مسلمانوں کا بیت المقدس میں قبلہ اول وہ مقام ہے جہاں
مسجدِحرام سے مسجدِ اقصیٰ(دور دراز کی مسجد)کا سفر رحمۃََ للعالمین نے
معراج کے حوالے سے طے فرماکر تشریف لے گئے تھے اور جہاں پر میرے نبی حضرت
محمد ﷺنے کائنات کے تمام انبیائے کرام کی نمازمیں امامت فرمائی تھی۔ اُس
وقت سے یہ مقام اہلِ ایمان کے لئے انتہائی مقدس اور اہم ہے۔یہ بات بھی اہم
ہے کہ بیت المقدس17ماہ تک اہلِ ایمان ،مسلمانوں کاقبلہ رُخ رہا ۔جس کی بنا
پر ساری دنیا کے مسلمانوں کی قبلہ اول سے دلی وابستگی ہے۔بیت ا لمقدس سے
متعلق یہ بات یہ بات بھی ساری دنیا کے علم میں ہے کہ عیسائیت کے لیئے یہ
مقام بہت اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش
اسی شہر میں ہوئی تھی اور انکو ،عیسائی عقدے کے مطابق یہیں پر صلیب پر
چڑھایا گیا تھا، اور مسلمانوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ
تبارک تعالیٰ نے یہیں سے زندہ آسمانوں پر اُٹھا لیا تھا۔ یہودیوں کے لئے یہ
مقام اس وجہ سے اہم ہے کہ یہیں پرحضرت سیلمان ؑ نے یہودی معبد ہیکلِ
سلیمانی کی تعمیرفرمائی تھی۔ اس طرح دنیا کے تینوں اہم مذاہب کے لوگوں کے
لئے یروشلم شہر میں بیت المقدس بے حد اہمیت کا حامل مقام ہے۔
یہودی سلطنت کی پہلی تباہی ایرانی باد شاہ بختِ نصر کے ہاتھوں 598 ق م میں
ہوئی جس نے ہیکلِ سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجاکر تباہ کر کے اس کو صفحہِ
ہستی سے ہی مٹا دیا تھا اور بچے کھچے یہودیوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا
تھا ۔اس تباہی کے وقت سے تابوتِ سکینہ ایسا غائب ہوا جس کا دنیا میں کہیں
پتہ نہیں کہ وہ کہا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ شام کے ایک گرجا گھر کی تہہ
میں چھپا ہے کوئی کہتا ہے کہ یہ ملکہ برطانیہ کے تخت کے نیچے چھپایا گیا
ہے۔یہودی اس کی تلاش میں ساری دنیا میں مارے مارے پھرتے رہے ہیں مگر آج تک
اسکا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
فلسطین کے علاقے یروشلم پر یہودی اقتدار ایک عرصہ قائم رہا۔حضرت ابراہیم
علہ السلام کی اگلی نسل میں حضرت سیلمان علیہ السلام نے اپنی تخت نشینی کے
بعد منتشر یہودی قوم کو متحد کیا اور1012 (قبلِ مسیح)میں یروشلم شہر کے
ایک بلند مقام پر ایک معبد کی تعمیراپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کی
خواہش کے مطابق شروع کرائی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پر حضرت داؤد ؑ نے ایک
ہیکل(یہودی معبد) کی تعمیر کی پیشنگوئی فرمائی تھی۔ اس ہیکل کی تعمیر میں
دو لاکھ افراد نے سات سا ل کی محنتِ شاقہ سے تعمیر مکمل کی۔ہیکلِ سلیمانی
کی لمبائی 30گز، چوڑائی 10 گز 15 گز تھی اس عمارت کے مقدس ترین مقام
پرتابوتِ سکینہ رکھا گیا(تابوت سکینہ ایک مضبوط صندوق ہے جس میں حضرت آدم ؑ
سے لے کرحضرت موسیٰ ؑ اور دیگر انبیا ؑ کے تبرکات محفوظ ہیں جس میں وہ
تختیاں بھی موجود ہیں جن پر حضرت موسیٰ ؑ پر اتارا جانے ولا کلام الہٰی
تحریر ہے میں) ہیکل اپنے فنِ تعمیر کے لحاط سے ایک شاہکار عمارت تھی۔ حضرت
سلیمان ؑ کا اقتدار فلسطین کے اس علاقے پر قریباََ33سال رہا۔ حضرت سلیمان
کی وفات کے بعد یہودیوں کاشیرازہ بکھرنے لگا تھا۔اب یہودیوں کی تباہی کے
ساتھ پریشانیوں کا دور بھی شروع ہوچکا تھا۔اسرائیلی قوم مذہب سے برگشتہ ہو
گئی تھی اوریہاں کے حکمران ’’حراقیاہ ‘‘نے فلسطین میں قائم یہودی سلطنت کو
بھی دو حصوں میں تقسیم کردیاتھا۔
شام کے اس علاقے کی جانب رسولِ کریم ﷺ نے اپنی دنیا سے رخصتی سے قبل 629 ء
میں جنگِ موتہ کی تیاریوں کا حکم دیدیا تھا۔ابتدائی معرکوں میں حضرت زید بن
حارث کی شہادت کی بعد رسولِ کریم ﷺ نے زیدؓ کے بیٹے حضرت اثامہ بن زید
کوسپہ سالارِ لشکر مقرر فرمایا اسی دورا ن آپ ﷺ نے 632 ء میں ا س دنیا سے
پردہ فرمالیا۔تو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت اسامہ بن زیدکوہی کم
عمری میں اور جید صحابہ کی مخالفت کے باوجودسالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور
وہ کامیاب و کامران واپس لوٹے۔یمن و اردن کے اکثر علاقے تو اسلامی قلمرو کا
حصہ بن چکے تھے ۔مگر یروشلم ابھی فتح نہ ہواتھا۔کہ حضرت ابو بکر صدیق
خلیفہِ راشد(اول)کے انتقال کے بعد حضرت عمرِ فاروقؓکے دورِ خلافت میں اردن
کے دارالحکومت یروشلم حضرت خالد بن ولید جن کو ربِ کائنات کی جانب سے سیف
اللہ کا خطاب عطاء ہوا تھا کے ہاتھوں فتح ہوا۔حضرت عمرِ فاروقؓنے 14 ھ
بمطابق 636 ء کو یہاں تشریف لاکر نبیِ کریم ﷺ کی سفرِمعراج کی منزل تلاش
کی اس مقام کو خود اپنے ہاتھوں سے صاف کیا اور یہاں پر ایک عظیم الشان مسجد
تعمیر کرائی اور بلال حبشی کو کہا اذان دیں اور خود نماز پڑھائی۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں مسجد کو وسعت دی گئی پھر 746 ء میں ایک
شدید ز لزلے نے مسجد کو منہدم کر دیا۔تو عباسی خلیفہ المنصور کے دور میں
754 ء میں مسجدِ اقصیٰ دوبار ہ تعمیر کی گئی۔ اس کے بعد 780 ء میں خلیفہ
المہدی نے مسجد کو دوبارہ تعمیر کرایا۔1033 ء میں ایک مرتبہ پھر مسجدِ
اقصیٰ زلزلے کی نظر ہوگئی۔جس کی تعمیر فاطمی خلیفہ علی النظیر نے کرائی۔جو
آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے نتیجے میں 1099
ء میں یروشلم پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے مسجد کے دیگر حصوں کو محل کے طور
پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔اور گنبد کے حصے کو کلیساء کا درجہ دیدیا۔لیکن
88 سال بعد ہی1187 ء میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی قوتوں کو شکست دے کر
یروشلم کو فتح کرنے کے بعد مسجدِ اقصیٰ کی نئے سرے سے تعمیر نو کے ساتھ
تزئن و آرائش کی۔جس کے بعد عثمانی دور میں صلاح الدین الملوک کے بعد 400
سال تک خلافتِ عثمانیہ کا حصہ رہی۔ترکی کی عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد سے
یروشلم(بیت المقدس ) پر اردن کی حکومت کا قتدار 1967تک رہا۔
گنبدِصخراکی تعمیر اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے 68 ھ بمطابق 688 ء
شروع کی جو چار سال کی مدت میں مکمل ہواتھا۔ مسجدِ اقصیٰ کے اطراف 1600میٹر
پتھر کی دیوار ہے۔اس کے اندر 9دروازے ہیں۔جن کے نام بابِ رحمت،بابِ حطہ،
بابِ فیصل، بابِ غواغہ، بابِ ناظر، بابِ حدید،بابِ قطانبین،بابِ سلسلہ،
بابِ مغاربہ۔تاریخی اعتبارسے یروشلم و بیت المقدس ہر تینوں اقوام کے لئے
اہیمت کا حامل علاقہ ہے ۔مگر اسرئیل نے اس شہر پر 1967 کی جنگ کے نتیجے میں
غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔جس کو امریکہ و برطانیہ اور یورپی اقوام کی حمایت
بھی حاصل رہی ہے۔اس ضمن میں اقوام متحدہ کا کردار نہایت گھناؤنا رہا
ہے۔اسرئیلی فوجیں بار بار نہتے فلسطینیوں پر ہر قسم کے ہتھیار آزمتا رہا
ہے۔ مگر مجال ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردں کے کان پر جوں بھی
رینگتی ہو! |