بے پیرہن آتی
دوشیزۂ امکان کا خمیازہ بھی ہوتا
شمیم قاسمی فرماتے ہیں
بارود کی بدن سے بہت پھوٹتی ہے بو
آئے ہو ابھی ابھی کابل سے کیا میاں
ارض لہو پہ ایک عجب پھول ہے کھلا
اترا فلک فلک کوئی دلدل سے کیا میاں
شکیل اعظمی کی شاعری میں ما بعد جدیدیت، حسیت اور آگہی کا احساس ہوتا ہے۔
شکیل اعظمی فرماتے ہیں
بھوک میں عشق کی تہذیب بھی مر جاتی ہے
چاند آکاش پہ تھالی کی طرح لگتا ہے
تم بھی ذرا سی بات کو گھر لے کے آ گئے
فٹ پاتھ پر جو مر گیا انسان ہی تو تھا
مقیم اثر کی شاعری میں مقامی تہذیب ، کثیرالمعنویت اور عمرانی مسائل کی
جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں
جو روشنی کے خد و خال تک ہمیں لے جائیں
کسی نے پائی ہے ایسی ابھی نظر ہی کہاں
جسے تم آگ کہہ کر لوٹ آئے ساحلوں پر
اُسی پتھّر کے اندر ایک دریا بھی چھُپا ہے
کوئی سایہ ہو ، کھولو، دھوپ بھی اُس میں بھری ہوگی
مصیبت سے کہاں خالی ، درختوں کی بھی جھولی ہے
مابعد جدید یت اور نئے عہد کی تخلیقیت کے تناظر میں جینت پرمار اولین دلت
شاعر ہیں ۔ یہ دلت رجحان کی اُردو ادب میں نمائندگی کرتے ہیں۔ جو شاعری کے
ساتھ ساتھ مصوری بھی کرتے ہیں۔ مصوری کے نقوش و شواہد ان کی شاعری میں ملتے
ہیں، یہ اپنی شاعری میں لفظوں سے مصوری کرتے ہیں۔ جینت پرمار لکھتے ہیں
چاند کی کشتی سمندر کی تہوں میں غرق تھی
ریت میں ہم نے بنایا تھا وہ ننہا گھر نہ تھا
عزیز پریہار زندگی میں بدلاؤ کی امید کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں
کثیرالمعنویت اور زندگی پر طنز موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں
زرد پتوّں کا یہ موسم آخری سانسوں پہ ہے
فکر بس اس بات کی ہے پیڑ کیوں گرتا نہیں
عنبر بہرائچی کے یہاں ہندی، سنسکرت، عربی اور فارسی کے الفاظ کی آمیزش سے
ایک نئی لسانی معنویت پیدا ہوتی ہے۔ ان کے اشعار میں ہندستانی ثقافت،
ہندستانی شعریات اور عوامی ادب کے بہترین نمونے ملتے ہیں جن سے
کثیرالمعنویت اور فنّی ہنر مندی منعکس ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
میرے ساتھی مجھے بھی ختم کر دیتے مگر مجھ کو
مرے پندار نے سنجیونی بوٹی پلائی تھی
ہاتھوں میں سورج لے کر کیوں پھرتے ہو
اس بستی میں اب دیدہ ور کتنے ہیں
مہتاب حیدر نقوی نئی زندگی کی بات کرتے ہیں، آگے بڑھنے کی تلقین دیتے ہیں۔
وہ فرماتے ہیں
نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو
سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو
عبید صدّیقی، فرحت احساس، شین․ کاف․ نظام، افتخار امام صدّیقی ، صلاح الدین
پرویز، عرفان صدّیقی، منور رعنا، عبدالاحد سازاور ڈاکٹر اجے مالوی کی غزلیہ
شاعری عصریت، تہذیبی رنگارنگی اور سماجی مسائل صاف طور پر دیکھے جا سکتے
ہیں۔
اُس بستی کے بعد ہے صحرا
اُس کے بعد نہ جانے کیا ہے
(عبید صدیقی)
پانی میں الجھتے ہوئے انسان کا یہ شور
اُس پار بھی ہوگا مگر اِس پار بہت ہے
(فرحت احساس)
دن کے ماتھے پہ تو سورج ہی لکھا تھا تونے
رات کی پلکوں پہ کس نے یہ اندھیرا لکھّا
میں نے سجدے میں سر جھکایا تھا
لے گئے سر اُتار کر میرا
( شین․ کاف․ نظام)
مکالمہ مجھے آتا ہے اپنی موت کے ساتھ
میں زندہ رہتا ہوں ہر پل کسی ڈر کے بغیر
(افتخار امام صدّیقی)
بس ایک کرب کے لمحے کا عکس ہے دنیا
کہ اس میں اشارہ نہ استعارہ ہے
(صلاح الدین پرویز)
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہے شاخِ شجر پر وارا ہوا
(عرفان صدّیقی)
یہ چڑیا بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے
کہیں بھی شاخِ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے
(منور رعنا)
پگھلتا جا رہا ہے سارا منظر
نظر تحلیل ہوتی جا رہی ہے
(عبدالاحد ساز)
بہت کرتا ہے وہ آزمائش لوگوں کی
ہم بھی دیکھیں گے کس میں کتنا پانی ہے
اپنی بستی کے لوگ کیسے ہیں
اُن کا چہرا اُداس رہتا ہے
( ڈاکٹر اجے مالوی بہارؔ)
اس ما بعد جدیدیت کے تناظر میں نئی غزلیہ شاعری نئے عہد کی اضافی تخلیقیت،
نئی اضافی عصریت، نئی اضافی معنویت اور نئی اضافی فنّیت سے مملو ہے۔ ان میں
ہماری مقامی تہذیب و تمدن کا زندہ خون جاری و ساری ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی
دہائی میں ما بعدجدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کی غزلیہ شاعری میں
مقامی، قومی، عالمی، فکری اور حسّی آتی جاتی لہروں کی صحیح معنوں میں
ترجمان ہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نئی غزلیہ تخلیقیت کا جشنِ جاریہ
آج بھی قائم و دائم ہے۔ |