سولہ دسمبر

 بات تو 46برس اُدھر کی ہے، تب پیدا ہونے والی نسل ادھیڑ عمر کہلوانے لگی ہے۔ لگنے والا زخم اس قدر کاری تھا کہ نصف صدی تک بھی یوں ہرا بھرا ہے، گویا کل کی بات ہو۔ دیکھنے والے کہتے ہیں، صدمہ کی شدت اس قدر تھی کہ لاہور کی سڑکوں پر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ مگر کیا کیجئے کہ بے بسی کے مارے تھے ، رونے کے علاوہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اُن کا ایک بازو کٹ گیا تھا، قائداعظم کے پاکستان کا ایک حصہ ان سے جدا ہوگیا تھا۔ جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا، اس کی بنیاد اسی مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی۔ پاکستان کو قائم ہوئے صرف چوبیس برس ہی ہوئے تھے کہ ملک دو لخت ہوگیا۔ یہ سانحہ تو بیت گیا، پاکستان نے مجبوری کے عالم میں اسے ’’بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے الگ ملک بھی تسلیم کر لیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اگرچہ اس سے قبل بھی جنگیں ہو چکی تھیں، مگر اس کے نتیجے نے بہت کچھ بدل دیا، معاملہ کچھ کا کچھ ہوگیا۔
 
سولہ دسمبر آتا ہے تو سردی کے موسم میں دل گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگتے ہیں، ایسی آگ جو نہ بھڑکتی ہے، نہ اس کی آنچ محسوس کی جاسکتی ہے اور نہ ہی دھواں بند ہوتا ہے، اور لکڑی ہے کہ اندر ہی اندر سے جلتی جاتی ہے۔ دلوں کی آگ بھی ایسے ہی ہے۔ چھیالیس سال سے ہی یہ بحث بھی اپنی جگہ چل رہی ہے کہ اس سانحہ عظیم کا ذمہ دار کون تھا؟ بھارت کو تو کیا کہئے کہ دشمن تو تاک میں ہی ہوتا ہے، بھارت نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ مگر ستم یہ تھا کہ بھارت اس سے قبل ہی ماحول بنا چکا تھا، وہ مشرقی پاکستان کے اندر ہی ’’بارودی سرنگیں‘‘ کھود چکا تھا، راستوں میں کانٹے بکھیر چکا تھا، لوگوں کے ذہن تبدیل کر چکا تھا۔ نئی نسل کے اذہا ن میں مغربی پاکستان کی نفرت کے بیج بو چکاتھا، جو بیس پچیس سال کے دوران تناور درخت بن چکے تھے اور جن کی جڑیں بہت مضبوط ہو چکی تھیں۔ اور جب جنگ کا طبل بجا تو بھارت کو مشرقی پاکستان میں اپنی پیش قدمی کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہاں ان کے حامی ہی نہیں، رہبر بھی موجود تھے، جو ملک کے اندرونی راستوں سے آگاہ تھے، پاکستان کے مسلح حصار کی کمزور فصیلوں سے واقف تھے۔

بھارت کی منصوبہ بندی تو فطری بات ہے، کہ دشمن کا کام یہی ہے، مگر ایسا ہوتاہے تو یقینا اپنی کمزوریوں کی بنا پر ہی ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان اس وقت مارشل لاء کی گرفت میں تھا، اس لئے یہ بات بہت ٹھوس انداز میں کہی جاتی ہے کہ فوج کے رویے کی وجہ سے بھی نفرت میں اضافہ ہوا۔ جنگ سے بارہ سال پہلے سے یہاں فوج کی حکومت تھی، ملک کے حالات کی ذمہ داری بھی حکومتِ وقت پر ہی تھی، اگر مشرقی پاکستان میں یہ تاثر بہت شدت سے ابھرا کہ پاکستان کے وسائل کو مغربی پاکستان کھا رہا ہے، اور ’’اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بُو آتی ہے‘‘ ۔ اس تاثر کے سو فیصد ذمہ دار فوجی حکمران ہی تھے۔ دوسرا تاثر یہ ابھرا کہ فوج (جس کا مرکز مغربی پاکستان تھا) نے مشرقی پاکستان میں امن قائم کرنے کے نام پر مشرقی پاکستان کے عوام پر بے شمار مظالم ڈھائے ہیں۔ فوج پر اعتراضات کے بعد ایک فریق سیاست دان بھی تھے، کہ جنگ سے قبل ہونے والے الیکشن میں جو لوگ کامیاب ہوئے تھے وہ کسی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے، مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹیاں کامیاب ہوئی تھیں۔ جبکہ مجموعی طور پر شیخ مجیب الرحمان کی سیٹیں زیادہ تھیں، یوں اصل حکمرانی کا اصل حق انہی کا بنتا تھا، مگر مغربی پاکستان میں ’’اِدھر ہم، اُدھرتم‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ یوں علیحدگی کی بنیاد خود ہی رکھ دی گئی۔ بحث جاری ہے، اور جاری ہی رہے گی، کیونکہ اپنی غلطی ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ ایک اور فریق بھی ایسا تھا جس کا کردار جنگ میں اہم تھا، وہ جماعت اسلامی تھی، جس کے نوجوانوں نے ملک بچانے کے لئے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا، اگرچہ وہ فوجی حکومت کے خلاف تھے، مگر ملک کو متحد رکھنے کے لئے اس نے بہت قربانیاں دیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہونے کے ناطے اپنے والد کے معاہدے کو بھی توڑ کر اُن لوگوں کو پھانسیاں دے رہی ہے، جنہوں نے ملک بچانے کے لئے قربانیاں دیں۔

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472799 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.