میں نے پچھلے کالم میں تحریرکیاتھاکہ''افواج پاکستان کے
جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیرمحمود حیات چند روزقبل ایک
سیمینارمیں اس خبرکی توثیق کرچکے ہیں کہ سی پیک منصوبے کوناکام بنانے کیلئے
مودی سرکارپچاس کروڑ ڈالرمختص کرچکی ہے اور ''را'' اسی رقم کوپاکستان میں
دہشتگرد کاروائیوں کیلئے استعمال کررہی ہے....بھارت کے اس روّیے کوتعصب
،حسداوربغض کانتیجہ ہی قرار دیادیاجاسکتاہے جس کا کوئی جوازموجودنہیں جبکہ
بھارتی اشتعال انگیزیاں کسی بھی وقت بڑے تصادم میں بدل سکتی ہیں اورجنوبی
ایشیاکی ایٹمی طاقتوں کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑسکتی ہے جس میں شکست
خوردملک اپنے آخری ہتھیارکے طورپرجوہری اسلحے کااستعمال کر سکتا ہے جونہ
صرف خطے بلکہ پوری عالمی برادری کیلئے خطرے کاباعث ہوسکتاہے''۔
بھارت نے بلوچستان میں بے چینی پھیلاکرسی پیک کونشانہ بنانے کیلئے اپنی
مکروہ سازشوں میں ایک مرتبہ پھراضافہ کردیاہے اورپاکستان پراس کا فوری
ردّعمل یہ دیکھنے میں آیاہے کہ چونکہ بھارت باہمی تنازعات دورکرنے کیلئے
سیاسی عمل کوکوئی اہمیت نہیں دیتا،اس لئے بھارت کواسی کی زبان میں جواب
دینے کاوقت آگیاہے۔کئی برس قبل سرکاری حکام نے ناراض بلوچوں کوواپس لانے کے
منصوبے کی منظوری دینے کے علاوہ کچھ اہم منحرف بلوچ رہنماؤں کے ساتھ رابطے
بھی کئے تھے جس کاکوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آسکاجس کی بناء پرگزشتہ کئی
برسوں کے دوران سیاسی حل کے پہلوپرتوجہ ختم ہوچکی ہے۔ماضی قریب میں کچھ
خودساختہ جلاوطن بلوچ رہنماؤں نے پاکستان کے خلاف مہم کومزیدآگے بڑھایاہے
اوراسی دوران یہ خبریں بھی آئیں ہیں کہ بھارت نے بلوچستان میں نئی منصوبہ
بندی کرلی ہے۔
بھارت کے ناپاک عزائم کوانتظامی،ترقیاتی اورسیاسی حل کے ذریعے سے مؤثر
طورپرناکام بنایاجاسکتاتھاجبکہ سیکورٹی ایجنسیاں صوبے میں دہشتگرد گروپوں
کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اوربلوچستان میں اب امن وامان میں خاصی
بہتری نظرآرہی ہے لیکن پائیدارامن کے منصوبے کیلئے سیاسی حل نہیں
نکالاجاسکاجس کی وجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔بلوچستان کے سابق
وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک نے اپنے دورِ حکومت میں بعض منحرف بلوچ رہنماؤں
بشمول جلاوطن خان آف قلات میرسلیمان داؤداوربراہمداغ بگٹی سے رابطے
استوارہوئے تھے اوراس وقت میڈیامیں بھی یہ رپورٹ ہواتھاکہ حکام نے براہمداغ
بگٹی کوہتھیارڈالنے،تشددترک کرنے اورقومی دھارے میں واپس آنے پر رضامند
کیاتھا۔اس وقت حکام براہمداغ بگٹی کے ساتھ ان رابطوں کے مثبت نتائج کے بارے
میں پرامیدتھے لیکن بعد میں بگٹی کے کیس میں پیچیدگیاں پیداہوگئیں کیونکہ
اس نے بھارتی شہریت حاصل کرلی تھی۔
اس کے بعدعبدالمالک بلوچ کی حکومت نے خان آف قلات میرسلیمان داؤدکوملک میں
واپس آنے پررضامندکرنے کیلئے گرینڈبلوچ جرگہ سے رابطہ کرنے کااعلان کرتے
ہوئے یہ بھی بتایاکہ خان آف قلات سے اس سلسلے میں کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں
جس کی سابق وزیراعظم نوازشریف نے پرامن بلوچستان منصوبے کیلئے باقاعدہ
منظوری بھی دی تھی جس کا مقصد ناراض بلوچوں کوقومی دھارے میں واپس
لاناتھا۔نوازشریف نے اپنے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس جس میں آرمی چیف جنرل
راحیل،وزیرداخلہ چوہدری نثار،گورنربلوچستان محمدخان اچکزئی،
کورکمانڈرلیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کے ساتھ خود ڈاکٹر عبدالمالک
موجودتھے، کی صدارت کرتے ہوئے یہ بھی کہاتھاکہ وہ لوگ جو ہتھیارڈال دیں گے
انہیں مراعات بھی دی جائیں گی۔متعلقہ حکام سے کہا گیاتھاکہ وہ بلوچستان
کےعوام کے پاس پہنچیں اورانہیں ترقیاتی عمل میں حصہ داربنائیں ۔ پاکستانی
سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ادارہ''را''منحرف
بلوچوں کودہشتگردکاروائیوں کیلئے بے پناہ مالی مددفراہم کررہاہے۔
اب تومصدقہ شواہدبھی سامنے آگئے ہیں کہ بھارتی''را''نے سینکڑوں بلوچ
نوجوانوں کواسپانسرکیاجنہیں پاکستان کے خلاف گمراہ کرنے کیلئے کابل لے جایا
گیا۔تربیت کے علاوہ ''را''نے بلوچستان میں بلوچ اکثریت کے علاقے میں
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے موادشائع کرنے کی خاطرمالی مددبھی فراہم
کی ہے جبکہ بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیاں کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے
ہیں توعالمی برادری بھارت کی ان چیرہ دستیوں پرخاموش کیوں ہے؟ان حالات میں
عالمی برادری کافرض بنتاہے کہ بھارت کے خلاف بلوچستان اورصوبہ سندھ میں
دہشتگردی اورانارکی پھیلانے کے جرم کی پاداش میں کاروائی کرے کیونکہ اس وقت
تک دہشتگردی کے خلاف امریکاکی عالمی جنگ کاسلسلہ جاری ہے اور اسی مقصد
کیلئے افغانستان میں امریکی فوج بھی موجودہے جس کوافغانستان میں رکھنے
کابنیادی مقصد افغانستان سے دہشتگردی کامکمل خاتمہ ہے اور چونکہ امریکی
خیال کے مطابق دہشتگردی کی جڑیں افغانستان میں مضبوط ہورہی ہیں، اس لئے
امریکی منصوبہ سازوں کے خیال میں اگرافغانستان میں مکمل طورپرامن قائم
کرایاجائے تواس سے پوری دنیامیں دہشتگردی کاخاتمہ ہو جائے گاحالانکہ
افغانستان میں بھی دہشتگردی کامنبع بھارت ہی ہے اوراب توہربات سامنے آگئی
ہے کہ افغانستان میں امریکاکی تشکیل کردہ داعش کی داغ بیل بھارت نے ہی ڈالی
تھی جس کامقصدداعش کے نام پرپاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دیناتھالیکن
پاکستان کی مسلح افواج نے بروقت اپنی حدودسے دہشتگردوں کامکمل خاتمہ کرکے
اورپاک افغان سرحد پرسیکورٹی مضبوط کرکے بہتر مینجمنٹ کے ذریعے ،مستقبل میں
بھی پاک افغان سرحد سے آرپارآنے جانے کے عمل کو قانون کے دائرے میں
لاکرمزیدمحفوظ بنالیاہے جس کے بعدبھارت کوافغانستان کے راستے بھی وہ
کامیابی نہیں ہو رہی جس کی اسے خواہش تھی لیکن اس کے باوجود دہشتگردی کے
اکادکاواقعات بہرحال ہوجاتے ہیں جیسے گزشتہ دنوں تربت اور اس کے آس پاس
علاقوں میں چاردن میں چوبیس افرادکوگولیاں مارکرشہیدکردیا گیااوریہ واردات
بھی اس اندازمیں کی گئی جس سے پاکستان میں علاقائی عصبیت کو ہوامل سکے لیکن
چونکہ پاکستان میں عوام اب دشمن کی چالوں اورسازشوں کو اچھی طرح سمجھ چکے
ہیں اور اس لئے دشمن کی یہ چالیں بھی اپنی موت آپ مررہی ہیں۔
اصولی طورپرحکومت کوبلوچستان پرمزیدخصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس
وقت بھارت، اسرائیل اورامریکا کی مشترکہ بھرپورتوجہ بلوچستان پرہی ہے
کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ گوادرمیں ہے،اس لئے یہ تمام سازشی
اذہان اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھیں ہیں کہ اگر بلوچستان میں دہشتگردکاروائیوں
میں اس قدراضافہ کر دیاجائے ،بلاناغہ دہشتگردکاروائیاں اوردیگرخوف وہراس
پھیلاکروہاں کے عوام کی زندگیوں کو کواس قدر غیر محفوظ اورانہیں بددل
کردیاجائے جس کی بناء پروہ خودباہرنکل کرپاکستان اورچین سے اس منصوبے کوترک
کرنے کیلئے مجبور کردیں اوراس طرح سی پیک منصوبہ اپنی موت آپ مرجائے۔بھارتی
ٹرائیکاکی ان سازشوں کاتوڑہم بلوچستان میں مضبوط امن واستحکام کے
قیام،ترقیاتی کاموں کی تیزی سے تکمیل اورلوگوں کی بنیادی ضروریات کوان کے
گھروں کی دہلیزپر پہنچانے کے ساتھ آنے والی نسل کوتعلیم کے زیورسے آراستہ
کرکے کرسکتے ہیں ۔ان حالات میں وفاقی حکومت کافرض بنتاہے کہ وہ بلوچستان
حکومت کیلئے زائدفنڈمہیاکرے اورامن وامان کی ذمہ دارایجنسیوں کوبھی اس کام
کی نگرانی کیلئے مقررکریں تاکہ کسی بھی قسم کی کرپشن سے پاک یہ منصوبے
جلدمکمل ہوں اوراس کے ساتھ دہشت گردوں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کوبلاتخصیص
تباہ کرکے بلوچستان سے دہشتگردی کی تمام جڑیں اکھاڑ پھینکیں کہ اسی میں اب
پاکستان کی بقاءہے۔
تربت جیسے واقعات مزیدپیش آسکتے ہیں اس لئے انتظامیہ کوان سانحات کو روکنے
کیلئے ہنگامی بنیادوں پرفول پروف پلان مرتب کرناہوگااوراب سیکورٹی اداروں
کیلئے بھی ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ دہشتگردی کوفروغ دینے والے عناصر کے خلاف
وسیع پیمانے پرکاروائی کریں اوراس مقصدکیلئے گراس روٹ لیول پر عوام کوبھی
شامل کیاجائے توشرپسندعناصرکاقلع قمع کرنے میں آسانی ہوجائے گی لہنداحکومت
کوچاہئے کہ دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں میں بلوچستان سمیت تمام عوام کے
اندرالیکٹرانک میڈیااوردیگرذرائع سے ایک وسیع مہم کا آغازکرے ۔جب عوام
حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں گے تودہشتگردوں کوملک کے اندرمحفوظ
ٹھکانے نہیں مل سکیں گے اوروہ لوگ جوایک عرصے سے اس ملک میں رہ رہے ہیں
اوراس کے باوجوددشمن سے رابطے میں ہیں ،ان کیلئے بھی خودکواپنے اڑوس پڑوس
سے پوشیدہ رکھنامشکل ہوجائے گا۔اگرہم وطن میں ایسا مضبوط اورمربوط نظام
قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تویقیناً فتح ہمارامقدرہوگی، ان شاء اللہ۔ |