موجودہ دورمیں جبکہ مسلم اُمّہ خارجی اورداخلی سطح پران
گنت مسائل اورمشکلات سے دوچارہیں اوراسلام کے آفاقی نظام حیات کودنیاکے
سامنے غلط رنگ میں پیش کرنے کی استعماری سازشیں پوری شدت سے جاری ہیں ایسے
میں سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کوزندگی کے ہرشعبے میں رہنمابناکرہی ملت کی
شیرازہ بندی کاکٹھن مرحلہ طے کیاجاسکتاہے۔ہندوستان کے مسلمان اوراقلیت بھی
طرح طرح کے سماجی اورسیاسی مسائل سے دوچارہیں،بابری مسجدکی شہادت کوآج
25سال کاعرصہ گزرجانے کے باوجودآج تک مسلمانوں کونہ توانصاف ملاہے اورنہ ہی
ہندوستان میں ان کاجان ومال اورعزت وآبرومحفوظ ہے۔آئے دن ایک نہ دوسرے
بہانے سے مسلمانوں کوچن چن کرقتل کیاجاتاہے۔ان کادینی تشخص اورمسلم پرسنل
لاء خطرے سے دوچارہے اورخالص دینی ،مذہبی،شرعی مسائل میں حکومت اورعدلیہ
مداخلت کررہی ہے جوبے حدتشویشناک ہے۔جب سے بی جے پی کی حکومت مرکزمیں آئی
ہے مسلمان اقلیتی طبقہ کاقتل ،ماردھاڑاوربنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں
پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اورمرکزی حکومت اپنی جدوجہداورطاقت کے وحشانہ
استعمال سے اقلیتی طبقہ کوکچلنے کے لئے وہ تمام حربے استعمال کررہی ہے
جوکچھ اس کے بس میں ہے۔
اس وقت وطن عزیزکی صور حال نہایت نازک اورتشویشناک دورسے گزررہی ہے
اوراگرملک کے باشعور،سنجیدہ شہریوں نے اس پرتوجہ نہیں دی توقوی اندیشہ ہے
کہ ہندوستان کی جمہوریت کی بنیادیں ہلادی جائیں گی۔ہماراملک ہندوستان ایک
ایساملک ہے جہاں ہزاروں سال سے مختلف ملل ومذاہب اورفرقے کے لوگ رہتے آئے
ہیں مگرآج مٹھی بھرفرقہ پرست وشدت پسندعناصرطبقہ اس ملک کے مشترکہ
کلچروتہذیب کوبربادکردیناچاہتے ہیں۔ابھی محض چنددنوں کے
اندر''لوجہاد،گؤرکشا''وغیرہ کے نام پرکم ازکم تین ایسے خطرناک واقعات ہوئے
جنہوں نے حساس ہندوستانیوں کوہلاکررکھ دیاہے۔راجستھان صوبہ کے ''ادے پورکے
راج سمند''میں ایک شخص(یعنی شمبھولال نے) جس طرح وحشانہ طورسے بنگال کے ایک
مسلمان مزدور ''افرازالاسلام''کوقتل کرتاہے اورپھراُسے پٹرول چھڑک
کرجلادیتاہے اورباقاعدہ اس کاویڈیوں بناتاہے اورپورے ملک کے کروڑوں شہریوں
کونفرت ودشمنی کاپیغام دیناچاہتاہے یہ واقعہ فی نفسہ اتنادل دوزہے کہ کوئی
شخص اسے دیکھنے اورسننے کی بھی ہمت نہیں کرسکتا۔انسان یہ سوچ کربھی کانپ
اٹھے کہ کوئی انسان اتناوحشی بھی ہوسکتاہے اوراس قدرحیوانیت
پراترسکتاہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ 'اہنساپرم دھرم'والی اس سرزمین پرایسے
واقعات ہورہے ہیں جن سے بڑے بڑے ظالموں کاسربھی شرم سے جھک جائے۔
محمدافرازل کابہمانہ قتل کرنے کے بعدمجرم نے ویڈیوبناکرمسلما نوں کومخاطب
کرتے ہوئے کھلی دھمکی دی ہے،اس سے یہ بات صاف ظاہرہوتی ہے کہ یہ انفرادی
جرم نہیں ہے بلکہ اس قتل کے پیچھے کئی اورلوگوں کایاکسی شدت پسندتنظیم
کاہاتھ ہوسکتاہے۔افرازل کے قتل کی ویڈیوبناکراورپھربعدمیں اُسے سوشیل
میڈیامیں جاری کرنادہشت گردانہ سرگرمی کے مترادف ہے اورایک طرف سے انتظامیہ
کے لئے کھلاچیلنج بھی ہے۔قتل کے دوران بنائے گئے ویڈیوں میں قاتل نے فرقہ
وارانہ فسادبھڑکانے کی کوشش کی ہے اورملک کے سبھی مسلمانوں کواس طرح مرنے
کے لئے تیاررہنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اسی طرح راجستھان ہی کے'' الور''میں
پھرایک مسلمان کوگائے اسمگلنگ کے نام پرماردیاگیا،نفرت کی یہ آگ اب بہ
تدریج بہارکی پُرامن ریاست تک بھی پہنچ رہی ہے اوردہلی سے بھاگلپورآنے والی
ٹرین میں ایک حافظ قرآن کے ساتھ بہارمیں دست درازی کی گئی،گالی گلوچ
کیاگیااوراُسے مارنے کی کی بھی پوری کوشش کی گئی،ابھی دودن قبل علی گڑھ میں
ایک مسجدکے امام کوباہرسے ان کے حجرے کے دروازے کوبندکرکے پٹرول کھڑکیوں سے
انڈیل کر انہیں جلانے کی ناپاک کوشش کی گئی مگربروقت لوگوں کے پہنچ جانے کی
وجہ سے امام صاحب کی جان بچ گئی،بستراورچندکتابیں پھربھی جل
کرخاکسترہوگئی۔کبھی ''اخلاق'' کوماردیاجاتاہے توکبھی عیدسے چندروز
قبل''حافظ جنید''کوتیزدھاروالے چاقوسے اس کے جسم کوچھلنی چھلنی کردیاجاتاہے۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک قاتل کے گناہ عظیم پرلیپاپوتی کی سعی لاحاصل
کرتے ہوئے اب یہ کہاجارہاہے کہ شمبھولال گزشتہ دوتین برسوں سے دھرم گروؤں
کی سیاسی منافرت اورمشتعل کردینے والی تقریریں سنتارہتاتھااورنشہ کی حالت
میں اس نے ''افرازالاسلام''کوقتل کیاہے۔مگرسچائی یہ ہے کہ یہ واقعہ''
لوجہاد''کے نام پرمسلمانوں کے خلاف نفرت کی بدترین وگھناؤنی مثال ہے اورملک
میں جوماحول بنادیاگیاہے اس کی عملی شکل ہے۔وحشت وبربریت کایہ شرمناک کام
نشہ میں دھت کسی سرپھرے نے نہیں کیاہے بلکہ یہ واقعہ اس زہریلے نظریہ کی
پیداوارہے جوآج ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلایاجارہاہے،ملک کے نوجوانوں
میں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف نفرت بوئی جارہی ہے اوراُنہیں پوری طرح بدنام
کرکے ان کی زندگی کوجہنم بنایاجارہاہے۔کہیں انہیں دہشت گردی کے الزام میں
پھنسایاجارہاہے توکہیں ملک دشمن کاروائیوں کامرتکب بتایاجارہاہے،کہیں ان کے
تارپاکستان سے جوڑے جارہے ہیں۔'لوجہاد'کاہواکھڑاکرکے فرقہ وارانہ ہم
آہنگی،رواداری اورمحبتوں میں نفرت اوردشمنی کے بیج بوئے جارہے ہیں،ایک منظم
طریقے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی جارہی ہے اوراسی نفرت کانتیجہ
ہے کہ جس نے راج سمندمیں بے قصور50سالہ مسلمان مزدورکواپناشکاربنایا۔
اگرصورتحال کاجائزہ لیاجائے توشمبھولال کی اس حرکت کی ذمہ دارراجستھان کی
بی جے پی قیادت والی وسندھراراجے اورمرکزکی نریندرمودی حکومت ہے کہ جو ملک
میں روزافزوں فرقہ وارانہ منافرت کوہوادے رہی ہے۔ملک کے نوجوانوں
کوتشدد،عدم برداشت اورشرپسندی کی راہ دکھارہی ہے۔کچھ دنوں قبل گلابی شہرجے
پورمیں لگنے والے میلہ میں ہندونوجوانوں کو'لوجہاد'کے خلاف بیدارکرنے کے
لئے باقاعدہ راجستھان کی وسندھراراجے حکومت نے مہم چلائی۔ریاستی حکومت کے
اشتراک سے اس میلہ میں وی ایچ پی اوربجرنگ دل کے کارکنوں نے ہندونوجوان
لڑکوں اورلڑکیوں میں' لوجہاد'پرلکھی گئی کتاب بانٹ کران میں بیداری لانے
کااپنا'سرکاری'اورمذہبی فریضہ انجام دیاتھا۔
ہم اس وحشیانہ قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ریاست کی وزیراعلیٰ
اورملک کے وزیراعظم وَوزیرداخلہ سے سوال کرتے ہیں کہ راجستھان میں فرقہ
پرست عناصرکی طرف سے مسلمانوں پراس طرح کے لگاتارحملے ہوتے آرہے
ہیں۔وزیراعلیٰ ووزیرداخلہ کی لاپرواہی اوراپنے فرض منصبی کے تئیں غیرذمہ
دارانہ طریقہ کااظہار اورخاطیوں کے خلاف مناسب کاروائی نہ کئے جانے کی وجہ
سے فرقہ پرست وشدت پسند عناصرعلی الاعلان قتل جیسے سنگین ترین جرم کاارتکاب
کررہے ہیں ۔افرازالاسلام وغیرہ کوصرف مسلمان ہونے کے جرم میں قتل
کیاگیا۔وزیراعلیٰ وَوزیرداخلہ کی لاپرواہی سے قاتلوں کی حوصلہ افزائی ہوتی
رہی ہے۔کیاایسے غیرذمہ دارلوگوں کے ہاتھ میں ریاست کی لاء
اینڈآرڈربرقراررکھنے کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے؟۔ایسے غیرذمہ داروزیروں
کوفوری طورپراستعفیٰ دے دیناچاہئے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت ہندسے کہ قتل
کے اس مقدمہ کو''Rarest of Rare Case'' کے طورپرتسلیم کرے کیوں کہ قاتل نے
سوشیل میڈیامیں علی الاعلان قتل کرتے ہوئے ویڈیوجاری کی ہے۔لہٰذا''قاتل
کوپھانسی ''کی سزادی جائے اورریاست کی وزیراعلیٰ کوفوری طورپرعہدے سے
ہٹایاجائے اورریاست کے لاء اینڈآرڈرکوبحال کیاجائے۔مقتول محمدافرازل کے اہل
خانہ کوکم ازکم 50لاکھ روپے کامعاوضہ دیاجائے۔قاتل کے ساتھیوں کوجوملک میں
نفرت بھراماحول اوردہشت پھیلارہے ہیں ان کواوران کے پیچھے جوبھی تنظیمیں
شامل ہیں ان کی پہچان کرکے ان کے خلاف کڑی سے کڑی قانونی کاروائی کی
جائے۔سوشیل میڈیاکاغلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین بناکراُنہیں
سخت سزادی جائے تاکہ کوئی اوراس طرح کی مذموم حرکت کرنے کی ہمت وجرأت نہ
کرسکے۔
مذکورہ واقعات کے حوالے سے پورے ملک کے شہریوں سے بھی ایک سوال ہے کہ
آخرہندوستان کی اجتماعی ذہنیت کس طرف جارہی ہے اورہم اس ملک کوکس سمت میں
لے جاناچاہ رہے ہیں؟یقینایہ بات سوفیصددرست ہے کہ ملک کی یہ بدترین حالات
ان مفادپرست سیاست دانوں اورمیڈیاچینلوں کی وجہ سے پیداہوئے ہیں جواپنے
اپنے مفادحاصل کرنے کے لئے رات ودِن مذہبی منافرت پرمبنی بیانات دیتے
اوراُنہیں نشرکرتے رہتے ہیں۔اگرہندوستان کی جمہوری روح کوبرقراررکھناہے
اورملک کی حقیقی ترقی وخوشحالی کے سمت میں آگے لے جاناہے تواس قسم کی نفرت
انگیزحرکتوں سے بازآناہوگاورنہ ہمارے ملک کوبربادہونے سے کوئی طاقت نہیں
بچاسکتی۔گجرات کے انتخابی مہم میں بی جے پی کی جانب سے جس طرح ترقی کے
ایشوزکونظراندازکرکے فرقہ وارانہ بیانات دیے گئے بلکہ یوپی کے وزیراعلیٰ
یوگی آدتیہ ناتھ اورانوراگ ٹھاکروغیرہ نے جس طرح کھل کربابری مسجدکی شہادت
کے واقعے کو فخریہ طورپربیان کیااورہندوؤں کوورغلانے کی مذموم کوشش کی اس
سے یہ واضح ہوگیاہے کہ بی جے پی کے پاس عوام کی فلاح وبہوداورترقی کے لئے
کوئی ایجنڈہ نہیں ہے اوروہ محض مذہبی منافرت کوبنیادبناکرانتخابی میدان
کوسرکرناچاہتی ہے۔ |