ہمیں یاد ہے۔ ہم بھولے نہیں۔ نہ ہی بھولیں گے۔ یہ زخم
کبھی بھر نہیں سکتا۔ پاکستان کو ہمیشہ یہ واقع یاد رہے گا۔ اس دن بہت سے
گھروں کی رونقوں کو کچل دیا گیا۔ ایسا دن جس نے بہت سے والدین سے ان کی
اولاد کو چھین کیا۔ ایسا دن جس نے ہر دل کو خوف زدہ کر دیا۔ ایسا دن جس نے
پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہم نہیں بھولیں گے وہ دن۔ ہر دسمبر میں ہمیں یہ
دن یاد آئے گا ، اور ہر دسمبر ہمارے دلوں کو افسردہ کر جائے گا۔ جی ہاں! 16
دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن دو ایسے واقعات ہوئے
جنہوں نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک واقعہ سکوت ڈھاکہ کا ہے جو کہ 16
دسمبر 1971 میں ہوا۔ اور دوسراواقعہ 16 دسمبر 2014 کا ہے جس میں آرمی پبلک
سکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور تقریباََ 150 بچوں کو شہید
کر دیا گیا تھا۔ دونوں واقعات ایک جیسی نوعیت کے تھے۔
1971 میں پیش آنے والا واقع میں مشرقی پاکستان کو الگ ریاست بنا دیا گیا
اور پاکستان سے علیحدہ کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پاکستان کو
ایک بڑا نقصان اٹھانا پڑا جو کہ آج بھی اپنا اثر رکھتا ہے۔ مشرقی پاکستان
کو آج دنیا بنگلادیش کے نام سے جانتی ہے جو کہ اب اپنی خود کی ایک شناخت
دکھتا ہے۔ آج بھی وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں علیحدگی کے وقت بنگلادیش
کے میں رہنا پڑا، اور آج جو سلوک ان کے ساتھ کیا جاتا ہے اگر وہ پاکستان
میں ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ دوسرا واقع ایک ایسا واقع ہے جس کو ابھی زیادہ
وقت نہیں گزرا اور ابھی تک اپنا اثر ایسے رکھتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔سانحہ
پشاور کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ 16 دسمبر 2014 کی صبح بچے سکول گئے، مگر
لوٹ کر نہ آئے۔ ایسی صبح جس نے کء چراغ بجھا دیئے۔ ایسی صبح جس نے پورے
پاکستان کو ایک لمحے کے لئے خاموش کر دیا۔ نہیں بھول سکتے ہم ایسی صبح جس
نے ہم سے ہمارے بچے چھین لئے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کی یاد ایک بار پھر
تازہ ہو گئی ہے۔ 3 سال پہلے پیش آنے والا واقع آج بھی اپنے دلوں کو آبدیدہ
کر دیتا ہے۔ اس دن پاکستان کے بچوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی۔ تھوڑی
سی روشنی اگر اس دن پر ڈالی جائے تو ایسی صبح جب ماں نے اپنے لاڈلے بیٹے کو
تیار کر کے سکول بھیجا، اس کا ماتھا چوما، اسے ناشتہ دیا ، اسے تیار کیا۔۔۔
مگر آخری دفعہ۔۔۔ اس ماں کو معلوم نہ تھا۔۔۔ معلوم نہ تھا کہ چھ دہشت گرد
اس کے لاڈلے کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیں گے اور دوبارہ وہ اپنے بچے کا
ماتھا نہیں چوم پائے گی۔ اس ایک دن میں پاکستان کے 150 بچوں کو کچھ ہی وقت
میں شہید کر دیا۔ نہیں بھولاجا سکتا یہ دن ہمارے بڑوں کے ساتھ دہشت گردی کے
نام پر جو ظلم ہوتا آرہا ہے وہ تو سب جانتے ہیں۔ ہمارے بازاروں ، تفریحی
مقامات کوکس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اس سے ساری دنیا
واقف ہے۔ لیکن اب کی بار ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس دن ان
بچوں سے اس کے بڑوں کا بدلا لیا گیا۔ کیا یہی بہادری ہے ہمارے دشمن کی کہ
وہ ہمارے بچوں سے لڑے گا؟ سانحہ پشاور تعلیمی اداروں میں پیش آنے والا کوئے
اکیلا واقع نہیں۔ اس کے بعد پاکستان کے اور بھی دوسرے تعلیمی اداروں کو
دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مگر آخر کب تک؟ کب تک ہم ایسے واقعات کا
سامنا کرتے رہیں گے اور کب تک صرف افسوس کرتے رہیں گے؟ ہمیں صرف دشمن کے
بچوں کو پڑھانا نہیں ہے بلکہ ہمیں دشمن کو سبق بھی سکھانا ہے تا کہ آئندہ
کوئی پاکستان اور اس کے بچوں کو کچھ کہنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پہ مجبور
ہو جائے۔ ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہے کہ ہمیں آئندہ ایسے پیش آنے والے ہر
واقعہ سے خود کو بچانا ہے۔ ہمیں اب خود کچھ کرنا ہے۔
16 دسمبر آچکا ہے۔ اس دن سارا پاکستان افسردہ ہو گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے
کہ ہر اس گھر میں جا کر اس گھر کو حوصلہ دیں جنہوں نے اپنے بچے اس سانحے
میں کھو دیئے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ ہمین آئندہ ایسے واقعات سے محفوظ فرمائے اور
پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
|