ملک پر دہشت و بربریت کا ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں
آیا تھا جب اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمانوں کا پوری طرح ناطقہ بند کرنے کی
کوشش کی جارہی ہواور انہیں جبراًدو نمبر کی شہریت پر پہنچا دیا گیا ہو ۔آئے
دن کی خونریزی اور جنون کی حد تک بڑھتی جارہی فرقہ وارانہ منافرت اب معمول
کی بات بنتی جارہی ہے ۔فرقہ پرستوں کے نفرت انگیز بیانات اور شرانگیزیوں کا
لامتناہی سلسلہ اس طرح چل پڑا ہے کہ ہر آنے والی شرانگیزی سابقہ دہشت و
بربریت کو ماند کردیتی ہے ۔سنگھ پرچارک اندریش کمار کٹرہندواحیاپرستی کیلئے
مشہور ہیں وہ خطرناک اور غیر جمہوری بیانات کے ماہر بنتے جارہے ہیں اس لئے
کہ وہ بے خوف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کوئی ان کاکچھ نہیں بگاڑسکتا اور یہی
بے خوفی کسی کو بھی اپنی حد اور جامے سے باہر کردیتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جو
لوگ ہندوستان سے پیار نہیں کرتے وہ ملک چھوڑدیں پہلے بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ
جنہیں بیف کھانا ہے وہ پاکستان چلے جائیں ۔ان کے یہ بیانات اس وقت سامنے
آئے ہیں جب راجستھان کے راجسمند میں نام نہاد لوجہاد کے نام پر مغربی
بنگال کے ایک مسلم مزدور افروزالحق کو انتہائی وحشیانہ و بہیمانہ طریقے
سےقتل کرنے اور پھر جلادینے کا معاملہ اخبارات اور ٹی وی پر گرما گرم بحث
کا موضوع بناہوا ہے ۔دہشت گردی کی آخر یہ کون سی قسم ہے جب ایک معمولی
مزدور کو کھلے عام انتہائی بے رحمی سے کاٹ دیا جاتا ہے پھر جلادیا جاتا ہے
اور آزادی کے ساتھ ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل بھی کردیا جاتا ہے محض
اس لئے کہ وہ مسلمان ہے اور جو ماررہا ہے جلارہا ہے وہ ہندو ہے ۔ اس تعلق
سے ٹی وی جو زہر پھیلارہا ہے اور اس پر جس طرح کی سیاست ہورہی ہے وہ اس ملک
کی سالمیت ،یکجہتی اور سب سے بڑھ کر اس جمہوری بنیاد کو کھوکھلا کرتی جارہی
ہے جس کے صدیوں سے اس ملک کے لوگ امین ہیں ۔آخر یہ لوگ ملک کو کہاں لے
جانا چاہتے ہیں کیا یہی ملک سے وفاداری اور پیار کی علامت ہے ۔
افروزالحق کےساتھ ہوئی اس کھلی بربریت کے بعد پولس نے ایک ملزم شمبھولال کو
گرفتار تو کرلیا ہے لیکن وہ کہتی ہے کہ شمبھولال نے یہ قتل اس لئے کیا کہ
وہ ایک خاتون کے ساتھ ہوئی اس زیادتی کا بدلہ لینا چاہتا تھا جو افروزل نے
کی تھی ۔ کیاپولس کا یہ بیان جانبداری کا مظہر نہیںہے۔پولس کے اس بیان پر
تشویش اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے سماجی کارکن اور حقوق انسانی تنظیم پی
یوسی ایل راجستھان کی صدر کویتا سری واستو کہتی ہیں’’ کہ پولس افروزل کے اس
وحشیانہ قتل پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اگر تھوڑی دیر کیلئے مان بھی لیا جائے
کہ اس قتل کا سبب انتقام ہے تو بھی جس طر ح کی نفرت بھری زبان کا استعمال
اس ویڈیو میں کیا گیا ہے اسے کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔‘‘دراصل اس
بربریت و سفاکیت نے گراہم اسٹین کے قتل کی یاد دلادی ہے جو برسوں قبل
تبدیلئی مذہب کے نام پر کیا گیا تھا جس نے ملک کے سبھی امن پسندوں کا سر
شرم سے جھکادیا تھااور اب تو با ربار سرجھکانے کی نوبت آرہی ہے ۔رویش کمار
کی بھی تشویش کچھ اسی طرح کی ہے وہ کہتے ہیں ’’سیاست اور ٹی وی جو برسوں سے
ماحول بنارہے تھے اور جس زہر کی کاشت کررہے تھے وہ پودا اب تناور درخت بن
چکا ہے۔فرقہ پرستی آپ کو انسانی بم میں تبدیل کردیتی ہے اور ایسا عدم تحفظ
پیدا کردیتی ہے جس کے چلتے آپ کے اندر تشددکی آگ بھڑک اٹھتی ہے ایسے بہت
سے انسانی بم ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں ،اس
کا فائدہ اٹھاکر اب چار لوگ بھی قانون اپنے ہاتھو ں میں لے لیتے ہیں اور
بڑی آسانی سے حکومت کو یرغمال بنالیتے ہیں ۔ جن کے یہاں موت ہوتی ہے ان کے
غموں کی پروا نہ کرنے کی ٹریننگ آپ کو روزانہ ٹی وی اور پولس کے
جانبدارانہ رویئےکے ذریعے دی جارہی ہے اور ایسا کرنے سے دوسرے سماج کے اندر
کتنے قاتل پیدا کئے جارہے ہیں اس کا انہیں شاید اندازہ نہیں۔ اس طرح سےسارے
سماج ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجائیں گے ،خونریزی اور بربریت کا سیلاب سبھی
کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا پھرکون اس سےنمٹ پائےگا شایدکوئی نہیں ۔کیا آپ
چاہیں گے کہ آپ کے گھر کا کوئی بھی فرد قتل کرکے گھر لوٹے بھلے اس کے
نظریئےکی تائید کرنے والی حکومت اسے بچالے مگر کیا آپ اس کے ساتھ رہ پائیں
گے،اس کے پھر جرم نہ کرنے کی گیارنٹی دے پائیں گے ۔ممکن ہے کہ اسکول وکالج
سے لوٹتے وقت کسی معمولی جھگڑے میں تشددکا یہی خون کسی پربھی سوار ہوجائے
اور آپ کے گھر کا ہی کوئی فرد قاتل بن جائےاس کو یہ طاقت اسی ذہنیت اور
سیاسی داؤپیچ سے مل رہی ہے جسے آپ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دن رات پال
پوس کر بڑا کررہے ہیں۔مذہبی کٹرپن اور منافرت کی یہ سیاست روزانہ قاتلوں
اور فسادیوں کی کھیپ پر کھیپ تیار کرتی جارہی ہے ۔اس کا انجام کیا ہوگا کیا
اب اسے سمجھنے کیلئے کسی ڈکشنری کی ضرورت رہ جاتی ہے ۔
ملک میں نراجیت کا راج ہے جس پر ممبئی ہائی کورٹ بھی خاموش نہ رہ سکی اور
جسٹس ایس سی دھرمادھیکاری اور جسٹس بھارتی ڈانگرے نے سخت تبصرے کئے ہیں
انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں ایسی حالت پیدا ہوگئی ہے کہ اب لوگوں کو اپنی
رائے پیش کرنےمیں بھی دشواری ہورہی ہے۔ اب رائے کی آزادی بھی سلب کی جارہی
ہے ۔جب بھی کوئی اپنی رائے لئے آگے بڑھتا ہے تو کوئی نہ کوئی چھٹ بھیا
گروپ سامنے آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اسے بولنے نہیں دے گا ایسا ماحول
کسی بھی ریاست یا مملکت کیلئے اچھا نہیں ہے ۔دہشت گرد بے خوف ہوکرکھلے عام
دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلم کی نمائش نہیں ہونے دیں گے
یہا ںتک کہ سنیماگھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور آگ لگادیتے ہیں۔
ان شرپسندوں کی سرزنش کے بجائے خود وزیراعلیٰ بھی ان کی ہم نوا ئی کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اپنی ریاست میں یہ فلم نہیں چلنے دیں گے ۔کیا ملک کی
سالمیت اور اس سے پیار کرنے کی یہی علامت ہے ۔عجیب بات تویہ ہے اب دہشت
گردخود ہی دوسروں کو دہشت گرد کہنے لگے ہیںاب چور اپنےتحفظ کیلئے خود ہی
چور چور کا نعرہ لگانے لگا ہے ۔ کوئی بتائے کہ اس وقت پورے ملک میں کون توڑ
پھوڑ کررہا ہے کون مار کاٹ کرکے لوگوں کو نذر آتش کررہا ہے اور کون سوشل
میڈیا پر اپنی کرتوتوں کو بڑی سفاکی اور بے حیائی سے وائرل کررہا ہےاور
حکومت کیوں خاموش ہے، نہ ان کا مواخدہ ہورہا ہے نہ ہی ان سے کوئی بازپرس کی
جارہی ہے۔کوئی بتائے آخر دہشت گرد کون ہے ؟اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سبھی
امن پسندوں کو متحد ہونا ہی پڑے گا ۔دوسرا اورکوئی راستہ بچا ہی نہیں ہے ۔
کیا ایک عظیم اتحاد کیلئے آپ تیار ہیں کیونکہ اب تو جمہوریت ہی خطرے میں
پڑگئی ہے ۔ |