القدس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ،یورپین
زبان میں اسے Jerusalem یروشلم کہاجاتاہے۔ حالیہ دنوں میں یروشلم اسرائیل
کے چھ اضلاع میں سے ایک ہے ،یہ شہر 625 کیلومیٹر کے رقبہ پر مشتمل ہے،یہاں
کی کل آبادی910,300ہے جس میں سے67 فیصد یہودہیں جبکہ 28 فیصد مسلمان
ہیں،یہاں رہنے میں والوں میں ایک فیصد عیسائی اور ایک فیصد وہ ہیں جن کی
بطور مذہب کوئی شناخت نہیں ہے ۔ انتظام وانصرام کے حوالے سے یہ اسرائیل کے
ماتحت ہے ،یہاں کا میئر بھی اسرائیلی ہی ہے تاہم مشرقی یروشلم کے میئر
مسلمان بھی ہیں اور عالمی رائے عامہ کے مطابق فلسطین کی راجدھانی بھی ہے ۔اسلامی
تعاون تنظیم نے بھی 13 دسمبر 2017 کو ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے
اپنے ہنگامی اجلاس میں یہ فیصلہ کیاہے کہ یروشلم فلسطین کی راجدھانی ہوگی ۔
دنیا کے تینوں آسمانی مذاہب :اسلام ۔عیسائیت اور یہودیت کا اس شہر سے گہرا
اور مذہبی رشتہ ہے ۔یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل
کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر حضرت
عیسی علیہ السلام کا مقام پیدائش اور ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ آغاز اسلام
میں اسی کی جانب رخ کرکے مسلمان نماز کی ادائیگی کررہے تھے ۔نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے معراج کا سفر بھی یہیں سے طے کیا تھا ۔ اس طرح یہ شہر
تینوں مذاہب کیلئے اہمیت کا حامل اور ان کی توجہ مرکز ہے تاہم ان تینوں میں
سے اس کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ،کس کی زیادہ مذہبی وابستگی پائی جاتی
ہے اور شریعت کی روشنی میں کسے یہ شہر ملنا چاہیے ،زیر نظر تحریر میں ہم
اسی کی جانب روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔
تاریخی روایات کے مطابق مسجدحرام کے چالیس سالوں بعد مسجد اقصی کی تعمیر کا
سلسلہ شروع ہواتھا۔عرصہ دراز کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو اﷲ تعالی نے
یہاں ایک مرکز عبادت کی تعمیر کا حکم دیا ،انہوں نے انتظام کرنا بھی شروع
کردیا تاہم اسی دوران وفات ہوگئی اور پھر ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ
السلام نے عبادت گاہ کی تعمیر کا کام مکمل کیا یہودی اس عبادت گاہ کو ہیکل
سلیمانی کہتے ہیں۔ہیکل سلیمانی اور مسجداقصی کو 586 ق م میں عراق کے ایک
بادشاہ بخت نصر نے مسمار کر دیاتھا۔اس واقعہ کے 400سالوں بعد رومی حکومت نے
یروشلم پرحملہ کر کے ایک مرتبہ پھر یہود یوں کا قتل عام کیا اور ہیکل کو
بالکل تباہ وبرباد کر دیا، ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی
دیوار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام اجتماع اور ان کی
گریہ وزاری کا مرکز بن گئی اور اس بنا پر ''دیوار گریہ'' (Wailing Wall)
کہلانے لگی۔ 136 عیسوی میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر
کے اس کا نام 'Aelia Capitolina ' رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا
'Jupiter ' کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرا دیا۔ چوتھی صدی عیسوی
میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد 336 عیسوی میں قسطنطین
اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیساے نشور (Church or Resurrection) تعمیر کرا
دیا۔آمد اسلام کے بعد مسلمانوں کو اسی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم
دیاگیا اور اس طرح یہ کئی سالوں تک مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ۔17ہجری یعنی
639عیسوی میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر
مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی
توسیع عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔1099 میں پہلی
صلیبی جنگ کے موقع پریورپ کے عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار
مسلمانوں کو شہید کر دیا، 88 سالوں بعد صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو پے
درپے شکست دینے کے بعد 1187 میں دوبارہ مسجد اقصی کو عیسائیوں کے قبضے سے
آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔
بیسوی صدی میں برطانیہ کے بڑھتے تسلط اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ نے
مسلمانوں سے مسجد اقصی کو بھی چھین لیا ، کچھ اپنوکی غداری اور غیروں کی
عیاری کی بنیاد پر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917 کے دوران انگریزوں نے بیت
المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کو آبادکرنا شروع
کردیا۔رفتہ رفتہ وہاں یہودیوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور نومبر 1947میں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں درمیان تقسیم
کر نے کی سفارشات پیش کی جسے یہودیوں نے بھی منظور نہیں کیا کیوں کہ اس کی
سرحدیں ان کے گمان کے مطابق کم تھیں اور ایک سال بعد14 مئی 1948کو یہودیوں
نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔اس علان کے بعد عرب۔ اسرائیل کے درمیان
برائے نام جنگ چھڑ گئی اور ایک نوزائیدہ ریاست عربوں کو شکست دیکر فلسطین
کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئی۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب
اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ جون1976 کی تیسری عرب اسرائیل جنگ
میں یہ حصہ سے بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ، اسرائیلیوں نے بقیہ
فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیااور اس طرح القدس سے مسلمانوں کا
قبضہ بالکلیہ ختم ہوگیا۔
اس وقت مسلمانوں کا قبلہ اول اور پورا شہر القدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔
اسرائیل پارلیمنٹ میں1980 کے پاس کردہ آئین کے مطابق یروشلم اسرائیل کی غیر
منقسم اور ابدی راجدھانی ہے ،اسرائیلی حکومت کے تمام اہم محکمے یروشلم میں
ہی واقع ہیں،اسرائیلی پارلمینٹ (Knesset)،سپریم کورٹ ، وزیر اعظم ہاؤس اور
صدارتی محل کا جائے وقوع بھی یہی مقبوضہ بیت المقدس ہے ۔دوسری جانب عالمی
قانون کی رو سے مشرقی یروشلم پرا سرائیل کا قبضہ غلط اور ناجائز ہے، برسوں
تک کسی بھی ملک نے اسرائیل کے دعوی کی حمایت کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل
کی راجدھانی تسلیم نہیں کیا،وہاں ایک بھی غیر ملکی سفارت خانہ نہیں ہے ۔
پہلی مرتبہ امریکہ نے 1995 میں یہودیوں کے ساتھ ہوئے ایک معاہدہ کی بنیاد
پر یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کے سلسلے میں ایک آئین پاس
کیا تاہم بل کلنٹن،جارج ڈبلیو بش اور باراک اوبامہ نے اس قانون کو ٹھنڈ ے
بستے میں پڑے رہنے دیا ،اس کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا ۔ٹرمپ
نے6؍دسمبر کو 95 کے آئین کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تل ابیب سے امریکی سفارت
خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا حکم جار ی کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے
اسرائیل کے اس دعوی کو دنیا کے دوسرے ملکوں نے بھی تقسیم کرلیا ہے اور
یروشلم سے مسلمانوں کو مکمل طور پر دستبر دار کردگیا ہے ۔
مذہبی نقطہ نظر سے یہ بات آئینہ کی طرح صاف ہے کہ اس کے حقدار صرف اور صرف
مسلمان ہیں کیوں کہ یہ شہر انبیاء کا مسکن رہا ہے ،انبیاء کے ماننے والوں
کو یہ دیا گیا ہے ۔ مسلمان حضرت موسی ،حضرت سلیمان اور عیسی علیہ السلام
سمیت تمام انبیاء کی نبوت ،حقانیت اور صداقت کے قائل ہیں اسی کے ساتھ وہ
آخری نبی پر ایمان رکھتے ہیں جبکہ عیسائی اور یہود اﷲ کے آخری نبی محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ہیں ،یہی وہ نقطہ اختلاف ہے جس کی بنیاد پر
ان دونوں مذاہب سے مسلمانوں کا اختلاف شروع ہوجاتاہے اور اس طرح انہیں اس
شہر کی جانیشنی کا حق نہیں پہونچتاہے جنہوں نے پرودگارعالم کے بھیجے ہوئے
تمام انبیاء ورسل کو ماننے سے انکار کیاہے ۔دوسری طرف یہودی جس ہیکل
سلیمانی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کا کوئی نام ونشان بھی نہیں ہے ۔محض
اسلام دشمنی میں وہ ہیکل کی تعمیر کے نام پر مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد
اقصی کی منہدم کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہیں ۔ماہرین کے مطابق یہودی مسجد
اقصی کے نیچے کھدائی کرکے معبد کی تعمیر بھی مکمل کرچکے ہیں اور اب انہیں
مسجد اقصی کے گرنے کا انتظار ہے تاکہ اوپر بھی معبد وہ بناسکیں۔
سیاسی طور پر دنیا کے حکمران اسرائیل ۔فلسطین تنازع کا حل مذاکرات کو مان
رہے ہیں،حد یہ ہوگئی ہے کہ ڈونالڈٹرمپ ایک طرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے یروشلم کوراجدھانی تسلیم کررہے ہیں دوسر ی طرف یہ بیان دے رہے
ہیں کہ دوریاستی حل کاسب سے بہتر فارمولہ مذاکرات ہے اور اسی کے پیش نظر
امریکہ نے یہ اقدام کیا ہے ۔ جبکہ فلسطین قضیہ کی سچائی یہ ہے کہ وہ ریاست
طاقت اور ہتھیار کے زور پر قائم کی گئی ہے ،مسلم دشمنی کی بنیاد پر دنیا نے
اسرائیل کو ایک ملک کی حیثت سے تسلیم کیا ہے اور پھر جنگ کرکے اسرائیل نے
فلسطین کے بقیہ حصہ پر بھی قبضہ کیا ۔ اب یروشلم کو راجدھانی بناکر
مسلمانوں کو مکمل طور پر دستبر دارکردیاگیاہے ۔اس پوری تفصیل کے بعد
مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس سے فلسطینیوں کو ان کے
حقوق مل سکتے ہیں ۔طاقت کی اس جنگ میں جب تک مسلمان طاقت کا استعمال نہیں
کریں گے ،اس وقت وہ مقبوضہ فلسطین واپس لینے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔ |