امریکی صدر ٹرمپ کا پہلا سعودی عرب کا دورہ ، جس میں
پروٹو کول اور نوازشات کی بارش ہوئی، تحائف کی ایک لمبی فہرست سامنے آئی
اور سعودیہ نے جتنے بڑے حجم کیساتھ امریکہ سے اسلحہ خریدنے کا اعلان کیا،
اس سے یہی نظر آرہا تھا کہ شاہ سلمان اور اس کا جانشین بیٹا امریکی صدر کو
اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور شہزادہ محمد بن سلمان اپنے
آقائوں کو اپنے بادشاہ بننے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیاب
ہوگئے ہیں لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ امریکہ ان کے ساتھ ایسا کھیل کھیلے
گا کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ۔ یہی وجہ تھی کہ صدر ٹرمپ
نے بڑے اطمینان سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر
دیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب سعودی عرب ہماری مخالفت نہیں کرے گا ۔
ادھر پاکستان کی اس قدر الجھی حکومت سے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے اور اعلان پر
اس کے روایتی سفارتی بیان کی کتنی اہمیت سمجھی جائے گی، اس کے باوجود ہمارے
سفارتی محاذ سے کوئی بریک تھرو بیان سامنے نہیں آیا، جس سے مظلوم فلسطینیوں
کی حمایت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ بہرحال پاکستانی قوم حسب دستور اپنا فرض
اولین سمجھتے ہوئے میدان میں اتری ہے اور مختلف جماعتوں نے اس فیصلے کیخلاف
اپنے غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے، یہ سلسلہ احتجاج چل پڑا ہے، گویا یوں
کہا جا سکتا ہے کہ احتجاج کا ایک نیا رخ سامنے آگیا ہے، جس میں حکمرانوں کی
بجائے عالمی طاقتیں اور امت مسلمہ کے ادارے ہدف تنقید ہونگے۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ فلسطین امت مسلمہ کا دل ہے، جہاں قبلہ اول قبة الصخرا ہے، جس سے
امت مسلمہ کو بے حد عقیدت ہے اور صیہونیوں سے اس بات پر صدیوں سے جھگڑا چلا
آرہا ہے، وہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ امت مسلمہ کیلئے یہ کسی بھی صورت
قبول نہیں، ایک عرصہ سے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی
ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضے کئے جا رہے ہیں، انہیں بے دخل کرکے یہودی
بستیاں بسائی جا رہیں اور انہیں ان کے انسانی و شہری حقوق سے بھی محروم کر
رکھا ہے، یہ سب کچھ روز کا معمول ہے، جسے مہذب دنیا دیکھتی ہے اور اس پہ
مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام
متحدہ کو بھی اس حوالے بے بسی کا سامنا ہے، اس لئے کہ صیہونیوں کے تمام
اقدامات پر شیطان بزرگ امریکہ مہر لگاتا ہے، امریکہ اس وقت پوری دنیا کا
چودھری بنا ہوا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے لگام دینے کا وقت آن پہنچا
ہے، ٹرمپ کی شکل میں امریکہ نے اپنے لئے جس مصیبت کو دعوت دی ہے، اس کے
نتائج جلد دنیا کو معلوم ہو جائیں گے۔
ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا، امت مسلمہ کو
کسی بھی صورت قبول نہیں ہے، اس کا فیصلہ اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل نے
بھی نہیں کیا، پھر کیسے ایسا ہوسکتا ہے، نتیجہ کے طور ہم دیکھیں گے کہ خون
خرابہ ہوگا، پوری دنیا میں اضطراب اور پریشانی کی کیفیت تو پیدا ہوچکی ہے۔
فلسطین کے اندر بھی ایک نیا انتفاضہ جنم لے رہا ہے، اب ہر سو خون خرابہ
ہوگا، بے گناہوں کے لاشے گریں گے، لوگ بے خانماں و برباد ہونگے، جو پہلے ہی
تباہ حال ہیں ان پر مزید قیامت آئے گی، امت مسلمہ بالخصوص عرب ممالک میں
ایسی کوئی قوت نہیں جو ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف سامنے آکر اسے باز رکھے ۔
آل سعود میں اس وقت اقتدار کی بندر بانٹ کا کھیل عروج پہ ہے، قطر اور
سعودیہ کے کشیدہ تعلقات سب کے سامنے ہیں، سعودی افواج کی یمن پر جارحیت اب
تک جاری ہے، نجانے وہ اکتالیس رکنی اتحاد جس کی سربراہی ہمارے سپہ سالار کے
سپرد کی گئی تھی، اس کا کردار کیا ہے اور وہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے۔
گذشتہ دنوں اس کا اجلاس بھی بلایا گیا تھا، جس میں ہمارے وزیر دفاع بھی
شریک ہوئے تھے۔ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ اس کے حکمران اس کے عوام کے
خلاف عالمی طاقتوں کے زیر اثر فیصلے کرتے ہیں اور عوامی خواہشات کو پس پشت
ڈال دیتے ہیں، آج امت کو یہی مسئلہ در پیش ہے، اگر امت مسلمہ کے کچھ ممالک
جن میں ترکی، ایران، پاکستان، قطر، سعودیہ لبنان وغیرہ ایک صفحے پر جمع ہو
جائیں تو فلسطینیوں کی بھرپور مدد کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں فلسطین کی تحریک
مزاحمت کو اسرائیل کے خلاف لڑنے کیلئے صرف اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے
کھلی مدد بھیجی گئی، جس کا اعتراف مزاحمتی قیادت نے بھی کیا، اب بھی اگر
کسی سے امید اور توقع ہے تو وہ اسلامی جمہوری ایران ہے یا پھر حزب اللہ
لبنان ہے ، جس کا اسرائیل کےبارے کھلا موقف ہے، جس سے وہ کسی بھی صورت
پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ |