وزیراعظم کے حواس پر مسلمان اس طرح سوا ر ہیں کہ انہیں
راہل گاندھی کی تاجپوشی میں بھی اورنگ زیبنظر آتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو کشمیر
سے لے کر آسام تک مسلمانوں ہی کے سبب بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔
کبھی کیرالہ سے آکر ہادیہ بھری عدالت میں طمانچہ جڑ دیتی ہے تو کبھی گجرات
میں احمد پٹیل دھول چٹا دیتے ہیں ۔ کشمیر کے اندر ظلم و جبر کی ساری حدوں
کو پھلانگنے کے بعد بھی جب ناکامی ہاتھ آتی ہے تو کھسیانی بلی کی طرح عام
معافی کا اعلان کردیا جاتا ہے ورنہ ایک زمانے تک پھانسی چڑھانے اوربم
برسانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ آسام کو برما بنانے کا خواب دیکھنے والوں
کوعدالت عظمیٰ میں مسلمانوں کی وجہ سے رسوا ہونا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
جبسونیاالزام لگاتی ہیں کہ گجرات میں انتخاب کے خوف سےمودی سرمائی اجلاس
ملتوی کررہےہیں توبی جے پی جواب دیتی ہےہم پارلیمانی اجلاس میں تین طلاق کا
قانون لائیں گے گویا ملک میں اس سے اہم کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کیا یہ محض
اتفاق ہے کہتین طلاق کے قانون کا مسودہ جس دن پیش ہوتا ہے اسی دن سرکار
مویشیوں کے نقل و حمل کا رسوائے زمانہ حکمنامہ واپس لے لیتی ہے۔ اس طرح
مودی سرکار اپنی پاکھنڈی گئوبھکتی کو تین طلاق کی آڑ میں چھپا لیتی ہے۔
جدیدہندوستان کی تاریخ میں ۲۰۱۷ کو’’ گائے کا سال‘‘ کے طور پر یاد کیا
جائیگا۔ اس سال جنوری میں ونیت ساہائے نامی دہلی کے باشندے نے سپریم کورٹ
میں گئو کشی پرملک گیرپابندی عائد کرنے کی عرضی داخل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ اس مطالبے کی بنیاد نہ تو گائے سے محبت تھی اورنہ تقدس تھا ۔ اس کے حق
میں تجارتی منطق پیش کی گئی تھی ۔ ساہا کے مطابق مہاراشٹر حکومت کےذریعہ
ریاست میں گئو کشی ،گائے کے گوشت کی خریدو فروخت اور اسے رکھنے پر پابندی
عائدکرنےکی وجہ سےجن صوبوں میںممانعت نہیں ہے وہاں مویشیوں کی اسمگلنگ بڑھ
گئی ہے ۔ ملک کےچندصوبوں میں گئو کشی پر مکمل پابندی ہے، کہیں پر سخت شرائط
و ضوابط کے ساتھ اجازت ہے اور کچھ مقامات پر کھلی چھوٹ ہے ۔ اس ناہمواری کے
سبب مویشیوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے اورتاجرخسارہ اٹھاتے ہیں۔ گویا دلیل یہ تھی
کہ گوشت کے بیوپاریوں کو نقصان سے بچانے کی خاطر یکسانیت لائی جائے اورپورے
ملک میں گئو کشی پر پابندی عائد کردی جائے۔
گئورکشک کے ذریعہ گوشت کے بیوپاریوں کی ہمدردیعدالت عظمیٰ کو قائل نہ کرسکی
اور مفاد عامہ کا یہ قضیہ کو مسترد کردیا گیا۔ عدالت کے مطابق مویشیوں کے
غیر قانونی حمل نقل پہلےسےممنوع ہے ۔گئو کشی پر پابندی عائد کرنے میں
ریاستیں خودمختار ہیں اس لیے وہ دخل دینا نہیں چاہتی ۔ اس فیصلے نے ظاہر
کردیا کہ بی جے پی لوک سبھا میں اپنی واضح اکثریت کے باوجود ملک بھر میں
گئو کشی پر پابندی لگانے سے قاصر ہے۔ مودی سرکارکو چاہیے تھا اس بڑی ناکامی
سے عبرت پکڑتی لیکنلاتوں کےبھوت باتوں سےکب مانتے ہیں؟ ۲۳ مئی کو وزارت
ماحولیات نے جانوروں سے بے رحمی کے قانون میں ترمیم کرکے بازاروں میں
مویشیوں کی فروخت پر امتناع کے لئے نیا حکمنامہ جاری کردیا۔
اس جدید اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ گائے ، بیل ، بھینس ، کھلگے ، بچھڑے ،
اونٹ وغیرہ صرف اس وقت فروخت کئے جاسکتے ہیں جب فروخت کنندگان رسمی طور پر
یقین دلائیں کہ ان مویشیوں کو ''ذبیحہ کے مقصد سے فروخت کرنے کیلئے بازار
میں نہیں لایا گیا ہے '' ۔ خریداروں کیلئے بھی یہ توثیق لازم قراردی گئی کہ
وہ کسان ہیں اور ان مویشیوں کو چھ ماہ تک فروخت نہیں کریں گے۔یہ بات آج تک
کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ دارالخلافہ دہلی میں جہاں وزارت ماحولیات کا
صدر دفتر ہےہر سال اکتوبر میں فضائی آلودگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ عوام کا
سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔اسکولوں میں چھٹی کرنی پڑتی ہے ۔ حال میں
ہندوستان اور سری لنکا کا میچ درمیان سے روک دینا پڑا ہے مگر وزیر ماحولیات
کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ اس کے برعکس مویشیوں کی خریدو فروخت کے غیر
متعلق معاملہ میں غیر ضروری دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا تا ہے۔
اس حکمنامہ پرمدراس ہائی کورٹ کی مددرائی ، بنچ نےایک ہفتہ کے اندر التواء
جاری کردیا۔چالیس دن بعد یہ قضیہ سپریم کورٹ میں آیا تو وہاں بھی مرکزی
حکومت کو منھ کی کھانی پڑتی ہے۔عدالتِ عظمیٰ نے مدراس ہائی کورٹ کے عبوری
حکم کو نہ صرف برقرار رکھابلکہ التواء کا اطلاق سارے ملک پر کردیا۔ حکومتی
فیصلے کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے والا مقدمہ آل انڈیا جمعیۃ القریش
ایکشن کمیٹی نے دائر کیا تھا اور گہار لگائی تھی کہ یہ ا حکامات من مانی ،
غیر قانونی اور غیر آئینیہے ۔ ان میں مویشی تاجروں کےساتھ امتیازی سلوک
اور ان کی حق تلفیہوتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اندر حکومت کی سمجھ میں آگیا کہ
کسی ویران ہائی وے پر ہجوم کے ذریعہ نہتےفرد کو گھیر کر مار دینا اور اوپر
سے مظلوم کے لواحقین کے خلاف مقدمات قائم کردینا جس قدر آسان ہے عدالت میں
کھڑے ہو کر اپنا دفاع کرنا ویسا سہل نہیں ہے۔ سرکار کی پیروی کرتے ہوئے
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل پی ایس نرسمہا نے اعتراف کیا کہ حالیہ اعلامیہ پر اس
وقت تک عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک کہ صوبائی حکومتیں مویشیوں کی خرید و
فروخت کے قواعد نافذ نہ کریں ۔ یہ ایک حقیقت ہےعوامی جلسوں میں اشتعال
انگیز بیان دینے والے عدالت کے کٹہرے میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ عدالت
عظمیٰ نے مرکزی حکومت کویہ حلف نامہ داخل کرنے پر مجبور کیا کہ وہ ضروری
ترمیم کے بغیرنوٹیفکیشن نافذ نہیں کرے گی۔
عدالت نے تو مرکزی حکومت کو اگست تک حکمنامہ میں ترمیمات کرنے کا موقع دیا
لیکن سرکار نےایک قدم پیچھے ہٹ کربڑے جانوروں کی فروخت پر پابندی سے متعلق
اپنے متنازعہ اعلامیہ سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ اس طرح مویشیوں پر ظلم
اور بے رحمی کے انسداد سے متعلق قانون میں ترمیم کرکے تاجروں پر ظلم و جور
کا جو بازار گرم کیا گیا تھا اس پر اوس پڑ گئی ۔ امید ہے اس اقدام سے گئو
دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ان لوگوں کو لوٹ مار کی جو کھلی چھوٹ
ملی ہوئی تھی اس پر قدغن لگےگی ۔ ویسے بھی کیرالا ، تملناڈو اور مغربی
بنگال کی حکومتںٓ اس کی مخالف تھیں مگر اصل مسئلہ شمالی ہند کی ریاستوں کا
ہے جہاں گئو کشی کی ممانعت ہے۔ وہاں پچھلے تین برسوں میں تقریباً ۲۰۰ بے
قصور لوگوں کو گئو رکشا کے نام پر ہجوم نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ان میں ۹۵
فیصد سے زیادہ مسلمان اور چند دلت ہیں لیکن جہاں قبائلی یا عیسائی ڈنکے کی
چوٹ پر بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں وہاں کوئی احتجاج نہیں ہوتا ۔ گوا و
شمال مشرقی ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں بھی رائے دہندگی کی ناراضگی کے ڈر
سے بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کی جرأت نہیں دکھا تیں ۔
مویشیوں کے اس گوررکھ دھندے کا سب سے بڑا ولن مسلمان ضرور ہے مگر اس کھیل
میں وہ بہت چھوٹا کھلاڑی ہے۔ مسلمان دودھ کا بیوپارشاذو نادر ہی کرتے ہیں
جبکہ ہندو بڑے پیمانے پر مویشی پالتے ہیں۔ گئو کشی پر پابندی لگی تو
مسلمانوں نے بھینسوں کی تجارت شروع کردی ۔ اس کو ذبح کرکے بیچنے اورکھانے
لگے لیکن اصل مسہل ان ہندو کسانوں کے لیے پیدا ہوگیا جوگائے بیل پالتے ہیں۔
مویشی صرف ۳ سے ۱۰ سال تک ہی کسان کےلیے مفید ہوتے ہیں اور پھر بیکار
ہوجاتے ہیں لیکن ان کی عمر طویل ہوتی ہے۔ دودھ دینا بند کردینے کے بعد بھی
مویشی چارہ کھانا نہیں بند کرتے ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہےکہ گائے کا دودھ تو
اب بھی مفیدہے مگر بیل جوکبھی گاڑی کھینچتا تھا یا کھیت جوتنے کے کام آتا
تھا ، ٹریکٹر اور موٹر گاڑی کے بعد بالکل بے مصرف ہوگیا ہے۔ گائےبیچاری یہ
نہیں جانتی اس لیے نر اور مادہ دونوں کو جنم دیتی ہے۔ پہلے کسان بے مصرف
مویشیوں کو فروخت کرکے نیا جانور خرید لیتا تھا اب حکومت نے پابندی لگا دی
تو اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا کیا کرے ؟ وہ بیچارہ تو گائے کو ماتا
مان کر بغیر کسی فائدے کے بلا ناغہ چارہ ڈال نہیں سکتا؟ اور گائے کو ماتا
مان بھی لے تو بیل کا کیا کرے؟ مجو راً وہ انہیں آوارہ چھوڑ دیتا ہے۔ یہ
لاوارث مویشی کھیتوں میں گھس کر تباہی مچاتے ہیں ۔ شمالی ہند میں آوارہ
گایوں سے اپنی فصل بچانے کے لیے کھیتوں کو کانٹے دار تار سے گھیراجا نے لگا
ہے جن سے یہ بھوکے مویشی زخمی ہوجاتے ہیں لیکن کسی گئورکشک کو ان پر رحم
نہیں آتا ۔
شمالی ہند کے لوگ اس سنگین صورتحال سےکس قدر پریشان ہیں اس کا اندازہ لگانے
کے لیے مدھیہ پردیش کے ٹیکم گڑھ ضلع میں پیش آنے والے ایک واقعہ دیکھیں ۔
ڈمبر گاوں کے موہن تیواری کو اپنے کھیت میں داخل ہونے والی شنکر اہیروار کی
گائے پر اس قدر غصہ آیا کہ اس نے ایک تیز دھار ہتھیار سے اس کوماردیا۔ اس
کے بعد گاوں کے براہمنوں کی ایک نشست میں طے کیا گیا کہ موہن تیواری اپنے
گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے گنگا میا ّ میں ڈبکی لگا نا پڑے گی اور پھر
گاوں بھر کو کھانا کھلا نا ہوگا ۔ ان لوگوں نے اہیروار کو کچھ دے دلا کر
پولس میں شکایت کرنے سے روک دیا۔ بجرنگ دل والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے
بھی اپنے بھائی بندوں کے خلاف دنگا فساد کرنے کے بجائے اہیروار کو مجبور
کیا کہ وہ شرافت سے پولس تھانے میں شکایت درج کرائے۔ پولس نے مدھیہ پردیش
گئوکشی قانون کے تحت تیواری کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی اور اس کے گنگا
سے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ کوئی بعید نہیں کہ براہمنوں نے آگے چل کر
اہیر وار کی طرح بجرنگی بھائیوں سے بھی سودے بازی کرلی ہو؟ گئو رکشا کے نام
پر تو یہی سب ہوتا ہے۔ وزیراعظم خود ان کا مجرمانہ ریکارڈ جانچنے کی تلقین
کرچکے ہیں۔
لاوارث گایوں کا معاملہ اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ مدھیہ پردیش اسمبلی کو اس
پر بحث کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس بحث میں جو تجاویز پیش کی گئی تھیں
انہیں سن کر تو بیل بھی شرماجائے۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی مرلی دھر
پاٹیدارنے ایک ایسا قانون بنانے پر زور دیا جس کے تحت غریبی کے خط سے نیچے
زندگی گزارنے والوں کو سرکاری سہولیات دیتے وقت کم ازکم ایک لاوارث گائے کو
پالنے کا پابند کیا جائے ۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ گئوماتا کے نام پر ووٹ نیتا
لے مگر اس کی پرورش کی ذمہ داری غریب جنتا کے سر تھوپ دی جائے۔ پاٹیدار نے
۴۷۲ ایکڑ زمین پر چراہ گاہ بنائی ہے جس میں ۵۰۰۰ گائیں چر سکتی ہیں مگر اسے
اندیشہ ہے کہ اس کا اعلان ہوجانے پر لوگ اپنی ۴۰ تا ۵۰ ہزار گائیں وہاں
چھوڑ جائیں گے۔
بی جے پی کے ہی رکن اسمبلی شنکر لال تیواری کاکہنا تھا کہ لاوارث مویشیوں
نے کسانوں کا جینا دوبھر کررکھاہےاس لیےان کو یونہی چھوڑ دینے کی روایت پر
دستوری پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے ۔ چھترپور کے اس ایم
ایل اےکا خیال ہے اس عفریت پر قابو نہیں پایا گیا تووہ اپنے حلقۂ انتخاب
میں داخل نہیں ہوپائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ لاوارث مویشیوں سے فصل کو
بچانے کے لیے کسان سانپ بچھو سے ڈسے جانے کے باوجود کھیتوں میں پڑے رہتے
ہیں ۔ تیواری کے ساتھی شکلا جی نے انکشاف کیا کہ آج کل کسان اپنی جان
چھڑانےکے لیے مویشیوں کو ٹرک میں ڈال کر ۱۰ تا ۲۰ کلومیٹر دور چھوڑ آتے
ہیں ۔ سوریہ کانت دکشت نےتسلیم کیا کہ ایم پی کے ۵۰ میں تقریباً ۳۵ اضلاع
اس مصیبت میں گرفتار ہیں مگر یہ احمقانہ حل پیش کیا کہ گائے کے دودھ کو
مقدس بنایا جائے یا گائے کا پیشاب اور گوبر فروخت کرکے اس کی رقم فلاح و
بہبود کے کام میں لائی جائے ۔
کانگریس کے رہنما کے پی سنگھ نے طنز کیا کہ کسان اور گائےکی ہمدردی کا دم
بھرنے والی سرکار گزشتہ ۱۴ سالوں سے صوبے کے اندر اقتدار میں ہے لیکن یہ
مسئلہ حل نہیں کرسکی ۔ ہریانہ کے وزیر زراعت اوپی دھنکر نے گئو بھکتی کو
گئو شکتی میں بدلنے کا نعرہ تو دیا مگر حکمت عملی یہ بتائی کہ مادرِ رحم
میں جنس کا پتہ لگا کرنر بچہ اسقاطِ حمل کے ذریعہ ضائع کردیا جائے۔ یہ عجیب
لوگ ہیں اپنی حقیقی بہنوں کو چوری چھپےمادر رحم میں قتل کروادیتے ہیں اور
مجازی بھائیوں کو (گئوماتا کے بیٹوں کو) ہلاک کرنے کامشورہ ببانگِ دہل دیتے
ہیں۔ یہ ہے آستھا یعنی عقیدت کی حقیقت ۔ سچ تو لکھن پال نامی کسان نے کہہ
دیا کہ گائے کی کوئی ویلیو نہیں رہی ۔ گائے کو سماج پر بوجھ بنانے کا سہرہ
موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے لیکن اب یہ صیاد اپنے ہی دام میں پھنس چکا ہے۔
ان جعلی گئو بھکتوں کا حال یہ ہے کہ گئوشالہ میں گائے کی پرورش کے لیے
یومیہ دو روپیہ نوے پیسہ دیتے ہیں جبکہ ایم پی بورڈ ۱۰ روپیہ یومیہ کا
مطالبہ کررہا ۔ اگر یہ مانگ پوری ہوگئی تو مدھیہ پردیش میں گائے کی پرورش
کے بجٹ کو ۲۵ کروڈ سے بڑھا کر ۱۰۰ کروڈ کرنا پڑے گا۔ ایک جانور کے لیے ۱۰
روپیہ بھی ناکافی ہے اسی لیے گئوشالاوں میں مویشیوں کے موت کی خبر آئے دن
موصول ہوتی رہتی ہے ۔ آل انڈیا کسان سبھا کے سکریٹری ہرپال سنگھ کے مطابق
ایک بے مصرف مویشی کو پالنے کا یومیہ خرچ ۱۵۰ روپئے ہے اور عوام تو کجا
سرکار کے پاس بھی اس کے لیے ضروری سرمایہ نہیں ہے۔ معروف ماہر معاشیات وکاس
راول کے مطابق ۲۷ کروڈ بے مصرف گائے بیلوں کی دیکھ ریکھ کے لیے دفاعی بجٹ
سے ڈیڑھ گنا دولت درکار ہے۔
راول کا یہ دعویٰ کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کرتے۔ سرکاری اعدادو شمار کے
مطابق ہر سال ہمارے ملک میں ۳ کروڈ چالیس لاکھ بیل پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کی
کم ازکم عمر ۸ سال لگائی جائے تو آبادی ۲۷ کروڈ ہوجاتی ہے۔ان کی پرورش کے
لیے سالانہ ۴ء۵ لاکھ کروڈ روپئے درکار ہیں جو وزراتِ مویشی کے بجٹ سے ۳۵
گنا زیادہ ہے۔ یہ تو غذا کا خرچ ہے ان کےسائبان کی خاطر ۱۰ لاکھ کروڈ کا
اضافی خرچ ہے۔ اس کے لیے۵ لاکھ ایکڑ زمین بھی چاہیے۔ انسانی آبادی سے
زیادہ پانی مویشیوں کے لےے مہیا کرنا پڑے گا۔ ان کے لیے چارہ درآمد کرنے
کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ اس صورتحال میں کسانوں کو گائے کے ساتھ بلا وجہ بیل
پالنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا بصورتِ دیگر وہ گائے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے
گا ۔ ایک ایسے ملک کےباشندوں کو جہاں ایک تہائی بچے غذا میں پروٹین کی قلت
کا شکار ہیں یہ گئو بھکتی کہاں لے جائیگی کوئی نہیں جانتا ؟
کانگریس کو یہ سب سوچ کر جب پیچھے ہٹنا پڑتا تھا تو بی جے پی والے اسے ووٹ
بنک کی سیاست قرار دیتے تھے۔ اس بار ایک غیر سرکاری تنظیم ' پیپلز فار
انیملس ' کے گوری ماؤلیکھی نے بی جے پی حکومت پر گوشت تاجروں کے دباؤ میں
آکر پیچھے ہٹنے کا الزام لگایا ہےاوراس دستبرداری کو عدالت میں چیلنج کرنے
کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایک گئو بھکت حکومت کا اس نازک ترین معاملے میں پسپا
ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ؟ اس کے پیچھے مندرجہ بالا ٹھوس معاشی
عوامل کارفرما ہیں۔ مودی جی نے اچھے دنوں کا وعدہ کرکے اقتدار سنبھالا تھا
لیکن ان کے اچھے دنوں کو گئو ماتا کھاگئی۔ ایک زمانے میں مودی جی نے ’سب کا
ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے پر اتر پردیش فتح کرلیا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ
گجرات میں کامیابی کے لیے وہ یوگی ادیتیہ ناتھ جیسے لوگوں کی مدد کے لیے
مجبور ہوگئے ہیں ۔اس انحطاط کی بنیادی وجہ ترقی کی راہوں کو چھوڑ کر تنزل
کی پگڈنڈی پر چل پڑنا ہے۔ انتخاب میں ۱۵ ماہ باقی ہیں اگر اس دوران وہ گئو
رکشا ، رام مندر اور مسلم دشمنی کو تین طلاق دے کر مہنگائی ، روزگار اور
خوشحالی جیسے مسائل کی جانب توجہ نہیں دیں گےتو ان کےاچھے دن پھر نہیں
آئیں گے۔ویسے اچھے دنوں کی امید پر ان کو ووٹ دینے والوں ان کی حالت پر
احسان دانش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ستم نصیب ،تیرے آستانِ رحمت پر
ملال لے کے گئے تھے مگر ملول آئے |