آج کل مختلف ٹی وی چینلوں پر اسلام کو نیچا
دکھانے اور سیکولر ازم کے حق میں بحث ہو رہی ہے۔ مغربی این جی اوز کے ساتھ
چند لاکھ ڈالروں میں اسلام کا سودا کرنے والے چینلوں کے اینکر پرسن اسلام
کو یوں موضوع سخن بنائے ہوتے ہیں کہ جیسے انہوں نے اسلام پر پی ایچ ڈی کر
رکھی ہے۔ چند دانشور قسم کے سیکولر لوگوں کو بلا کر ان کے سامنے ایک کمزور
سا مولوی بٹھا دیا جاتا ہے اور اسلام کے قوانین پر یوں بحث کی جاتی ہے جیسے
وہ قوانین اس مولوی نے بنائے ہیں۔
پاکستان میں ایسے ان گنت مسلمان ہیں جو اسلام سے بری طرح خائف ہیں اور موقع
ملنے پر حرف زنی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ توہین رسالت ایکٹ(295-C)کو کالا
قانون قرار دیتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولۖ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں کو
وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں اور کوئی ٹوکے تو یہ کہہ کر اس کی زبان بند
کرا دیتے ہیں کہ ہم آپ سے بہتر مسلمان ہیں اگر ہم یاد کر سکیں تو سابق
امریکی صدر بش کے دور میں ایک امریکی تھنک ٹینک نے یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ
جب تک پاکستانی معاشرہ بنیاد پرستی (اسلام) پر قائم رہے گا اس وقت تک دنیا
سے انتہا پسندی ختم نہیں ہوگی۔ اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر جب پاکستانی
معاشرے کی نئے سرے سے ذہن سازی کی مہم شروع کی گئی تو کئی سینئر صحافیوں کو
بڑی بڑی رقموں کی آفر بھی کی گئی تھی کہ وہ اپنے کالموں اور تجزیوں کے
ذریعے پاکستانی معاشرے میں ایسی تبدیلی لائیں کہ مذہب ہر فرد کا انفرادی
معاملہ بن کر رہ جائے۔ اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے تو یہ اللہ ہی
جانتا ہے مگر کچھ صحافی ایسے بھی تھے جنہوں نے رقم لے کر دین فروشی سے
انکار کر دیا تھا۔ بعدازاں بعض پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی مقبولیت کو دیکھتے
ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ ان کے ذریعے پاکستانی معاشرے کی ہیئت تبدیل کی جائے۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہماری مساجد کے مولوی دین کو جس انداز میں پیش
کرتے ہیں وہ بالکل صحیح ہے کیونکہ دین کی حقیقی تعبیر کو ایک بہت بڑا عالم
اور محقق ہی سمجھ سکتا اور پیش کر سکتا ہے لیکن اس قدر عرض کرنا ضروری
سمجھتے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اگر اسے ایک مکمل
ضابطہ حیات کے طور پر اپنی زندگیوں پر لاگو کیا جائے تو دنیا کا سب سے
زیادہ صالح' پاکیزہ اور بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
اسلام اپنی روح کے مطابق یا تو فتح مکہ کے بعد نافذ ہوا تھا یا خلفائے
راشدین کے دور میں جن کی تربیت نبی کریمۖ نے خود کی تھی۔ اس نظام کا عروج
اس وقت دیکھنے کو ملا جب حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے گیارہ سال چار
ماہ کے دور میں زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کے تابع کر دیا تھا۔ انہوں نے سب
سے پہلے خود اللہ اور اس کے رسولۖ کے احکامات کے سامنے سرنڈر کیا اور پھر
اپنی رعایا پر اس انداز میں اسے لاگو کیا کہ زکوٰة دینے والے صدائیں دیتے
پھرتے تھے اور لینے والا کوئی نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک عام بدو کو بھی
یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ سے پوچھ سکے کہ اس نے جو لباس پہن رکھا ہے یہ
اسی قدر کپڑے سے بنا ہے جو عام مسلمانوں کے حصے میں آیا تھا یا بیت المال
سے اضافی کپڑا حاصل کیا گیا تھا۔ سوال کرنے والے کے انداز کو گستاخی سمجھا
گیا لیکن حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اپنے
بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ وہ اس امر کی وضاحت کریں۔ حضرت
عبداللہ بن عمر نے ہجوم میں کھڑے اس شخص سے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ
لباس اس قدر کپڑے سے نہیں بن پایا جو میرے باپ (حضرت عمر) کے حصے میں آیا
تھا۔ میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی والد گرامی کو دیا تو یہ تب بن سکا۔ سوال
کرنے والے کی تسلی ہوگئی اور یہ وضاحت بھی ہوگئی کہ اسلام رہتی دنیا تک کا
ایک ایسا دین ہے جس میں ایک عام شخص بھی خلیفہ' بادشاہ' صدر یا وزیراعظم سے
امانتوں کے بارے میں سوال کر سکتا ہے اور ان زعماء پر لازم ہے کہ وہ سوال
کرنے والے کی تشقی کرائیں۔
ماں زبردستی بچے کا دودھ چھڑا رہی تھی کیونکہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے اعلان کر دیا تھا کہ جب تک بچہ دودھ پیئے گا اس وقت تک اس کا وظیفہ مقرر
نہیں کیا جائے گا۔ بچے کو روتے بلکتے اور ایک ماں کی مجبوری کو دیکھ کر
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے گویا اپنا سر پیٹ لیا اور اسی وقت حکم جاری
کیا کہ شیر خوار بچوں کو بھی بیت المال سے وظیفہ دیا جائے گا۔ آج دنیا کا
کون سا سیکولر حکمران ہے جو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح رات رات بھر
اس خوف سے گلیوں میں گھومتا ہو کہ رعایا کا کوئی فرد تکلیف میں مبتلا نہ
ہو۔
ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ پوچھا یہ کیوں رو رہے ہیں۔
بتایا گیا کہ بھوکے ہیں کھانا نہیں کھایا۔ اپنے خدمت گار کے ساتھ بھاگم
بھاگ بیت المال پہنچے۔ وہاں سے اناج کی بوری اپنی کمر پر اٹھائی اور خدمت
گار کی منتوں سماجتوں کے باوجود بوری اپنی کمر سے نہیں اتاری۔ فرمایا کہ
قیامت کے روز عمر کا بوجھ تم نہیں اٹھاؤ گے۔
اناج لے کر بچوں کے گھر پہنچے اور ان کی ماں سے کہا میرے سامنے کھانا پکاؤ
اور انہیں کھلاؤ' میں نے انہیں روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت تک چین نہیں آئے
گا جب تک انہیں ہنستا ہوا نہ دیکھ لوں۔
کیا سیکولر ازم' مارکیٹ اکانومی یا سوشلزم نے ایک بھی ایسا حکمران پیدا کیا
جو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں کی خاک کے بھی برابر ہو؟
یہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نظام نہیں تھا بلکہ خالصتاً اسلامی نظام
تھا جسے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صرف نافذ کیا تھا...اب اگر آج کے
دور میں کوئی اسے سمجھنا ہی نہ چاہے اور اس کے نفاذ کی بات کی جائے تو اول
فول بکنے لگے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ' اس کے حواری اور سیکولر
پاکستانی دانش فروش اسلام سے خائف ہیں کیونکہ یہ امیر غریب کی تفریق مٹا کر
سیاسی' سماجی اور معاشی مساوات فراہم کرتا ہے۔ یہ نہ تو امریکیوں کو گوارا
ہے نہ جاگیرداروں ' سرمایہ داروں کو اور نہ ہی ان پاکستانی دانش فروشوں کو
جو ڈالروں کے عوض اپنا سب کچھ بیچ سکتے ہیں۔ |