گزشتہ دنوں اترپردیش کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج آنے کے
بعدایک بارپھریہ ثابت ہوگیاکہ دعووں اورنعروں کی بیساکھیوں کے سہارے
اقتدارپرقبضہ جمانے والی بی جے پی جھوٹ بولنے میں کتنی طاق ہے ۔اس سے
اندازہ ہوتاہے کہ بی جے پی اپنی عزت بچانے کے لیے کس قدر خود اعتمادی سے
جھوٹ بولنے میں ماہر ہے ۔بی جے پی کوداددینی چاہیے کہ اگروہ جھوٹ بھی بولتی
ہے تواتنی خوداعتمادی سے بولتی ہے کہ اگر کھوپڑی میں سوچنے والادماغ نہ
ہوتوسننے والااس پر ایمان لائے بغیرنہیں رہ سکتا۔بی جے پی کی خوش قسمتی ہے
کہ اسے ایسے ووٹرزمیسرہیں جن کے بارے میں یہ یقین سے کہنامشکل ہے کہ ان کی
کھوپڑی میں مغز ہے یابھوسہ۔ان نتائج کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی کے قومی
صدرامیت شاہ نےجھوٹے اعدادوشمارپیش کرکے میڈیاکے ذریعے پورے ملک کوگمراہ
کرنے کی کوشش کی کہ یوپی بلدیاتی الیکشن کے نتائج سے اندازہ ہوتاہے کہ عوام
ہماری پالیسیوں سے خوش ہیں اسی لیے انہوں نے ہمیں ووٹ دیاہے۔بی جے پی کے اس
تنہاپالیسی سازدانشورنے ان حقائق کوبالکل نظراندازکردیاجن سے ان کی ’’ناک
‘‘ہی کٹ گئی ہے ۔ اعدادوشماربتاتے ہیں کہ یوپی میں جہاں جہا ں ای وی ایم
کااستعمال ہواوہاں وہاں بی جےپی جیتی ہے اورجہا ں بیلٹ پیپرسے الیکشن ہوئے
وہا ں وہ چاروں خانے چت ہوگئی ہے ۔ای وی ایم سے میئرکی ۱۶سیٹوں پرالیکشن
ہوئے وہا ں بی جے پی نے ۱۴سیٹیں جیت لیں ۔بقیہ الیکشن بیلٹ پیپرسے ہوئے
اوراس میں بی جے پی کوکراری شکست کاسامنا کرنا پڑا اوراس کی خوش فہمی کے
سارے بت دھڑام سے زمیں بوس ہوگئے مثلاً نگرپنچایت کے صدرکے لیے ۴۳۸سیٹوں
پرالیکشن لڑا گیاجن میں صرف ۱۰۰بی جےپی جیت سکی اور۳۳۷ سیٹیں ہارگئی ۔نگرپنچایت
ممبرس کے لیے ۵۴۳۴سیٹوں پر الیکشن ہواجن میں سے بی جے پی کے حصے میں صرف
۶۶۲سیٹیں ہی آسکیں اور۴۷۲۸سیٹیں اس کی مخالف پارٹیو ں نے جیتیں۔میونسپل
چیئرپرسن کی ۱۹۸سیٹوں پر ہوئے انتخاب میں بی جےپی صرف ۶۹سیٹوں پرفتح یاب
ہوسکی اور۱۲۶سیٹیں مخالف پارٹیاں لے گئیں ۔ ۵۲۶۱سیٹوں پرمیونسپل کے ممبران
کاالیکشن عمل میں آیاجس میں بی جے پی کی جھولی میں صرف ۹۱۴ سیٹیں ہی آئیں
اور۴۳۰۳سیٹیوں پراس کاکوئی بھی جادونہ چل سکا۔
یہ اعدادوشمارثابت کرتے ہیں کہ وزیراعظم مودی کی پالیسیاں انہیں لے ڈوبی
ہیں ۔اس بات کااحساس بی جےپی کی مرکزی قیادت کوہے مگراپنے ووٹروں کو
اندھیرے میں رکھنے کی عادی بی جےپی میڈیاکے ذریعے سفیدجھوٹ بول رہی ہے
اوریہ سمجھ بیٹھی ہے کہ عوام اس کے سفیدجھوٹ پرایمان لے آئیں گے ۔یہ نتائج
یہ ’’راز‘‘بھی ’’واشگاف ‘‘کردیتے ہیں کہ لوک سبھامیں اتنی زبردست اکثریت سے
اقتدارمیں آجانانیزیوپی کے اقتدار پراتنی آسانی سے بی جے پی کاکلین سویپ
کرنا یوں ہی تونہیں ہوگیا ہوگا،اس میں ضروربالضرورای وی ایم کاکمال
رہاہوگا۔خیریہ آج نہیں توکل ضروریہ ثابت ہو جائے گاکہ بی جے پی کی ای وی
ایم کی ’’منصوبہ بندی‘‘کس قدرپختہ اورحیرت انگیزہے اوراس میں کون کون سے
افراداورکون کون سی پارٹیاں ملوث ہیں ۔اگلے چنددنوں میں گجرات اورہماچل
پردیش کے الیکشن کے نتائج بھی آجائیں گے ، اگروہاں اس ’’منصوبہ بندی ‘‘نے
اپناکام کردکھایاتوایک بارپھرگجرات میں بی جے پی کا عفریت پانچ سالوں کے
لیے ہمارے سروں پرسوارہوجائے گا۔ویسے حالات بتارہےہیں کہ گجرات میں بی جے
پی کے لیےمیدان مارناآسان نہیں ہے اسی لیے بی جے پی نے پورے ملک سے اپنے
کیڈرکوگجرات میں اتاردیاہے ۔سیاسی تجزیہ کارکہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے گجرات
میں کھیل بگڑتا دیکھ کربی جے پی نےایک اورمنصوبہ بندی کررکھی ہو۔اپنی ای وی
ایم کی ’’منصوبہ بندی‘‘پرپردہ ڈالنے اورای وی ایم پرپابندی کامطالبہ
کرنےوالوں کے مطالبے کی شدت کم کرنے کے لیے بی جےپی نے شایدیہ حکمت عملی یہ
تیارکرلی ہوکہ گجرات کانگریس کے حوالے کردیاجائے اورپھر۲۰۱۹میں ایک
بارپھرای وی ایم کی کرامت سے مرکزکااقتدارجھپٹ لیاجائے تاکہ کانگریس اس فتح
یابی کے نشے میں سرشاررہے اور۲۰۱۹میں ای وی ایم کی کرامت سے ایک بارپھربی
جے پی ۲۰۲۴تک پورے ملک پرمسلط ہوجائے ۔ممکن ہے یہ میری کج فکری ہی ہویامحض
بکواس یاصرف خوش فہمی لیکن اس امکان کوخارج بھی تونہیں کیا جا سکتا ۔ خیر
دیکھیے ،کیاہوتاہے اورگجرات کے پیٹ سے کیابرآمدہوتاہے ۔ |