ایک گاؤں میں تین بھائی رہتے تھے۔ بڑے دونوں میں
تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہتے تھے۔ چھوٹے بھائی کا گھر بڑے دونوں کے گھروں کے
وسط میں تھا اور سب سے زیادہ پریشانی بھی اسے ہی اٹھانا پڑتی تھی۔ وہ کوشش
کرتا رہتا کہ دونوں بڑوں میں تعلقات خوش گوار ہو جائیں۔ اس کی یہ کوشش تو
کامیاب نہ ہوتی البتہ اسے دونوں جانب سے اضافی دباؤ بھی برداشت کرنا پڑتا۔
دونوں اپنی اپنی جگہ اسے دوسرے سے قطع تعلقی پہ ابھارتے رہتے۔ اکثر ایسا
ہوتا کہ بڑے دونوں کے درمیان نوبت ہاتھا پائی تک چلی جاتی اور یہ کام چھوٹے
کے دروازے کے سامنے ہوتا یا چھت پہ ہوتا۔ بڑوں میں سے کوئی دوسرے کے حصہ
میں داخل نہ ہوتا اور چھوٹے کے زیرِ تصرف مکان کو ہی میدانِ جنگ بنا لیا
جاتا۔ اہلِ محلہ بھی آئے دن کی افراتفری سے تنگ آ کر چھوٹے کے گھر بیٹھک
کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ محلہ میں کسی کو دونوں بڑوں
میں سے کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ چھوٹے کے دروازے پہ ہی دستک دیتا۔
ایسے میں چھوٹے کے گھر بیٹھ کر اہلِ محلہ ایک بڑے کے خلاف جی بھر کے بھڑاس
نکالتے اور دوسرا بڑا بھی اہلِ محلہ کی ہاں میں ہاں ملاتا۔ کبھی یہ صورتِ
حال ایک کے موافق ہوتی تو کبھی دوسرے کے۔ وقت گزرتا گیا اور ایک دن یکے بعد
دیگرے تینوں بھائیوں کا اس محلہ سے جانا ٹھہر گیا۔
اگلے دنوں سعودی عرب میں بڑے زور و شور سے ایک پریس کانفرس ہوئی تھی جسے
کافی اہمیت دی گئی۔ ایک بڑے فوجی اتحاد کے اغراض و مقاصد پہ دنیا بھر کے
تجزیہ کاروں نے خوب تبصرے کیے۔ اسلامی دنیامیں اٹھنے والے خدشات کا بھی ذکر
کیا گیا۔ مسلم امہ کے اتحاد کی بات بھی کی گئی اور اس خیال کی نفی بھی کی
گئی جو پاکستان میں بار بار اٹھتا ہے کہ آیا نشانہ دہشت گردی ہے یا کچھ اور……
پھر ٹرمپ کی جانب سے چھ ممالک پہ سفری پابندیوں کا اعلان اور اس پہ عدالتِ
عظمی کا تائیدی فیصلہ بھی بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ لیکن اتنا ہی
کافی نہیں ہے حالیہ بیان میں ٹرمپ نے اسرائیل کی خوشنودی میں (اور شاید
اپنے کاروبار کی وسعت کے لیے) یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے
رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ یہ ان شیوخ کی موجودگی میں ہو رہا ہے جو
ٹرمپ کی محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتے تھے۔ مسلم امہ کو بدست تلوار رقص یاد
ہو گا بس اس رقص کی کرامات اب تک جاری ہیں۔ ہم محفلوں کا پاس بھی رکھنا
پڑتا ہے۔ ٹرمپ تو پاس نہیں رکھیں گے کہ وہ تو لیلائے بزم تھے۔ لیکن شیوخ
پاسِ وفاداری میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ تبھی تو ان کے پہلو میں عرصہ
سے رینگنے والا سانپ اب ڈس رہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یروشلم کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے جس کی بنیاد پہ
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔ مسلم امہ کے لیے ٹرمپ کے محسوسات کوئی
ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ آج نہیں تو کچھ عرصہ بعد یہی فیصلہ سامنے آنا تھا۔ وہ
ایک سرمایہ دار ہے اور اپنی چیز بیچنا خوب جانتا ہے سو وہ مسلم ممالک میں
تعصب، نفرت، تقسیم، ڈر اور اسلحہ بھی مہنگے داموں بیچ رہا ہے اور ساتھ ساتھ
ان کے سروں پہ جوتے بھی مار رہا ہے۔ اور ہم لوگ ایسے ہیں جو جوتے کھا کر
بھی خوش ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں ٹرمپ یا امریکی پالیسی سے زیادہ قصور
وار مسلم امہ ہے جو جاہلیت کے اندھیروں سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ جو
اس حد تک تقسیم ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک ملک
دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھتا ہے اور دوسرا پہلے کی اینٹ سے
اینٹ بجانا چاہتا ہے۔ مسلم امہ جن کے پاس اکائی کے لیے ہر اصول موجود ہے نہ
خدا الگ، نہ رسول الگ اور نہ ہی کتاب الگ…… لیکن پھر بھی سب اتنے ٹکروں میں
تقسیم ہیں کہ اکائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک جانب چند مسلم ممالک کے
امریکہ میں داخلہ پہ پابندی لگا دی جاتی ہے جسے صدر کے بعد ان کی عدالتِ
عالیہ بھی جائز قرار دیتی ہے اور دوسری جانب بیت المقدس کو اسرائیل کی
جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن مسلم دنیا میں اتنی قوت نہیں کہ وہ اپنے
حق کے لیے ایک موثر آواز اٹھا سکے۔ مسلم دنیا کے حکمران کہیں عیاشیوں کے
سمندر میں غرق ہیں اور کہیں کرپشن میں نہا رہے ہیں۔ کسی کی گردن میں سڑیا
ہے اور کسی کے دماغ میں خلل۔ کہیں کچھ لوگ ظاہری اتحاد کر رہے ہیں اور کہیں
خفیہ اتحادوں میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی اتحاد اس وقت تک اتحاد
نہیں کہلایا جا سکتا جب تک اس کے پرچم تلے سب مسلم نہ کھڑے ہوں۔ یہ ڈیڑھ
ارب کی آبادی آج تک یہ بات نہ سمجھ پائی کہ انھی میں سے کوئی حملہ آور کا
سہولت کار بن جاتا ہے اور اپنے ہی گھر میں نقب زنی کرتا ہے اور اس کے بعد
تقسیم کی خلیج مزید گہری ہوتی جاتی ہے۔ آج جوہم میں سے سہولت کار بنے گا کل
کو وہی شکار ہو گا اور ہمارا ہی کوئی اور بھائی سہولت کار بنا ہو گا۔ یہ
سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔ یہ وقت اپنی اپنی اناؤں
سے باہر نکلنے کا ہے۔ اختلافات کی آگ پہ پانی ڈالنے اور اتفاقات کو رختِ
سفر کرنے کا ہے۔ سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ کیا
پوری مسلم امہ میں ایک بھی ایسا حکمران باقی نہیں رہا جو گنتی کے مسلم
حکمرانوں کی جانب دیکھنے کی بجائے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پہ نگاہ ڈالے اور یہ
درد محسوس کرے کہ کیوں چند ایک لوگوں نے اپنے اقتدار کی ہوس میں انھیں ایک
دوسرے سے کاٹ رکھا ہے۔ کیا کوئی ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں کہ جو ان ڈیڑھ
کروڑ مسلمانوں کے لیے سب حکمرانوں کو ایک میز پہ بٹھا سکے۔ جس دن یہ سب
اپنے دلوں کا بغض نکال کر ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اسی دن دہشت گردی بھی
ختم ہو جائے گی اور مسلم امہ کی تفریق بھی دم توڑ دے گی۔ ٹرمپ کے فیصلے پہ
خود مغرب کی جانب سے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ ہوا ہے۔ ایسے میں مسلم دنیا اس
ردِ عمل کو اپنے موقف کی حمایت کے لیے بخوبی استعمال کر سکتی ہے لیکن اس کے
لیے بھی اجتماعی سطح پہ جو کام کیا جا سکتا ہے وہ انفرادی سطحوں پہ مؤثر
نہیں ہو سکتا۔ اجتماعی سطح پہ اٹھائی جانے والی آواز ہی ان مظالم کے راستے
میں رکاوٹ بنے گی جو کشمیر، فلسطین، برما، بھارت، چین یا دنیا کے کسی بھی
کونے میں بسنے والے مسلمانوں پہ جاری ہیں۔ یہ سچ ہے کہ علمی و تکنیکی میدان
میں دیگر اقوام کی برابری کے لیے ہمیں بہت طویل اور صبر آزما سفر کی ضرورت
ہے لیکن کم از کم ہم اتحاد و اتفاق کی فضا تو قائم رکھ سکتے ہیں کہ یہ تو
ہمارے اختیار میں ہے۔ |