اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاک افغان تعلقات خرا ب کرنے
میں بھارت ملوث ہے ،افغانستان میں تسلسل سے جاری بدامنی کی بڑی وجہ وہاں کے
حکمرانوں کا دوھرا معیار ہے ایک طرف تو کابل حکومت ہندوستا ن سے پیار اور
محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہے تو دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے اب اس
خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ا ن کی حکومت پاکستان سے براہ راست مزاکرات کرنا
چاہتی ہے ۔اس قسم کے رویئے ان باتوں کو جنم دیتے ہیں کہ شاید افغانستان کی
حکومت اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کرنا بھول چکی ہے میں نہیں سمجھتا
کہ افغانستان کو شاید اس بات کااحساس ہوگیاہے کہ افغانستان کے امن کے لیے
پاکستان کا کردارکس قدراہمیت کا حامل ہے بلکہ انہیں اس بات کا اگر زرا سا
بھی اندازہ ہوتا تو وہ کبھی بھارت کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال
کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان پہلے اپنے دوھرے
معیار سے نکلے اور اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر اپنے داخلی اور اندرونی معاملات
کو درست کرے جس کی چابی اس وقت مکمل طورپر بھارت کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے
۔جو اس عمل کی طرف اشارہ ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد بھارت
ہی اس کااصل جانشین ثابت ہوگا،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ چندبرسوں سے
بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالروں کے کئی منصوبوں پر کام شروع کررکھاہے
جبکہ افغانستان کے ساتھ ان کا بڑھتا ہوا فوجی تعاون بھی اب کسی سے ڈھکا
چھپا نہیں ہے ۔اور جس انداز میں افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ بڑھ رہاہے
اتنی ہی تیز رفتاری سے افغانستان کی سززمین سے پاکستان کے خلاف پرتشدد
کارروائیوں میں اضافہ بھی ہواہے ،پاکستان میں گزشتہ اور حالیہ ہونے والی
تمام تر تباہ کاریوں کے ثبوت بھارت اور افغانستان سے جاکر ملتے ہیں۔پھر کس
طرح سے تہہ دل سے مان لیا جائے کہ افغان صدر پاکستان سے مل بیٹھ کر امن اور
بھائی چارے کی بات کرنا چاہتاہے ؟۔اپنے ہی ملک پر پے درپے حملوں کے باوجود
افغانستان کو شاید ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ بھارت کسی بھی
لحاظ سے ان کا دوست نہیں بن سکتایہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ افغانستان میں
ہونے والی تباہ کاریاں وہاں پرموجود بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ
سے ہے مگر ان تمام تر پرتشدد کارروائیوں کے الزامات بغیر کسی ثبوت کے
پاکستان پر لگادیئے جاتے ہیں کہ ان حملوں میں پاکستان سے سے آنے والے دہشت
گردوں کا ہاتھ ہے ۔جبکہ پاکستان کی جانب سے ہمیشہ سے ہی یہ کہتے سنا گیاہے
کہ تمام تر مسائل کا حل مزاکرات سے ہی نکالا جاسکتا ہے اوریہ کہ پاکستان
دونوں ممالک کے جغرافیائی اعتبارسے اس بات کو اچھی طرح جانتاہے کہ
افغانستان کا امن ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے ۔ پاکستان میں بننے والی
حکومت چاہے کوئی بھی ہووہ مگر ہمارے حکمران اس قدرلمبی چھلانگیں لگانے کے
ساتھ اس قسم کی سازشیں نہیں کرسکتے ہاں یہ اور بات ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے
بھی آنکھیں موند لی جائیں ۔ ویسے یہ تمام تر خوبیاں صرف اور صرف بھارت کے
حکمرانوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں میں ہی پائی جاتی ہیں جو نہ صرف خون
خرابے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ پاکستان کا امن تباہ کرنے کے لیے افغانستان
جیسا ملک جو دفاعی یا معاشی لحاظ سے ان کے کسی کام کا نہیں ہے اور نہ ہی
ددنوں ممالک کے سرحدیں اس انداز میں ملتی ہیں جیسے پاکستان اور افغانستان
کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اس کے باجود بھارت افغانستان میں اربوں ڈالر کی
سرمایہ کاری کررہاہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی لابی نہ صرف اشرف غنی بلکہ اس
کی کابینہ کے تمام تر افراد کی زہنیت کو اب اپنے قابو میں کرچکی ہے ،کیونکہ
بھارت کی جانب سے نہ صرف افغان حکومت کو خوش کیاجارہاہے بلکہ پاکستان کے
امن کو خراب کرنے کے لیے وہاں کے دہشت گردوں کو پیسے دیکر پاکستان میں دہشت
گردی کروائی جارہی ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہواہے کہ جب افغانستان حکومت نے
پاکستان سے اس قسم کی خواہشوں کا پیغام نہ بھیجا ہومگر اس کا مثبت نتیجہ
اسی وجہ سے نہیں نکل پایاہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان بھارت اپنی ٹانگیں
اڑا رہاہے اور افغانستان میں بیٹھ کر نہ صرف دونوں ملکوں کی تباہی کی وجہ
بناہواہے بلکہ وہاں پر موجود طالبان کو بھاری فنڈنگ کرکے پاکستا ن میں بھی
تباہ کاریاں پھیلا رہاہے۔دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنی
براہ راست خواہش کا اظہار ایسے موقع پر کیا ہے جب امریکا وزیردفاع جیمزمیٹس
افغانستان میں امن وامان کی بڑھتی ہوئی تشویشناک صورتحال پر پاکستانی
حکمرانوں سے بات چیت کرنے آرہے ہیں۔اس وقت امریکی وزیردفاع امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے
پاکستان کے دورے پر آیاہے ،وہ یقینا پاکستا ن سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی
کے مطابق ہی بات کرینگے ،یقینا یہ عمل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش
ہوگا ،جبکہ امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان نے افغان امن کے
لیے امریکا کا ہر محاز پرساتھ دیاہے اور اس سلسلے میں اپنا بہت سا جانی اور
مالی نقصان بھی برداشت کیاہے اس کے باوجود نہ تو امریکا کے کلیجے میں ٹھنڈ
پڑی ہے اور نہ ہی افغانستان پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار
ہواہے ۔امریکا کے وزیر دفاع یقینا اپنی گفتگو میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں
پرمسلسل ایکشن لینے کا مطالبہ کریگا،مگر یہ امریکا کی منافقانہ پالیسی ہوگی
کیونکہ امریکا یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ وہ اگر اپنی فوج کے ساتھ افغان
حکومت کے تعاون سے وہاں پر موجود ہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرے تو اس
سے افغانستان میں چھپے ایک ایک دہشت گردکو جہنم رسید کیاجاسکتاہے مگرلگتا
یہ ہے کہ شاید امریکا خود بھی نہیں چاہتا کہ ابھی افغانستان میں چھپے دہشت
گرودں کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے یعنی وہ جان بوجھ کر دہشت گردوں کی
محفوظ پناہ گاہیں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کیمپوں کو ختم نہیں کرنا
چاہتا،جبکہ امریکا کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آچکی ہے پاکستان اپنے
ملک سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوچکاہے،اس کے
باوجود وہ پاکستان میں آفغانستان طرز پر آپریشن کرنے کا دباؤ ضرور ڈالے گا۔
کیونکہ اس وقت امن وامان کے نام پر بھارت اور امریکا ڈبل گیم کھیل کراپنی
شیطانی پالیسیوں کو چلارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر پاکستان میں کچھ سہولت کار
موجود ہیں تویہ وہ لوگ ہیں جنھیں افغانستان سے فنڈنگ ہورہی ہے جن کا کنٹرول
بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھ میں ہے یعنی جہاں امریکا پاکستا ن کے ساتھ
دوغلی پالیسیوں پر گامزن ہے وہاں افغانستان کا دوھرا معیار بھی اب کھل کر
سامنے آچکاہے ،،جیسا کہ2014میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے طرز پر حال ہی
میں پشاور میں یونیورسٹی روڈ پرایگری کلچر ڈائریکٹوڑیٹ کے ایک ہوسٹل میں
دہشت گردی کا ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے،یہ ہی وقت ہے کہ افغانستان
اس سلسلے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے ورنہ وہ اسی انداز میں دہشت گردی کی
آگ میں جلتا رہے گا اور کبھی اس آگ سے نہ نکل سکے گا۔آپ کے فیڈ بیک کا
انتظار رہے گا۔ |