مولانا فضل الرحمان بھی عجب بندے ہیں۔ان کی شخصیت کو کوئی
نام دینا مشکل بن جاتاہے۔ان کی طویل سیاسی جدوجہد ہر طرح کے باب سمیٹے ہوئے
ہیں۔وہ ہر رنگ کی سیاست پر قدرت رکھنے کا ثبو ت دے چکے۔وہ پی پی کے ساتھ
ہیرا پھیریوں کے کچھ اوار میں ساجھی رہے ہیں۔عمران خاں جو آئے دن ان کے
الٹے سیدھے نام لیتے رہتے ہیں۔یہ اسی بے نظیر اور زردای کی سنگت کی دین
ہیں۔انہوں نے ہر قیمت پر اپنے ساتھی کے ساتھ رہنے کی ریت نبھائی ہے۔ان کا
ساتھی دھو پ میں تھایا چھاؤں میں آگیا۔یہ حضرت ساتھ رہے۔محفل کو چاہے کچھ
بھی نام ملا۔مولانا صاحب نے محفل کو آخری دموں تک اپنائے رکھا۔ان کا تازہ
ترین کارنامہ نوازشریف کی حماعت کرناہے۔کچھ مہینوں پہلے تک یہ حمایت کسی حد
تک ڈھکی چھپی تھی۔مولانا صاحب اتنا کم بولے کہ ان کی دوستی اور مخالفت کا
اندازہ لگانا مشکل رہا۔ان دنوں و ہ کھل کر نوازشریف کے کندھے سے کندھا
ملائے کھڑے ہیں۔زرداری صاحب کے علامہ طاہر القادری سے ملاقات کرنے پر
مولانا صاحب نے پی پی کو یتیم اور بے آسرا کہہ کربڑی جرات کا مظاہر ہ کیا
ہے۔زرداری صاحب سے بارگین میں بازی لے جانا ناممکنات میں سے ہے۔مولانا نے
زرداری صاحب کی اس سیاست پر تنقید کرکے صحیح معنوں میں دلیری کا ثبوت دیا
ہے۔
نوازشریف کے اس کڑے وقت میں جاوید ہاشمی کا بھی ان کے ساتھ آکھڑے ہونا بھی
حیران کن ہے۔کچھ لوگ ہاشمی صاحب کے مسلم لیگ ن کو چھوڑنے کو حق تلفی ہونے
کے سبب قراردے رہے تھے۔کہا جارہا تھاکہ جس عہدے اور منزلت کے ہاشمی صاحب حق
دار تھے۔انہیں نہیں دیا جارہا تھا۔اس بے اعتنائی کے بعد وہ بے اطمینانی کے
شکار رہتے تھے۔کسی مناسب موقع کے منتظر تھے۔جیسے ہی تحریک انصا ف کی طرف سے
آفر آئی۔قبول کرلی۔وہ اس قدر بھرے ہوئے تھے کہ پارٹی کے اعلی ترین لوگوں کے
منت سماجت کرنے کو بھی نظر انداز کرکئے۔جب وہ کراچی جلسے کے لیے عمران خاں
کے وا بازؤں میں سمائے جارہے تھے۔تو اس بات کو کچھ ہفتے بھی نہ ہوئے تھے۔کہ
نوازشریف کے ملتان کے جلسے میں انہوں نے میاں صاحب کی تعریف میں بہت کچھ
کہا۔جانے کیا ہواکہ کچھ ہی دنوں میں وہ سب بھول گئے۔ان کے سب سے بڑے بد
خواہ کی جھولی میں جا بیٹھے۔وہ چلے تو گئے۔مگر ان کے ستارے ان کے ارادوں کے
موافق نہ ہوئے۔چاہتے نہ چاہتے وہ نوازشریف کے کام آتے رہے۔اگست 2014 میں
بھی لیگی قائد بری طرح سازشیوں کے نرغے میں تھے۔پردے کے پیچھے چھپے کچھ لوگ
انہیں نگلنے کے قریب تھے۔کہ ہاشمی صاحب نے ایسا رولا غولہ ڈال دیا کہ طاقت
ور وں کی طاقت جام ہوگئی۔انہیں کئی قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔تب اگر ہاشمی صاحب
یہ ٹوٹکہ نہ چلاتے تو عمران خاں کی کامیابی یقینی تھی۔انہیں ہاتھ آئی حکومت
کے اس طرح چھن جانے کا اتنا غصہ ہے کہ اب وہ اس جاوید ہاشمی کانام سننا
گوارہ نہیں کرتے جسے کل کو وہ اپنی پارٹی کا نمبر دو یا نمبر تین قراردیا
کرتے تھے۔
سیاست کا جوڑ توڑ عروج پر ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اظہار یک
جہتی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔اظہار یک جہتی کرنے والے
علامہ صاحب کی طرف کھچے چلے آرہے ہیں۔زرداری صاحب کا کھچے چلے آنا حیران کن
یوں ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر اس قدر کیچر اچھال چکی ہیں کہ قربتوں
کاتصور محال تھا۔جب ریاست بچاؤ دھرنے کے خاتمے کا سمجھوتہ زرداری حکوت او
رعلامہ صاحب کے درمیان ہواتھاتو قادری صاحب نے خصوصی طور پر قمر الزمان
کائرہ کو اپنے کنٹینر میں بلاکر انہیں پنچائیت کے سامنے اپنے اس اظہا ربیان
کو دہرانے پر مجبور کیا جو وہ میڈیا میں کیا کرتے تھے۔کائرہ صاحب علامہ
صاحب کا ذکر جس انداز میں کیا کرتے تھے۔بھرے مجمع میں انہیں کرنا کسی وبال
جان سے کم نہ تھا۔ترپ کا پتہ چونکہ قادری صاحب کے ہاتھ تھا۔کائرہ صاحب کو
ساری ایکٹنگ کیے بغیر معافی نہ ملی۔زرداری صاحب کا قادری صاحب کے درعقدس پر
جانا اس بات جانا اس بات کا پتہ دیتاہے۔کہ تاریخ ایک بار پھر خود کو
دہرارہی ہے۔پی پی لیڈرشپ بخوبی سمجھتی ہے کہ قادری صاحب ایک بار پھر ترپ کا
پتہ لیے بیٹھے ہیں۔یہ ترپ کا پتہ وہی ہے۔جو سیاست نہیں ریاست بچاؤ شیڈیول
دینے والوں نے تب تھمایاتھا۔مولانا فضل الرحمان نے پی پی کو یتیم او ربے
آسرا قرار دے کر ترپ کے پتے کے بالمقابل کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔خیال
کیا جارہا تھاکہ جمعیت علماء اسلام کے امیر نوازشریف کو چھوڑنے کا ذہن
بنائے ہوئے ہیں۔اگلے پانچ سالوں کے لیے وہ کسی نئے بندوبست کی تلاش میں
ہیں۔نوازشریف کے ساتھ اس موقع پر جمے رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔زردار
ی۔قادری ملاقات پر تنقید کرکے انہوں نے ایک بار پھر اپنا وزن نوازشریف کے
پلڑے میں ڈالا ہے۔ہاشمی صاحب بھی آچکے۔قافلہ ہے تو چھوٹا سا مگر اس کا وزن
تھوڑا نہیں۔عمران۔قادری اور پی پی کا غیر اعلانیہ اتحاداس غیر واضح تصویر
کو تھوڑا اور نمایا ں کررہا ہے۔جو پچھے کچھ برسوں سے عام آدمی کو دکھائی
جارہی ہے۔اس تصویر میں کچھ مکروہ چہروں کو لالی پاؤڈر کی کئی تہوں سے
خوبصورت اور معصوم بنا کردکھا جاتارہاہے۔وقت کا کھردرا پن اس تصویر سے رفتہ
رفتہ مصنوعی خوبصورتی اور معصومیت کی تہیں مٹاتا چلا جارہاہے۔مولانا فضل
الرحمان او رجاوید ہاشمی نے اس وقت اگر لشکر حق کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا
ہے تویہ کوئی چھوٹا موٹا فیصلہ نہیں ہے۔ |