سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا ملک کی اعلیٰ ترین
عدلیہ سے نااہل ہونے کے بعد ایک سوال جسکو وہ بار بار اپنے جلسوں اور
میٹنگز میں دہرا رہے ہیں کہ ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ نے ایک نئی بحث کو جنم
دیا ہے حکومت اور انکے حامیوں کا خیال ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو پوری
طرح کام نہیں کرنے دیا جارہا اور میاں صاحب کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ،
ایک جمہوری ملک میں عوام ہی ہیں جو کہ کسی سیاستدان کی قسمت کا فیصلہ کر
سکتے ہیں جبکہ عدلیہ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کے منتخب کردہ
نمائندے کو گھر بھیج سکے ۔ جبکہ حزب اختلاف اسکے برعکس اپنا مؤقف رکھتی ہے
اور انکا یہ کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی ذات کو بچانے کے لئے اپنی جماعت اور
جمہوریت دونوں کے بقا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ حکومتی جماعت اپنے الفاظ
میں فوج کا نام تو نہیں لیتی لیکن ان کا اشارہ فوج اور فوجی لیڈ رشپ کی طرف
ہی ہوتا ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے سیاستدان جمہوریت کے بقا
ء کے لئے فوج کی طرف دیکھتے ہیں ؟ یا کیوں فوج پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ
فوج انکے معاملات میں مداخلت کرتی ہے ؟کیا فوج پر مداخلت کا الزام لگا کر
وہ اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کر رہے ؟ کیا وہ یہ اعتراف نہیں کر رہے کہ
انکو دیا گیا اقتدار عوام کا مرہونِ منت نہیں بلکہ انکو اقتدار تک پہنچانے
میں کچھ اور طاقتیں ملوث ہیں ؟ کیا جمہوریت صرف ایک شخص کی حکومت یا ایک
خاندان کی حکومت کا نام ہے ؟ ہماری جمہوریت اتنی کمزور کیوں ہے اور فوج /
عدلیہ پر بطور ادارہ حکومتی معاملات میں مداخلت کا الزام کتنا درست ہے اور
اگر درست ہے تو ایسا کیوں ہے ؟
پہلے ہم آتے ہیں عدلیہ کے سٹرکچر پر سپریم کورٹ کا ایک معزز جج پہلے قانون
کا ایک طالب علم ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصہ وکالت کی پریکٹس کے بعد باقاعدہ
امتحان کے بعد سول عدالت میں بطور جج اپنے کام کا آغاز کر تا ہے اسکے بعد
اپنی کارکردگی کی بنیاد پر سیشن جج ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک
پہنچتاہے ، سپریم کورٹ تک پہچنتے پہنچتے وہ آئین و قانون کی تمام باریکیوں
سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ، سفارش کا کلچر اگر ہو بھی تو بغیر قابلیت کے
سپریم کورٹ کا جج بننا بہت مشکل ہے ۔ گو کہ ماضی میں ہماری عدلیہ نے فوجی
آمروں کا ساتھ دیا اور نظریہ ضرورت کی تائید اور ہر فوجی آمر کے غیر آئینی
اقدامات کی تائید کی لیکن پھر ایک وقت آیا اور سابقہ چیف جسٹس افتخار
چوہدری نے ایک آمر کے غیر آئینی اقدامات کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اسکی
وجوہات چاہے جو بھی ہوں یہ تاریخ افتخار چوہدری کو غیر آئینی اقدام کے
سامنے کھڑا ہونے پر ہمیشہ یاد رکھے گی ۔
عدلیہ کی نسبت فوج کا سٹرکچر زیادہ مضبوط ہے اور عوام میں اسکی عزت بھی بہت
زیادہ ہے اور حالیہ سروے میں پاک فوج بطور ادارہ عوام کا سب سے قابل اعتماد
ادارہ ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ حالانکہ فوج کے نمائندوں کا عوام سے بالواسطہ
رابطہ سیاستدانوں کی نسبت بہت کم ہے بلکہ یوں کہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہے
لیکن پھر عوام کی اکثریت سیاستدانوں کے بجائے فوج پر اعتماد کرتی ہے ۔اسکی
مختلف وجوہات ہیں ایک تو فوج نے بطور ادارہ اپنے آپکو سب سے زیادہ بہتر
ثابت کیا ہے اور اپنے نظم وضبط پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا ۔ ایک فوجی جنرل
کے بیٹے کو اگر فوج میں بھرتی ہونا ہے تو وہ پہلے آرمی میں کیڈٹ بھرتی ہو
گا فوجی ٹریننگ کے مشکل مرحلے سے گزرے گا اورپاسنگ آؤٹ کے بعد سیکنڈ
لیفٹیننٹ کے عہدے پر فوج میں کمیشن حاصل کرے گا اسکے بعد ترقی کرتے ہوئے
لیفٹیننٹ، کیپٹن ، میجر، لیفٹیننٹ کرنل، کرنل، بریگیڈیئر ، میجر جنرل،
لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر جائے گا اور یہاں تک پہنچنے کے لئے اسے نہایت
کٹھن مراحل سے گزرنا پڑیگا اور مکمل میرٹ پر فیصلہ ہوگا کسی کا بیٹا یا کسی
رشتہ دار ہونا اسکی ترقی کی وجہ نہیں ہوگی بلکہ اسکی ترقی کی وجہ اسکی لگن
، محنت ، قابلیت، حالات کی نزاکت کے مطابق فیصلہ سازی، نظم و ضبط کی
پابندی، ادراے کے راز کی حفاظت اور اپنی جان کی بازی تک لگانا وجوہات میں
شامل ہے۔ جبکہ اسکے برعکس سیاستدان کا باوجود اسکے کہ عوام کے ساتھ رابطہ
بھرپور ہوتا ہے ایک ہی شخص لمبے عرصے تک اپنی جماعت کا سربراہ رہ سکتا ہے
۔لیکن پھر بھی عوام میں اپنی وہ عزت اورمقام نہیں بنا پایا جسکا وہ حق دار
ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ وہ خود ہے ۔ کیونکہ ہمارے ملک کی سیاسی لیڈر شپ
نے اپنی اپنی جماعتوں کو اپنی ذات کے دائرے میں ہی محدود کر دیا ہے ۔
سیاستدان اپنی جماعتوں کو بطور ادارہ بنانے میں ناکام رہے ، سیاستدان
پارلیمنٹ جس نے انھیں تحفظ دینا ہے اسے بطور ادارہ بنانے میں ناکام رہے ،
سیاستدان بردباری اور تحمل پسندی سے کام لینے میں ناکام رہے ، اپنے بعد
اپنی اولادوں کو جماعتوں کی قیادت کے لئے تیار کیا وہ کارکنان جو انکی
جماعتوں کے اثاثے ہیں انکی حیثیت کبھی سیاسی جماعت کے سربراہ جیسی نہیں
ہوسکتی حالیہ مثال چوہدری نثار اور مریم نواز ہیں ۔ اعتزاز احسن اور بلاول
بھٹو ہیں ، اگر ہم چوہدری نثار اور مریم نواز کا موازنہ کریں تو ہمیں کچھ
بھی موازنہ نظر نہیں آتا علم و دانش ، سیاسی حکمت عملی ، تجربہ اور قابلیت
دونوں میں بہت بڑا فرق ہے لیکن مریم نواز کا نام مسلم لیگ ن کے آئندہ
سربراہ کے طور پر لیا جا رہا ہے ، اسی طرح پیپلز پارٹی جس میں اعتزاز احسن
، قمر زمان کائرہ ، امین فہیم ، رضا ربانی جیسی شخصیات کے ہوتے ہوئے بلاول
بھٹو کو چیئرمین بنا دیا گیا جنکی قابلیت ان سے بیسیوں درجے کم ہے ۔ جنکا
سیاسی تجربہ ان شخصیات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ایک بھی
آوازانکی جماعت کے اندر سے مخالفت میں نہیں اٹھی کیونکہ انکو پتہ تھا کہ
مخالفت میں اٹھی ہوئی آواز کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے تو اس لیے ان جماعتوں
میں میرٹ پر اوپر آنے والے لوگوں کے بجائے چاپلوسی سے اوپر آنے والوں کے
لئے جگہ بنتی ہے ۔ رہا سوال اس کا کہ عدلیہ یا فوج بطور ادارہ حکومت یا
پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تو اسکا سیدھا سا جواب ہے ریاست
کے حکومت، فوج ، عدلیہ اور مقننہ کے چار ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اب اگر چار
ستونوں میں سے ایک ستون اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو عمارت کے گرنے کا
خطرہ رہتا ہے اور عمارت کمزور ہوتی ہے جس سے اس عمارت کے ستونوں کے وجود کو
بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں تو بقیہ ستونوں پر زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہے جو کہ
زیادہ دیر تک قابل برداشت نہیں ہوتا ۔ یہ درست کہ ماضی میں فوج کے چند
لوگوں نے آئین اور قانون کو توڑا اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے جو
کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں لیکن ہمیں اس موقع پر سیاستدانوں کہ نا اہلی
کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا ۔ اسلام آباد میں چند دن پہلے ہونے والے ایک
مذہبی جماعت کے دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال نے حکومت اور حکومتی ادروں
کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا اور جس برے طریقے سے سول حکومت اور ادارے
ناکام ہوئے وہ حیران کن ہے پورے ملک میں آگ لگنے اور انارکی کا خطرہ پیدا
ہوگیا ایسی صورتحال میں فوج نے اپنا کردار ادا کیا اور صورتحال کو قابو میں
کیا ۔ غیر ضروری حالات میں غیرضروری فیصلے ناگزیر ہوتے ہیں جو لوگ فوج کے
اس کردار پر تنقید کر رہے ہیں انھیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ہمارے ادارے
کہاں کھڑے ہیں اور کیا سول حکمرانوں نے انھیں اس قابل بنایا ہے کہ وہ ایک
ایسے ادارے پر اپنے کام میں مداخلت کا الزام لگائیں جس نے اپنا کام کافی حد
تک بہتر طور پر کیا ہے ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہونگی لیکن انھوں نے بطور
ادارہ اپنا آپ منوایا ہے ۔ اس ادارے کا صحت مندانہ مقابلہ کرنے کے لئے
سیاستدانوں کو سول اداروں کو بہتر بنانا ہوگا ۔ پارلیمنٹ میں میرٹ لانا
ہوگا، اپنی جماعتوں میں میرٹ لانا ہوگا، سول اداروں میں اپنے من پسند لوگوں
کو نوازنے کے بجائے بہترین لوگوں کو اوپر لانا ہوگا ۔ صاف شفاف انتخابات کے
ذریعے بہترین لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچانا ہوگا جو کہ عوام کے مسائل سے
آگاہ بھی ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے کی جستجو و لگن بھی رکھتے ہوں اور
اسکے ساتھ ساتھ ان میں اتنی قابلیت اور حوصلہ بھی ہو کہ مشکل حالات کا
مقابلہ کر سکیں ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا تمام سرمایہ ملک میں واپس لانا
ہوگا تاکہ عوام کو یہ پتہ ہو کہ انکے حکمرانوں کا جینا مرنا انکے ساتھ ہے ۔
پھر وہ آپ پر بھی اعتماد کریں گے ۔ اور ایسے ووٹر پیدا کریں گے جو یہ نہیں
کہیں گے ’’ کہ کھاتا ہے تولگاتا بھی ہے ‘‘ |