تاریخ کا مطالعہ کئی شعبہ جات ِ زندگی میں بہت ضروری مقام
رکھتا ہے ، گو کہ ہم تک تاریخ درست حالت میں نہیں پہنچی تاہم اس کی افادیت
میں کمی نہیں آئی ، ہر دور میں سچ اور حقیقت کو چھپانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے
استعمال ہوئے ہیں ، کچھ نے ذاتی مفاد کیلئے اس میں اپنی منشا کے مطابق اصل
بات کو لکھنے نہ دیا، بعض نے مال و دولت اور اثرورسوخ استعمال کرکے درست
معلومات کو روکا تاکہ ان کی معاشرہ میں ان کی بیک نامی برقرار رہے لیکن
قانون فطرت ہے کہ کبھی بھی ہمیشہ کیلئے سچ جھوٹ کے زیر نہیں رہتا اس کا
مقام بلند ہے اور اس نے ہر صورت ظاہر ہونا ہے ، واقعات میں گڑبڑ کی جاتی ہے
جو وقتی طور پر چند یا بہت سے افراد کو دھوکا دینے کی کوشش ہوتی ہے مگر
ہمیشہ سب کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا اور نہ مسلسل کوئی بے وقوف بن کر
زندگی گزار سکتا ہے ۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں بھی یہی صورتحال پائی
جاتی ہے کہ اشرافیہ نے وقتی طور پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ، حالات
توڑ مروڑ کر پیش کئے گئے ، یہ عمل جزو وقتی رہا ہے اور پھر حقیقت کے آشکار
ہونے پر انہیں منہ کی کھانی پڑی ، زمانے میں رسوا ہوئے ساتھ ہی اگلی نسلوں
کیلئے بھی اخلاقی پستی کا سامان ہوا۔ ہمارے پاس جو تاریخ موجود ہے اس میں
بھی نقائص ہیں البتہ کئی صاحب دانش افراد نے ان میں کمی لانے کی ٹھان رکھی
ہے تاکہ لوگ ماضی سے سبق آزمودہ ہوکر اپنی مستقبل کو بہتر بناسکیں۔ یہ بات
یاد رکھنے کی ہے کہ لوگ کچھ وقت کے بعد بہت کچھ بھول جاتے ہیں اور بعض مر
جاتے ہیں لیکن تاریخ کسی کو نہیں بھولتی بلکہ ہمشہ زندہ رہتی ہے۔
پاکستانی سیاست کے سینئرترین سیاست دان جاوید ہاشمی نے اپنی جوانی ہی سے
سیاست کا آغاز کیا ، کچھ عرصہ قبل ان کا اعلان سامنے آیا کہ وہ سیاست سے
عاجز آچکے ہیں ، اب وہ سیاست نہیں کریں۔یہ وقتی طور پر سیاست سے ریٹائر منٹ
تھی یا سیاسی بیان کہ انہوں چند قبل دوبارہ سیاست کرنے کا نہ صرف اعلان
کردیا بلکہ نواز شریف سے ان کے گھر جاملے ، میاں صاحب نے ان کا پرتپاک خیر
مقدم کیا ۔ سیاسی دنیاکا دستور ہے کہ یہاں ریٹائر منٹ نہیں ملتی الٰی یہ کہ
وہ فرد جہانِ فانی کوچ نہ کر جائے۔جاوید ہاشمی بھی اسی قسم کے حالات کا
شکار رہے ، جب تک وہ رخصت پر تھے انہوں نے سیاست پر بات چیت جاری رکھی اور
ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ۔اسلام آبا د میں اس کی تقریب ِ رونمائی ہوئی جس میں
نامور سیاست دانوں نے شرکت کی اور چند ایک نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا
ان میں سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی، وفاقی وزیر ِ ِریلوے خواجہ سعد رفیق ،
وزیر ماحولیات مشاہد اﷲ ، سینیٹر افراسیاب ، رکن قومی اسمبلی عائشہ سید و
دیگر نے خطاب کیا۔
خواجہ سعد رفیق نون لیگ کے جذباتی رہنما ہیں اور کئی بار وہ جذبا ت کی رو
میں اس قدر بہہ جاتے ہیں کہ حقائق سے پردہ اٹھتا چلا جاتا ہے ، اس تقریب
میں بھی انہوں نے اپنے جوش خطابت میں کئی انکشافات کرڈالے ۔ انہوں نے کہا
کہ ہم نے عدلیہ بحالی تحریک میں اس لئے مار نہیں کھائی تھی کہ وہ ہمارے
خلاف ہی غلط قسم کے فیصلے کرے، چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ہم نے سوچا تھا کہ
اب عدلیہ آزاد ہوگئی لیکن پھر ہامرے خلاف ہی فیصلے آنا شروع ہوگئے اور عوام
کے منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ عوام کو اس طرح کے فیصلے
قبول نہیں ، 16 وزرائے اعظم کو الزام لگا کر نکالا گیا ، ہر بار وزیر اعظم
ہی غلط ہوتا ہے کسی دوسرے سربراہ کوکیوں نہیں نکالا جاتا۔پرویز مشرف کا
احتساب کیوں نہیں ہوتا ، افتخار محمد چوہدری کے بیٹے سے تحقیقات کیوں نہیں
ہوتیں۔چند لوگ ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے ، اس لئے ہم نے عدالتی
نااہلی کے باوجود نواز شریف کو اپنا صدر بنایا، جس پر ہمیں فخر ہے۔ملک میں
آج بھی مکمل طور پر جمہوریت بحال نہیں ۔ اگر سیاست نہیں ہوگی تو ملکی سا
لمیت اور آزادی پر سمجھوتے ہوں گے ۔ ہمیں عدل پر ہونے والے فیصلوں پر
اعتماد ہے جبکہ نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کوئی
ایسانہیں جو اپنی فوج س ے محبت نہیں کرتا ہو ، اس سے پیار نہ کرتا ہو،
سیاست دان کا متبادل مل جاتا ہے لیکن فوج کا کوئی متبادل نہیں۔فوج متنازع
بننے کی بجائے سلامتی کیلئے کردار ادا کرے اور سیاست میں دلچسپی نہ لے۔
آمریت اور فوج کے پیشہ ورانہ کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ہم آئین کی
سربلندی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔سیاسی جماعتوں کا لیڈر کون ہوگا اس
کا فیصلہ ورکرز کریں گے۔ ہمیں سیاست کرنے کی آزادی دی جائے ۔ ساری زندگی لڑ
لڑ کر دیکھ لیا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ہماری اپنی بھی غلطیاں ہیں ،
سیاسی لڑائیاں عدالت میں کیوں لے کر جاتے ہیں ۔سینیٹ کے چیئرمین میاں
رضاربانی نے کہا کہ اداروں کو اپنی آئینی حدود تجاوز نہیں کرنی
چاہئیں۔اداروں میں محاذ آرائی وفاق کیلئے خطرہ ہے ۔ ریاست کو فی زمانہ
اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں ، ملک کے تمام ادارے اکٹھے ہونگے تو یہی
ہمارے لئے بہتر ہے ۔ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے لہٰذا آرٹیکل
2کہتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے ، پھر اسلام کو پاکستان کے اندر کس سے
خطرہ ہوسکتا ہے ، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وار لارڈازم جنم لینے کو
ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔سینیٹر مشاہد اﷲ نے جاوید ہاشمی کو نون
لیگ میں واپسی پر مبارکباد دی اور خیرمقدمی کلمات کا اظہار کیا۔ ہاشمی صاحب
اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ نون لیگ کا پھر سے حصہ بننے جارہے ہیں لیکن4
دسمبر کو جاتی عمرہ میں ملاقات نے ان کے ایک اور بیان کو غلط ثابت
کردیا۔تقریب سے خطاب میں زندہ تاریخ کے جاوید ہاشمی نے کہا کہ ماضی میں
سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوئے ، بھٹونے تقریر کیلئے میرا
کاندھااستعمال کیا اور پھر اقتدار میں آکر اسی کاندھے پر لاٹھیاں برسائیں،
بھٹو صاحب کی پھانسی پر ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے احتساب سب کا
نعرہ لگاتے ہوئے سوال داغ دیا کہا کہ پاناما پیپرز کے دیگر کرداروں کو کون
پوچھے گا؟ اب فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے اختیارات پارلیمان کو دے دئے جائیں
وگر نہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔
جاوید ہاشمی پاکستان کی سیاست میں تاریخ ساز شخصیت ہیں ، انہوں نے زمانہ ء
طالب علمی ہی سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی سیاست نے اسلامی جمعیت طلبہ
میں آنکھ کھولی جو اس وقت کی سب سے منظم اور طلبہ سیاست کی اہم ترین تنظیم
تھی ، وہ اپنی کارکردگی کے باعث جمعیت کی آنکھ کا تارہ بنے۔تعلیم سے فراغت
کے بعد جماعت اسلامی کی رکنیت کیلئے درخواست جمع کرائی پھر دوستوں کے کہنے
پر کہ جماعت کا سیاسی مستقبل روشن نہیں ، رکنیت کی درخواست واپس لے لی ۔
تحریک استقلال کا عروج دیکھ کر اس کا حصہ بنے۔ 23اگست 1977کو ضیاء الحق کی
کابینہ کا حصہ بنے۔ 1985میں ضیاء سے ناراض گروپ میں چلے گئے جس کی قیادت
فخر امام کررہے تھیاور پہلی بار قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ کر پالیمان
میں پہنچے۔1993میں مسلم لیگ نون کے قایم پر اس میں شامل ہوئے ۔ 2000میں
نواز شریف کی جلاوطنی پر وہ پارٹی کے صدر بنے لیکن 2002کے عام انتخابات میں
ملتان سے ہارگئے لیکن میاں صاحب کو پارٹی چلانی تھے لہٰذا انہیں لاہور
جتوایا۔ 2005میں ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اور سزا ہوئی ۔ 2008 میں ان
کی اہمیت نون لیگ میں کم ہوئی اور انہیں اپوزیشن لیڈر نہ بنایا تو وہ پارٹی
پالیسی سے ناراض ہوگئے ، تحریک انصاف میں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے
باعث شامل ہوئے لیکن خلاف ِ ضابطہ سرگرمیوں کے باعث وہاں سے نکالے گئے جبکہ
ان کا بیان تھا کہ وہ پارٹی پالیسی پر تحفظات کے باعث اس لئے نکلے کہ یہاں
فرد ِ واحد کی چلتی ہے ۔ قومی اسمبلی سے مسرعفی ہونے کے ہی اعلان کیا اب وہ
ملکی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ جیسا کہ سیاست کے قاعدہ میں ریٹائر منٹ کا
مضمون ہی نہیں ہے چنانچہ وہ گاہے بگاہے ،اپنی سوچ ، اپنے افکار اور سیاسی
تجزیوں کے باعث سیاسی منظر نامہ کا حصہ رہے۔ بات ہورہی تھی تقریب ِرونمائی
کی جس میں سعد رفیق نے کہہ ڈالا کہ وہ عدلیہ کیلئے جو کچھ کر گزرے اس میں
ان کی پارٹی کا مفاد تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ جن لوگوں نے عدلیہ بحالی کی
تحریک میں حصہ لیا ان کا یہ کردار بے لوث اور غیر مشروط و بے غرض و غایت
تھا لیکن آج معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے ایک مجرمانہ سوچ تھی ، ایک احسان تھا
جس کا بدلہ انہوں نے آنے والے وقتو ں میں لینا تھا۔جی ٹی روڈ کے راستے
لاہور واپسی پر گوجرانوالہ کے مقام پر نواز شریف ننے بھی ڈھکے چھپے لفظوں
میں عدلیہ بحالی کی تحریک اور اس مقام کا تذکرہ کرکے سمجھانا چاہا تھا کہ
جس عدلیہ پر ان کا اتنا بڑا احسان ہے وہی عدلیہ ان کے خلاف فیصلے کیسے دے
سکتی ہے۔سیاسی جھگڑے عدالتوں میں لے کر جانے والے بھی یہی ہیں ورنہ ٹی آر
اووز کی تیاری اور عدلیہ میں جانے سے قبل بہت سوں نے انہیں عدالتوں میں
جانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔آج عدلیہ معتصب اور یک طرفہ ہے لیکن
ماضی میں جھانکیں تو سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی نااہلی پر نواز شریف
نے اسے احسن فیصلہ قرار دیا تھا ا ور عدلیہ پر بھر پور اعتماد کا اظہار بھی
کیا تھا، آج اسی کی تذلیل لایعنی ہے ۔ فوج کو کون سیاست میں لاتا ہے ، تازہ
ترین فیض آباد دھرنے کے خاتمے کیہے جس میں فوج کے کردار کو متنازع بنانے
میں حکومت ہی کا ہاتھ ہے ، ماتحت ادارے سے کام لینے کی بجائے اس کو ثالث
بناکر اپنی سیاسی بصریت تو ملک بھر میں آشکار کردی لیکن ایک نہ ختم ہونے
والا اداروں کے مابین جھگڑا شروع کروادیا گیا ہے ۔ سیاست دانوں کا متبادل
کہاں دستیاب ہے ، ہمارے ملک میں تو ایسا زبانی جمع خرچ میں بھی کم نظر آتا
ہے۔اگر ایک شخص تین بار ایکہی عہدے سے نااہل ہورہا ہے تو اس کا واضح مطلب
یہ ہے کہ متبادل لا یا جائے ، نون لیگ والے پھر اسی نااہل کو کیوں سربراہ
بنارہے ہیں ۔ اس رزق سے موت اچھی کس کیلئے کہا جاتا رہا ، یہ غور طلب ہے ۔
جب قوم کا پیسہ کھانے میں پرواز میں کوتاہی آرہی ہے تو یہ بات انہیں سمجھ
کیوں نہیں آتی ؟یوسف رضاگیلانی جب وزیراعظم تھے، ایک انٹر ویو میں ان کا
کہنا تھا کہ ہم سب سے پہلے اداروں کے مابین بہتر تعلقات استوار کریں گے ،
کارکردگی بہتر بنائی جائے گی ، نواز شریف نے اس جانب کبھی بیان ہی دیا ، وہ
تو اداروں میں تصادم کی پالیسی پر ماضی کی طرح اب بھی قائم ہیں ۔سعد رفیق
صرف بیان بازی میں غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں ، عملی ادراک سے گریزاں رہتے
ہیں ۔موجودہ ملکی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم شخصی حاکمیت اور ذاتی
پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر سوچیں کہ آخر ہمیں کرنا کیا ہے جس سے ملکی
ترقی کی پرواز میں تیزی آسکے۔
عوام ماضی کی نسبت بہت باشعور ہیں لیکن ان کی دانش مندی اس مقام کی نہیں
جہاں چند مخصوص لوگ بیٹھ کر نظام ِعدل کو قائم کررہے ہیں ، یہ ہر زاویہ سے
معاملات کو پرکھنا جانتے ہیں ، دین کی تعلیمات کی روشنی میں انصاف کے اصول
تشریح کررہے ہیں۔ جمہوری نظام میں عوام کو طاقت حاصل ہے کہ وہ اپنے
اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے نمائندے چنے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ
ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے یا ملمع کاری کی گئی۔ انصاف کے ادارے آج
سے قائم نہیں یہ ایک مہذب میں معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آئے تھے
جو آج بھی تہذیب یافتہ قوموں کا حصہ ہیں۔
ہمارے لئے جاوید ہاشمی کی سیاست میں واپسی اتنی حیران کن نہیں جتنی ان کی
نون لیگ سے وابستہ ہونے کی ہے ۔ وہ ایک نظریاتی سیاست دان ہیں ، سسٹم کے
باغی کہلائے جاتے ہیں ، جمہوری نظام میں بادشاہت کیخلاف ہیں ، لیکن ان کی
ذات میں جس انجمن کا ہمیں اب پتا چلا ہے وہ اتنہائی خطرناک ہے۔ چوہدری نثار
آج بھی پارٹی کاحصہ ہیں ، اختلاف رائے رکھتے ہیں ، مدلل اور جراء ت مندی سے
اپنا موقف پارٹی سربراہ کے سامنے بیان بھی کرتے ہیں ۔ جاوید ہاشمی نے کبھی
اس طرح سے نواز شریف سے بات نہیں کی ، آج بھی وہ جس جگہ موجود ہیں ، متنازع
بن گئے ہیں ۔ نون لیگ میں بادشاہت اب اگلی پیڑ ی کے سپرد ہورہی ہے جو والد
کے نقش قدم کو چھو کر آگے بڑھے گی ، ایسے میں ان کا کردار بے معنی ہوگا۔
عزت وا حترام اپنی جگہ درست لیکن ان کے مشوروں کو کون سنے گا ۔انہوں نے آج
تک جو سیاست کی اس میں بھی چڑھتے سورج کی پوجا نظر آتی ہے اور آج وہ اس
پارٹی کا حصہ بن رہے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے اور پارٹی زندہ ہوجائے
۔ سانحہ ماڈل ٹاؤ ن کی رپورٹ منظر پر آگئی ہے ،ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں جاوید
ہاشمی یہاں وقت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ بچی کچی عزت بھی پامال نہ کربیٹھیں
۔ |