شام سے روسی فوج کی واپسی اورساتھ میں روسی صدر کی وارننگ ۰۰۰

 سعودی عرب روشن خیالی کی جانب رواں دواں۰۰۰

شام سے روسی فوج کی واپسی ، روسی صدر کی شامی عوام کیلئے خوشخبری یا وارننگ؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شام کے حالات کنٹرول میں آچکے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں شامی صدر بشارالاسد سے کوئی معاہدہ تو نہیں کی جس کی وجہ سے روسی صدر ولادیمیر پوتین نے اپنی فوج کو شام سے بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔روس کے وزیر دفاع سرگے لاؤروف کے مطابق روس نے شام سے اپنی فوج کو واپس بلانا شروع کردیا ہے۔شام میں 2011میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک کم و بیش چار لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں جن میں معصوم بچے، مردو خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔بشار الاسد کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے روس اور ایران نے شامی صدر کی مدد کرتے ہوئے عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔روس نے بشارالاسد کی حکومت کو مستحکم کرنے اور انہیں اقتدار پر فائز رکھنے کیلئے ستمبر 2015میں فضائی حملوں کا آغاز کیا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی فوج نے جس طرح شام میں فضائی حملوں کے ذریعہ ہاستپلوں، اسکولوں اور بازروں کو نشانہ بناتے ہوئے عام شہریوں پر حملے کیے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ روسی فضائی حملوں میں کم و بیش 6328شہری مارے گئے جن میں 1537بچے شامل ہیں۔شامی فوج کی واپسی کے اعلان کے باوجود روسی صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ’’ اگر دہشت گردوں نے دوبارہ کارروائیاں کیں تو پھر روس ایسے فضائی حملے کرے گا جیسے انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہونگے‘‘۔روسی صدر کی یہ وارننگ دہشت گردوں کے لئے اتنی اہم نہیں جتنی کے شامی بے قصور عوام کے لئے ہے۔ شام میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوکرپناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ شامی عوام کو ایک طرف بشارالاسد ، روس اور ایرانی فوج و شیعہ ملیشیا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری جانب دہشت گرد تنظیموں اور اپوزیشن کا نشانہ بنتے ہیں۔گذشتہ چند دن قبل سعودی عرب میں تمام شامی اپوزیشن گروپس نے مذاکرات کی میز پر جمع ہوکر اتحاد کا ثبوت دیا تھا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے بھی شامی صدر بشارالاسد کی ظالمانہ کاررائیوں پر انہیں شام کے اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے امریکہ اور اتحادی ممالک پر دباؤ ڈالا تھا لیکن روس کی بشارالاسد کی تائید و مدد نے امریکہ کو بھی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ بشارالاسد کے خلاف کارروائی کرے۔یا پھر ہوسکتا ہیکہ دشمنانِ اسلام چاہتے ہی ہونگے کہ عالمِ اسلام کے ان ممالک کے درمیان ایسے ہی پُر تشدد حالات جاری رہیں تاکہ اس سے انکی معیشت مستحکم ہو۔مشرقِ وسطیٰ کے ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب ، عرب امارات و دیگر ممالک نے کروڑہا ڈالرز کے ہتھیاران سے خریدے ہیں ، ان ہتھیاروں کے جمع کرنے سے حالات پُر سکون ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ ہتھیار ان ممالک کی تباہی اور نقصان کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اسی لئے عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بچنے کی سعی کریں ورنہ مشرقِ وسطی کے حالات مستقبل میں مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

سعودی عرب کے حالات بھی ان دنوں بدلتے جارہے ہیں۔ ملک میں عوام کو خوش کرنے کے لئے نئے نئے اعلانات ہورہے ہیں ۔ان دنوں ایک نئے اعلان نے عالمی سطح پر مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہیکہ سعودی عرب کے ولیعہد مستقبل میں سعودی عرب کو کن راہوں پر لیجانے کی سعی کررہے ہیں۔ کہیں وہ اسلامی قوانین سے ہٹ کر مغربی و یوروپی ثقافت کو عام کرنا تو نہیں چارہے ہیں۔

سعودی عرب میں آئندہ سال یعنی 2018 سے سینما گھر کھل جائیں گے ۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے فرزند و جانشین شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030سعودی عرب کی ترقی یا مغربی و یوروپی کلچر کو عام کرتے ہوئے سعودی شہریوں کو بے راہ روی کی جانب ڈالنا تو نہیں؟سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہے یہاں کے شہریوں کی اکثریت آرام طلب دکھائی دیتی ہے۔ سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں ایشیاء ممالک خصوصاً ہندوپاک ، افغانستان وغیرہ کے مزدور طبقہ افراد نے اہم رول ادا کیا ہے۔ موجودہ حکمراں شاہ سلمان کے دور میں سعودی شہریوں کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے تارکین وطنوں کو ملک سے بے دخل کرنے کی کوششیں بڑھتی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ مسلمہ ہیکہ اپنے شہریوں کی تعلیم و ترقی اور خوشحالی کے لئے حکمراں کو اہم فیصلے کرنے پڑتے ہیں لیکن جن ممالک کے مزدور پیشہ افراد نے اپنی سخت محنت اور کوششوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے انہی کے ساتھ ناانصافی بہتر نہیں۔ گذشتہ دو چار برسوں کے دوران جس طرح ہندو پاک کے تارکین وطنوں کو نوکریوں سے بے دخل کرنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ سعودی عرب کے حکمراں کے لئے زیب نہیں دیتا۔ ہزاروں ہندو پاک کے تارکین وطنوں کو کئی کئی ماہ کی تنخواہیں سعودی کمپنیوں اور کفیلوں کی جانب سے اداشدنی ہے لیکن سعودی عرب کے سخت قوانین کی وجہ سے تارکین وطن اپنے بقایاجات لئے بغیر کسمپرسی کی حالت میں اپنے اپنے ملک واپس ہوگئے۔ اور جو تارکین وطنسعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں موجود ہیں انہیں بھی معاشی طور پر مختلف قوانین کے تحت معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے ، کئی لوگ جو اپنے افراد خاندان کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھے انہوں نے معاشی بوجھ کی وجہ سے بیوی بچوں کو انکے وطن واپس بھیجنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سعودی أیزیشن کے نام پر ہزاروں ہندو پاک اور دیگر ممالک کے تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کردیا گیااور جو لوگ وہاں روزگار سے منسلک ہیں انہیں کم تنخواہوں پر کام کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔یہ سچ ہیکہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں ، یمن اور شام کی جنگ نے سعودی عرب کی معاشی اعتبار سے کمر توڑ دی ہے۔ گذشتہ دو سال سے سعودی عرب کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے اس کے باوجود سعودی عرب کروڑہا ڈالرزکے ہتھیار اپنے دفاع اور برتری کے لئے امریکہ سے خریدے ہیں۔اب مملکت میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ہے ۔اسی طرح سعودی حکام کے مطابق ملک بھر میں پبلک سینما کی اجازت ہو گی جبکہ پہلی مرتبہ سعودی عرب میں سینما گھر آئندہ برس کے آغاز ہی میں عوام کیلئے کھول دیئیجائینگے۔ وزیر برائے ثقافت اور معلومات اواد بن صالح اواد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ آڈیو ویژول میڈیا کے جنرل کمیشن نے بطور انڈسٹری ریگولیٹر ملک بھر میں سینما کے لائسنس کے اجرا کے لیے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ممکنہ طور پر پہلا سینما مارچ 2018 تک کھول دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ اکتوبر 2017 کے آخر میں ریاض میں ایک ''مووی نائٹ'' کا اہتمام کیا گیا تھا، جسے سعودی ریاست میں سینما گھروں پر عائد پابندی ختم ہونے کا اشارہ قرار دیا گیا۔ سعودی حکام نے مملکت میں ثقافتی منظر نامے کو مزید تقویت دینے کے اصلاحات کے پیش نظر سینما گھروں کے قیام کا اشارہ دیا تھا۔نیشنل ڈائیلاگ کے ڈائریکٹر فیصل نے کہا کہ سینما گھر سعودی معاشرے کی روح ہیں، یہ لوگوں کوٹی وی اسکرین پر ان کی اپنی زندگی کا ایک عکس دکھا کر حقیقت سے روشناس کرواتا ہے۔یہاں یہبات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کو ایک اسلامی مملکت کی حیثیت حاصل ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے سمجھا جارہا ہے کہ سعودی شہریوں کو خوش کرنے کے لئے مغربی ویوروپی ثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ ایک طرف خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے کر انہیں خوش کرنے کی کوشش کی گئیاور اب سینما گھروں کے قیام کا اعلان فلم بینوں کے لئے خوش آئند اقدام ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ سعودی علماء اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر حکومت کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت کرتے ہوئے اپنے اچھے یا برے انجام کو دعوت دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ بات مشہور ہیکہ سعودی عرب میں جس نے بھی بادشاہت کے خلاف آواز اٹھائی انکا انجام دنیوی اعتبار سے بُرا ہوتا ہے ۔

کیا عراق سے داعش کا خاتمہ ہوچکا۰۰۰؟
عراق کے وزیر اعظم حیدرالعبادی نے عراق سے داعش کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے لیکن اس میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ عام آدمی بھی کرسکتا ہے۔ عراقی عوام جو مسلسل تین دہائیوں سے ظلم و بربریت کے بیچ زندگی گزاررہے ہیں انہیں امریکہ اور برطانیہ نے جس جنگ میں ڈھکیلا ہے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ عراقی وزیر اعظم حیدرالعبادی کا بیان ہے۔عراق سے دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔دولت اسلامیہ کے دہشت گرد ہوسکتا ہیکہ عراقی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ایک سازش کی ہو؟ اگر واقعی عراق سے دولت اسلامیہ کا خاتمہ ہوچکا ہے تو یہ عالمِ اسلام کے لئے ایک بڑی کامیابی تصورہوگی کیونکہ دشمنانِ اسلام نے جس طرح عراق کو جنگ زدہ کرکے مختلف نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا تھا ان ہی میں ایک دولت اسلامیہ بھی ہے، دولت اسلامیہ یا داعش نے جس طرح معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائیگی۔عراقی فوج نے واقعی کامیابی حاصل کی ہوگی لیکن داعش کے تعلق سے امریکہ اور بعض ممالک کا کہناتھا کہ داعش کا خاتمہ جلد ممکن نہیں اگر اب جبکہ حکومت نے عراق سے داعش کے خاتمہ کی بات کی ہے تو یہ عراقی عوام کے لئے خوش آئند بات ہوگی لیکندوسری جانب برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے عراقی وزیر اعظم حیدرالعبادی کے ملک سے داعش کے خاتمے کے اعلان کے بعد بغداد کو خبردار کیا ہے کہ بھاری نقصانات کے باوجود داعش کو ابھی شکست نہیں ہوئی ہے۔ یہ انتہاء پسند گروپ اب بھی خطے کیلئے خطرہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اپنے بیان میں تھریسامے نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دورہ بغداد کے دوران انہوں نے عراق کے استحکام کیلئے تین کروڑ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جس میں دو کروڑ پاؤنڈ انسانی بنیادوں پر معاونت جبکہ ایک کروڑ پاؤنڈ دہشت گردی کے خلاف عراقی فورسز کی صلاحیت بڑھانے کیلئے تھے۔عراقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں تمام افراد کے ساتھ مساویانہ سلوک اختیار کریں ورنہ مستقبل میں عراق کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے ٹرمپ کا فیصلہ مسترد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے فرانسیسی صدر میکرون نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہوکو دو ٹوک جواب دیا ہے۔ پیرس میں ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ فرانس مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ دونوں ریاستیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدی حدود کے اندر امن کے ساتھ رہیں۔ صدر فرانس نے کہا کہ ٹرمپ کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور امن کیلئے خطرناک ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے ٹرمپ کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے رہے۔اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ فلسطینیوں کو یہ حقیقت ’تسلیم‘ کر لینی چاہیے کہ یروشلم کا اسرائیل کا دارالحکومت ہونا امن کی جانب ایک قدم ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ’جتنا جلدی فلسطینی اس حقیقت کو تسلیم کرینگے اتنا جلدی ہم امن کی جانب بڑھیں گے۔دوسری جانب امریکی نائب صدر مائک پینس کے ترجمان نے فلسطینی حکام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی نائب صدر کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔جبکہ مصر میں بھی مسلمان اور مسیحی علما نے امریکی اعلان کے خلاف احتجاجاً نائب صدر مائک پینس کے ساتھ طے شدہ ملاقاتوں سے انکار کر دیا ہے۔ ترکی اور دیگر ممالک نے بھی ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا ہے اورعالمی سطح پر کئی ممالک میں ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف احتجاج جاری ہے اور اس میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.