دسمبر۲۰۱۲ کے دھرنے سے ایک دفعہ پورا پاکستان چونک
گیا تھا کیونکہ اس دھرنے سے قوم نے فدائین کا ایک ایسا لشکرِ جرار دیکھا
تھا جو اپنے قائد کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کیلئے تیار تھا ۔سردیوں کی
یخ بستہ شاموں میں کھلے آسمان کے نیچے کئی دنوں تک پوری دلجعی کے ساتھ
دھرنا دینا واقعی ایک حیرت انگیز منظر تھا اور پوری دنیا دھرنے دینے والوں
کے عزم سے متاثر ہو ئی تھی۔سوال یہ نہیں تھا کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے
مقاصد کیا تھے بلکہ اہم یہ تھا کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مر یدین،مداح
اور پیرو کار اپنے قائد کے ایک اشارے پر ہر قسم کی آزمائش کیلئے تیار تھے۔
یخ بستہ شام میں موسلا دھار بارش نے دھرنے والوں کی ثابت قدمی کو نیا افق
عطا کیا تھا۔میری آنکھیں خود اس دھرنے کو دیکھ کر حیرت میں ڈوبی ہوئی
تھیں۔اس دھرنے میں پی پی پی کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال ہوئی وہ
انتہائی نا شائستہ اور بازاری تھی۔پی پی پی کو کھلے عام گالیاں دی گئیں اور
اس کی قیادت کی جی بھر کر کوسا گیا۔کوئی ایسا الزام نہیں تھا جو کہ پی پی
پی کی قیادت پر نہ لگایا گیا ہو۔ایک طرف الزامات کی لمبی فہرست تھی اور
دوسری طرف پی پی پی تنِ تنہا کھڑی تھی۔فوج اس سارے تماشے میں بالکل خاموش
تھی جس سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مزید شہہ مل رہی تھی ۔ وہ پوری طاقت
سے دھاڑ رہے تھے اور کوئی ا نھیں روکنے والا نہیں تھا ۔پی پی پی شدید دباؤ
میں تھی اور اس مخمصے سے جان چھڑانا چاہتی تھی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں
آ رہا تھا ۔مسلم لیگ (ن) بھی پی پی پی کی بے بسی پر بغلیں بجا رہی تھی
کیونکہ وہ رسوا شدہ پی پی پی کے ملبے سے اپنی فتح کی عمارت تعمیر کرنا
چاہتی تھی۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم راجہ اشرف پرویز کو
جس طرح رگیدا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ پی پی پی کی جی بھر کر مٹی پلید کی
گئی جس کا خمیازہ پی پی پی کو مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات میں بھگتنا پڑا ۔اس
دھرنے کا ری پلے ایک دفعہ پھر ۱گست ۲۰۱۴ میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت
کے خلاف دہرایا گیا لیکن بات پھر بھی نہ بن سکی کیونکہ پی پی پی اس دھرنے
کو جمہوریت کے خلاف ایک سازش قرار دے کر اس کے خلاف ڈٹ گئی تھی ۔اپوزیشن
لیڈر خورشید شاہ کے اسمبلی کے فلور پر شعلہ بار خطاب نے سارا بنا بنا یا
کھیل بگاڑ دیا تھا جبکہ جاوید ہاشمی کی پی ٹی آئی سے بغاوت نے رہی سہی کسر
نکال دی تھی اور یوں یہ دھرنا اپنی افادیت کھو بیٹھا تھا جس سے عمران خان
اور علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حکومتی تبدیلی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے
رہ گئے تھے کیونکہ پارلیمنٹ کی دوسری تمام سیاسی جماعتوں نے اس دھرنے کو
ملک و قوم اور جمہوریت کے خلاف ایک سازش کہہ کر رد کر دیا تھا۔دسمبر ۲۰۱۲
کا دھرنا پی پی پی حکومت کے خلاف دیا گیا تھا جبکہ ۲۰۱۴ کا دھرنا مسلم لیگ
(ن) کی حکومت کے خلاف تھا لیکن ان دونوں میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ پی پی پی
نے ان دونوں دھرنوں کوجمہوریت کے خلاف خود کش حملہ کہہ کر رد کر دیا تھا
اور پارلیمنٹ کی توقیر کے خلاف ایک سازش قرار دیا تھا ۔پی پی پی کے جرات
مندانہ موقف کی وجہ سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات انتہائی متنازعہ بن
کر رہ گئی تھی لہذا وہ اپنے مستقل مستقر کینیڈا چلے گئے اور یوں دھرنوں کے
عفریت سے قوم کی جان چھوٹی ۔،۔
آج کل مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں لہذا علامہ
ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک دفعہ پھر زحمت دی گئی ہے لہذا وہ مکمل حرکت میں آ
چکے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جون ۲۰۱۴ میں ماڈل
ٹاؤن کا سانحہ اس کی بنیاد بن رہا ہے۔جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ نے علامہ
ڈاکٹر طاہرالقادری کو متحرک کر دیا ہے لہذا وہ لنگوٹ کس کرمیدان میں اترنے
کیلئے بے تاب ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے مریدین کا ایک لشکر َ جرار ہے لہذا وہ
اپنی طاقت کو ایک دفعہ پھر آزمانا چاہتے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس
دفعہ پی پی پی علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمرکا ب بننے کیلئے اپنے جمہوری
تشخص کو داؤ پر لگا رہی ہے ۔وہ پی پی پی جس کے خلاف علامہ ڈاکٹر
طاہرالقادری نے ۲۰۱۲ میں طوفان بپا کیا ہوا تھا اور اسے دنیا کی کرپٹ ترین
حکومت قرار دیا تھا وہ آج آصف علی زرداری کے اتحادی بن کر سامنے آ رہے ہیں
۔سچ تو یہ ہے کہ پی پی پی کے خلاف دسمبر ۲۰۱۲ میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری
کا دھرنا دونوں جماعتوں کی فکری دوریوں کی نشاندہی کر رہا تھا اور اس بات
کا بر ملا اعلان تھا کہ ان دونوں جماعتوں کی سوچ میں سب سے بڑا فرق جمہوری
رویے ہیں ۔ پی پی پی کی ساری جدو جہد جمہوریت کے قیام اور اور آئین کی بالا
دستی سے عبارت ہے جبکہ طاہرا لقادری ریاست بچاؤ یا آئین بچاؤ کے پر چارک
ہیں حالانکہ آئین کو بچانا در حقیقت ریاست کو بچانے کے مترادف ہو تا ہے ۔جو
قومیں آئین و قانون پر عمل پیرا ہوتی ہیں وہ ہمیشہ ترقی کے زینے طے کرتی
ہیں ۔پاکستان کی پسماندگی اور غربت کی ایک وجہ آئین و قانون سے انحراف
ہے۔یہاں پر طالع آزماؤں کی طالع آّزمائیوں نے اس کا سارا تشخص اور حلیہ
بگاڑ کر رکھ دیاہو اہے اورستم بالائے ستم کہ یہ کھیل آج بھی پوری شدت سے
جاری ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری انہی طالع آزما ؤں کے منہ زور گھوڑے ہیں
۔وہ اچانک نمو دار ہوتے ہیں اور پورے ملک میں سنسنی پھیلا کر کچھ دنوں کے
بعد عازمِ کینیڈا ہو جاتے ہیں۔ان کا سارا زورِ خطابت اپنے مخالفین کو کوسنے
اور ان کی ہجو کرنے میں صرف ہوتا ہے۔وہ اپنے خطاب میں آصف علی زرداری،شریف
برادران اور دوسرے قد آور قائدین کوجس طرح رسوا کرتے رہے ہیں اس پر کسی کو
کوئی استثنی نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰۱۲ میں پی پی پی پر لگائے گئے
الزامات غلط تھے یا علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کسی کے ہاتھ میں کھلونا بنے
ہوئے تھے ؟کیا پی پی پی پنجاب میں اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اسے آج علامہ
ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے متشدد سیاستدان کی ضرورت پیش آ گئی ہے؟ کیا پی پی
پی جیسی لبرل جماعت علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے سخت گیر موقف رکھنے والے
سیاستدان کے ساتھ چل سکتی ہے؟ کیا پی پی پی کی اپنی شناخت بدلنے کا وقت آ
گیا ہے؟ کیا پی پی پی کوایک ایسے سیاستدان سے جو کہ اپنی متلون مزاجی کی
وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے سیاسی اتحاد کرنا چائیے؟ کیا یہ غیر فطری
اتحاد پی پی پی کی سیاسی موت ثابت ہوسکتا ہے ؟
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہدف نہ تو انتخابات ہو تے ہیں اور نہ ہی
جمہوریت سے انھیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے بلکہ انھیں جو ٹاسک دیا جاتا ہے وہ
اس کو دیانت داری سے ادا کرنے میں کسی کوتاہی اور بخل سے کام نہیں
لیتے۔پورے ملک میں ان کا کبھی کوئی نمائندہ منتخب نہیں ہوتا اور نہ ہی
انھوں نے کبھی جمہوری راہ اپنانے کی کوشش کی ہے ۔انھوں نے اپنا ایک علیحدہ
جتھہ بنا رکھا ہے جسے وہ بوقتِ ضرورت دھرنوں کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ لبیک
یا رسول اﷲ ﷺ کے حالیہ دھرنے کی کامیابی نے انھیں حریص بنا دیا ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے لبیک یا رسول اﷲ ﷺ سے
بڑے تھے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ لبیک یا رسول ا ﷲﷺ کا ایشو ہرایشو سے
زیادہ حساس اور توانا تھا جس پر پوری قوم کا اجماع ہے لہذا ان کی کامیابی
کو تعداد کے ترازو میں تو لنے کی بجائے ایمان کے ترازو میں تو لنا چائیے۔
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ایسا کوئی ایشو نہیں ہے جس پر پوری قوم ان
کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کیلئے بیتاب ہو۔دھاندلی کا ایشو ، ریاسی جبر
کا ایشو،پولیس کے بیہمانہ رویوں کا ایشو،ماڈل ٹاؤن میں نہتے شہریوں کے قتلِ
عام کا ایشو اپنی جگہ انتہائی اہم ہیں لیکن یہ سارے ایشو نہ تو ایمان کاحصہ
ہیں اور نہ ہی مذہبی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ان پر احتجاج تو کیا جا سکتا
ہے لیکن ان پر پورے ملک کو مفلوج نہیں کیا جا سکتا ۔ سرکارِ دو عالم حضرت
محمد ﷺ سے محبت میں جان لٹانے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن پر احتجاج کرنے میں زمین
و آسمان کا فرق ہے لہذا ان دونوں کے نتائج میں بھی زمین و آسان کا فرق ہے ۔
۲۰۱۸ کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں لہذ اڈاکٹر صاحب کو دھرنوں پر تکیہ کرنے
کی بجائے عدالت پر اعتماد کا اعلان کرنا چائیے تا کہ آنے والے انتخابات کی
راہ ا کھوٹی نہ ہو نے پائے ۔آزاد عدلیہ سے ڈر کیسا؟ |