16دسمبر سقوط ڈھاکہ بدترین دن

تحریر: شاہین اختر

اگرچہ اب یہ بات کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ مشرقی پاکستان توڑنے کی سازش بھارت کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کھلے عام اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش کا قیام بھارتی فوج کی مداخلت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ قائم کی جس کو پہلا ٹاسک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا سونپا گیا جس کا نام تھا ’’آپریشن بنگلہ دیش‘‘۔ اُس وقت بھارت نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لئے غدار مجیب الرحمٰن کو نور نظر بنا کر ہر طرح کی مدد کی آج بھی بھارت براہمداخ بگٹی کو نور نظر بنا کر وہی شرمناک کام بلوچستان میں اُس سے لینا چاہتا ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان کے غیور بیدار عوام ایسی کسی سازش کا کبھی شکار نہیں ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ فراریوں کی بڑی تعداد ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہوتی جا رہی ہے لیکن دشمن ملک بھارت اپنی سازشوں سے باز نہیں آ رہا ۔ آج بھی بھارت پاکستان دشمنی میں بلوچستان میں براستہ افغانستان دہشت گردی کرا رہا ہے اور خود بھارتی فوج کے ایک آرمی چیف اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارتی فوج نے پاکستان میں آپریشنز کے لئے ایک یونٹ تشکیل دیا تھا۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے بنگلہ دیشی قومی رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ پہلے بھی بنگلہ دیش کے قیا م کے لئے بھارتی میڈیا نے زبردست پراپیگنڈا مہم چلائی اور اب بھی بنگلہ دیش میں بھارت نواز عوامی لیگ بھارتیوں کے اشارے پر سب کچھ کررہی ہے۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن نے جو چھ نکات پیش کیے تھے ان کا مسودہ بھارت میں تیار کیا گیا تھا اور دہلی کے حکمرانوں کی منظوری حاصل کرنے کے بعد اسے بروئے کار لانے کی ذمہ داری شیخ مجیب الرحمن کے سپرد کی گئی تھی۔
پاکستان کے دشمن عناصر کے ساتھ بھارت کی ریشہ دوانیاں پہلی بار 1967ء میں منظر عام پر آئیں جب اگرتلہ سازس کیس کا انکشاف ہوا۔ متعدد لوگوں نے حلفاً بیان کیا کہ شیخ مجیب الرحمان اس سازش میں ستمبر 1964ء میں ملوث ہو چکے تھے جب مشرقی پاکستان کو باقی ملک سے الگ کرنے کے لئے ایک انقلابی تنظیم قائم کی گئی تھی اگر تلہ سازش کا اہم منصوبہ یہ تھا کہ اسلحہ خانوں پر قبضہ کرکے فوجی یونٹ مفلوج و معطل کردیئے جائیں۔ یہ کام وہ کمانڈوز کے انداز میں کرنا چاہتے تھے۔ بھارت کی جاسوسی تنظیم ’’را‘‘ کے سربراہ سنکرن راؤ (اس کا فرضی نام کرنل مینن تھا) کے بقول یہ بالکل ایسا تھا جیسے کوئی تنہا انسان رائفل بردار فوجی کی رائفل پر ہاتھ ڈال دے اور اسے بزور قوت حاصل کرنے کی سازش کرے۔ اچانک اقدام ہی سے افرادی قوت کی کمی پوری کی جاسکتی تھی اپریشن کا کام کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں اور بھارت کے نمائندوں کا اجلاس اگرتلہ میں 12جولائی 1967ء کو ہوا۔ ان سازشیوں کو دسمبر 1967ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں مجیب الرحمان بھی تھے۔ ان میں سے ایک نے انکشاف کیا کہ بھارت نے ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرنے کے علاوہ مشرقی پاکستان بغاوت منظم کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ بھارت نے کہا کہ وہ مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت کے موقع پر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے ملانے والے بحری اور فضائی راستے بند کردے گا۔

بھارتی اخبارات نے اگرتلہ سازش کے بار ے میں تسلسل کے ساتھ گمراہ کن اور بے بنیادی خبریں شائع کیں اور اس سازش کو مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کو کچلنے کا منصوبہ قرار دیا۔ درحقیقت اگرتلہ سازش کیس حقائق پر مبنی تھا اور بقول جی ڈبلیو چوہدری انہیں مجیب کے وکیل مسٹر عبدالسلام(یہ عوامی لیگ کے اہم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے) نے ایک بار مجھے بتایا کہ مجھے اگرتلہ سازش کیس میں بھارتی حکومت کے عمل دخل سے انکار نہیں لیکن پاکستان کے اندر اگرتلہ سازش کیس کو جس بھونڈے طریقے سے چلایا گیا اس پر مشرقی پاکستان کے عوام نے محسوس کیا کہ مجیب الرحمن کو اس لئے محرومیوں اور اقتصادی ناہمواری کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مجیب نے وہاں کی اکثریت کے لئے قومی ہیرو کا مقام حاصل کرلیا۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت برپا ہونے کے چھ دن بعد 31مارچ 1971ء کو انڈین کونسل آف ورلڈ آفیئر کا ایک اجلاس ہوا اس میں تقریر کرتے ہوئے بعض مقتدر بھارتیوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز کے ڈائریکٹر مسٹر کے سبرامینم کے ان خیالات کی بھرپور تائید کی کہ ’’ہمیں احساس کرلینا چاہئے کہ پاکستان کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہمارے زبردست مفاد میں ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اس سے بہتر موقع ہاتھ نہ لگے گا‘‘۔ اس سمپوزیم میں بنگلہ دیش کے بحران کے حوالے سے کہا گیا ’’اپنے دشمن نمبر ایک کو برباد کرنے کا اس سے بہتر مناسب اور سنہری موقع شاید ہی پھر آئے‘‘۔بھارت نے بنگلہ دیش کی تحریک کی وسیع پیمانے پر امداد شروع کردی۔ بھارت کی پشت پناہی پر ہی 10اپریل 1971ء کو کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ بھارت نے بارڈر سکیورٹی فورس کے ذریعے مکتی باہنی کی تربیت اسلحہ کی سپلائی اور اپنی سرزمین کو مشرقی پاکستان پر حملوں کے لئے چھاؤنی بنانے کی اجازت دیدی‘‘۔ پاک فوج اپنوں کی سیاسی ساز باز اور بین الاقوامی سازش کا شکار بنی جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان اور جنرل عبداﷲ خان نیازی (اے کے نیازی) اپنی نااہلی اور مکروہ عادات و اطوار کے باعث سازش کا آسانی سے شکار ہو گئے۔ اپنوں اور غیروں نے اپنی تزویراتی اہداف کے حصول کیلئے پاکستان کے دو لخت ہونے کا سارا الزام اور ملبہ پاک فوج پر ڈال دیا لیکن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن بھارتی پالیسی خواہش اور حکمت عملی کے مطابق بھارت میں ضم نہ ہوسکا اور ایک آزاد ملک کے طور پر اپنا تشخص آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن بدقسمتی سے اُسی بنگلہ دیش میں 1971ء میں اپنی فوج اور اپنے ملک پاکستان کا ساتھ دینے والی جماعت کو جرم پاکستانیت میں عدالتی انصاف کے قتل کے ذریعے پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.