اسرائیل کے ناجائز قیام کے روز اول سے ہی امریکہ اور
برطانیہ سمیت سامراجی طاقتیں مشرق وسطی کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے اور
اسرائیل کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے داؤپیچ کھیل رہی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ
اسرائیل کا رقبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہوتا جارہا ہے جب کہ فلسطین
سکڑتے سکڑتے چند شہروں تک محدود ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی کو ہتھیانے کی
اسرائیلی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ،حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور تل
ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا جلد باضابطہ
اعلان کرنے کی اطلاعات عالمی میڈیا کی شہ سرخیاں بنیں تو اس کو ڈونلڈ ٹرمپ
کے اس بیان کی طرف عملی قدم قرار دیا جانے لگا جو ان کے انتخابات کے دوران
دیا تھا کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت
المقدس منتقل کریں گے ،امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تل
ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں
تاہم اس فیصلے پرعمل درآمد کے لیے ایگزیکٹو آرڈر کا انتظار ہے۔ صدر کی
طرف سے منظوری دیے جانے کے فوری بعد کوئی اقدام کیا جاسکتا ہے۔عالمی میڈیا
کے مطابق اسرائیل سے عبرانی میں نشر ہونے والے ٹی وی چینل 2 نے ذرائع کے
حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی سفارت خانے کے لیے بیت المقدس میں ایک عمارت
مختص کردی گئی ہے جسے سفارت خانے کے طور پراستعمال کرنے کے لیے تیار کیا جا
رہا ہے۔ عمارت کو مکمل طور پرتیار کرنے کے فوری بعد وہاں سے سفارتی
سرگرمیوں کا آغاز ہوسکتا ہے،امریکی اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فلسطینی
انتظامیہ نے خبردار کیا ہےکہ اگرامریکا نے اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت
المقدس منتقل کیا توامن عمل ختم کردیں گے جب کہ اسلامی تعاون تنظیم’او آئی
سی‘ نے خبردار کیا ہے کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کو چھیڑنے
اور اسے صہیونی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو اس
کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔خبر رساں اداروں کی جانب سے شائع کردہ بیان
میں او آئی سی نے واضح کیا ہے کہ بیت المقدس کی تاریخی، قانونی اور اسلامی
حیثیت کو چھڑینے کی کوش کی گئی تو یہ غیرقانونی اقدام تصور ہوگا اور اس کے
سنگین نتائج نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے،او آئی سی‘
نے امریکی صدر کے مجوزہ پلان کو عالمی قوانین، سلامتی کونسل کی قراردادوں
بالخصوص قرار داد 478 کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس میں القدس میں
قونصل خانے قائم کرنے والے ملکوں سے بھی اپنے مشن دفاتر القدس سے باہر
منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہےاور23 دسمبر 2016ء کو سلامتی کونسل کی
قرارداد 2334میں بھی فلسطینی علاقوں بشمول القدس میں اسرائیلی سرگرمیوں اور
یہودی آباد کاری کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔
تاہم رواں ہفتے میں امریکی قدام کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
’یروشلم‘ یا بیت المقدس کے حوالے سے ایک قرار داد پر ووٹنگ ہوئی ہے، جس کے
مطابق بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ
اور طاقت کا استعمال غیر قانونی ہوگا اور اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔رپورٹس
کے مطابق اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6
ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر
مارشل، ناورو نے قرارد کی مخالفت میں ووٹ دیا اور 9 ریاستوں آسٹریلیا،
کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈرس، پاناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے،
جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد کو ووٹ دینے سے گریز کیا۔
اس میں دورائے نہیں کہ امریکی صدر کا انتہاپسندانہ بیان اور اقدامات خطے کے
امن کو تہہ وبالا کرنے کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی طرف سے
نئی انتفاضہ تحریک کا باعث بنے گا جس کی تما م تر ذمہ داری اسرائیلی صہیونی
ہمدردی میں ہلکان انتہا پسندامریکی صدر پر عائد ہوگی۔ جب کہ عالم اسلام کے
لیے لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی امن کا چیمپئن امر یکہ صہیونیوں کی مدد کے لیے
عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر فلسطینوں سمیت
تمام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئےبیت المقدس کو اسرائیلی
دارالحکومت بنانے کے لیے عملی اقدام کررہا ہے جب کہ وسائل سے مالا مال اور
خطہ ارض پر غیر معمولی وجود رکھنے کے باوجود قبلہ اول پر ہماری گرفت کمزور
سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے ،بلاشبہ جب تک موقر فورمز پر اس حوالے سے مضبوط
موقف اختیار نہیں جاتا اس وقت تک ایسے خطرات ارض مقدس پر منڈلاتے ہی رہیں
گے۔ |