میاں نواز شریف کے نا اہل ہونے کا چرچہ ابھی گلی گلی کوچہ
کوچہ ہوہی رہا تھا اور یہ کم ہونے والا بھی نہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان
کے دو مقدمات کے فیصلوں نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی، گویا بھونچال
آگیا۔خاص طور پر تحریک انصاف کے چاہنے والوں میں شادیانے اور نون لیگ کی
صفوں میں صف ماتم بچھ گئی۔نون لیگی درباری عمران خان کے ناٹ آؤٹ ہونے کو
اپنے لیڈر کی نا اہلی سے ملارہے ہیں اور اسے نہ انصافی سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ان کی انگلیاں عدالت عالیہ کی جانب بھی اٹھتی دیکھائی دے رہی
ہیں۔میاں نا اہل شریف کا فرمانا ہے کہ ’عمران کی آف شور کمپنی اثاثہ نہیں
میری خیالی تنخواہ اثاثہ بن گئی ، فیصلہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے ،
انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے ، اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے،
ہمارے لیے انصاف کے تقاضے کچھ اور ان کے لئے کچھ اور ، وزیر اعظم کو اقامے
پر نکال دیا جاتا ہے اور جو شخص اعتراف کرتا ہے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے ‘،
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد سے وہ مجھے کیوں نکالا ، تمہیں اس سے کیا بھئی
کی رٹ لگارہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو اسلام آباد میں کوئی
گریٹر پلان تیار ہوتا نظر آرہا ہے، جب کہ نون لیگی وزیر مملکت برائے
اطلاعات جو اپنے آپ کو نون لیگ کی صف اول کی سیاست داں اور سیاست کی عالم
فاضل تصور کرتی نظر آتی ہیں کی تو بات ہی کیا ہے انہیں از خود معلوم نہیں
ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں اور کیا کہنا چاہتی ہیں، نا اہل شریف کی
صاحبزادی جو مستقبل کی بے نظیر بننے کے خواب میں مبتلہ ہیں سوشل میڈیا کا
استعمال خوب خوب کرنا جانتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ صبح اٹھ کربریک فاسٹ بعد
میں پہلے ایک ٹوئیٹ بیڈ ٹی کے طور پر کرتی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے
میاں ثاقب نثار نے پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں اظہار
خیال کیا اس کے جواب میں محترمہ کا ٹوئیٹ کہتا ہے ’مائی لارڈ! آپ کا بابا
واٹس ایپ کالز بھی کیا کرتا تھا؟ آگے لکھتی ہیں کہ انصاف خود بولتا ہے ،
اسے کسی تشریح ، تفسیر ، تقریر یا اضافی نوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی‘۔ گویا
تقریر پر اعتراض، اضافی نوٹ لکھنے پر اعتراض ، کون ان خاتون کو سمجھائیں کہ
ان باتوں کا عمران کے ناٹ آٹ کے فیصلے اور آپ کے ابا جان کے آؤٹ یا نا اہل
ہونے کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے ، ممکن ہے کہ خاتون
مستقبل کی بے نظیر ہی بن جائیں۔ ہمارے ملک میں خاص طور پر سیاست میں کچھ
بھی ہوسکتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب پاکستان کے صدر وہ بھی پورے پانچ سال
خوش اسلوبی اور سیاست کی چالوں سے مکمل کرلیں گے کوئی سوچ سکتا ہے۔ اگر بے
نظیر دنیا سے نہ رخصت نہ ہوتیں تو کیا ملک میں یہ نوبت آتی۔ بے نظیر کی
پوری ازدواجی زندگی میں سابق صدر صاحب کی سیاسی زندگی کیا تھا؟ اُس سے قبل
کیا رہی ، اس بات کے امکانات دور دور نہیں تھے لیکن ایسا ہوا، وہ ملک کے
صدر بنے، اور اپنی مدت یعنی پانچ سال مکمل کر کے پاکستان کی تاریخ میں
ریکارڈ قائم کیا۔ دیگر لیگیوں کے بیانات کی تو بات ہی کیا کی جائے ، ایک سے
ایک بڑھ کر، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس
کوشش میں ہے کہ خراب سے خراب تر جملے کون استعمال کرتا ہے۔ حنیف عباسی ہوں
یا چودہری طلال، دانیال عزیز ہوں یا سعد رفیق، مریم اورنگ زیب ہوں ، عابد
شیر علی ہوں یا رانا ثناء اللہ سب ایک سے ایک بڑھ کر بیان بازی میں ، ایک
دوسرے پر سبقت لے جانے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اکثر تجزیہ نگار اس
جانب توجہ دلارہے ہیں یہاں تک کہ نون لیگی رہنما چوہدری نثار کا آج کا ہی
بیان دیکھ لیتے ہیں اور وہ اس قسم کی باتیں شروع ہی سے کہہ رہے ہیں ، ویسے
چوہدری صاحب میں بڑا ظرف ہے، وہ جس برداشت اور درگزر سے کام لے رہے ہیں،
جماعت میں انہیں کھڈے لائن بھی لگایا ہوا ہے وہ پھر بھی نواز شریف سے
روحانی طور پر چمٹے ہوئے ہیں، ان ہی کا دم بھر رہے ہیں، انہیں سچ اور حق کا
درس بھی دیتے ہیں، آج انہوں نے فرمایا ’’لیگیوں کے بیانات ملکی مفاد میں
نہیں، ہوش سے کام لینا ہوگا‘‘۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ اور کیا ہوں گے ۔
چودہری نثار کا کہنا ہے کہ ’’بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم اداروں سے تصادم کی
پالیسی پر عمل پیرا نہیں لیکن ہمارے بیانات محاذ آرائی اور تصادم کی کیفیت
پیدا کررہے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں،ان کا کہنا تھا کہ نون لیگ کو خود کو
بھی بے یقینی کے ماحول سے نکلنا ہوگا اور ملک کو بھی بے یقینی سے نکالنا
ہوگا، ان کاکہنا تھا کہ ’’میں بار بار کہہ چکا ہوں اگر ایک عدالت کے فیصلے
پر اطمینان نہیں تو دوسری عدالت سے انصاف مل سکتا ہے۔ حدیبیہ کیس کے فیصلے
کے بعد کیا یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوئی؟ مجھے نہیں معلوم کہ حدیبیہ کیس پر
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر ہم کیا کہیں گے، ملکی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر
ہمیں ’’جوش سے زیادہ ہوش‘‘ سے کام لینا ہوگا اور قوم کو ایک مثبت اور پر
امید راستے پر لگانا ہوگا‘‘۔ اب اس بیان کو نون لیگ کے نا اہل نواز شریف سے
لے کر چار چھ درباریوں کے بیانات ، انداز گفتگوکا موازنہ کریں کس قدر فرق،
اعتدال، میانہ روی، پاکستان سے انسیت و محبت نمایاں نظر آتی ہے۔ چودہدری
نثار آخر کب تک اس حوصلے اور برداشت کا مظاہرہ کریں گے ، خدشہ ہے کہ کہیں
نقطہ برداشت آخری حد کو نہ چھو لے اور وہ دل برداشتہ ہوکر میاں نا اہل شریف
اور ان کی جماعت کو داغ مُفارَقَت نہ دے جائیں اور اگر ایسا ہوا تو نون لیگ
کا بڑا نقصان ہوگا ، میاں نا اہل شریف کا مستقبل اب بھی کوئی روشن نہیں
چودہری نثار اگر مائنس ہوگئے تو نون لیگ کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
بات عمران خان کے ناٹ آؤٹ ہونے کی اور ان کی پارٹی کے سیکریٹری جنرل
جہانگیر ترین کے نا اہل ہونے کی تھی کہاں سے کہاں نکل گئی۔ عمران خان کے
کیس کا مقابلہ میاں نا اہل شریف کے کیس سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ وہ بالکل
الگ معاملاہے میاں صاحب پر کرپشن کا الزام جب کہ عمران خان پر کرپشن کا
الزام نہیں ۔ جہانگیر ترین پر جو الزام ثابت ہوا اس کی بنیاد پر عدالت نے
انہیں نا اہل کردیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ عمراں خان آف شور کمپنی کے
شیئر ہولڈر تھے نہ ڈائریکٹر، صرف فلیٹ کے مالک تھے جسے ایمنسٹی اسکیم کے
تحت انکم ٹیکس میں ظاہر کردیا، نیازی سروسز کو اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری
نہیں، بددیانتی ثابت نہیں ہوئی۔ اس لیے عمران خان کو کلین چٹ مل گئی وہ ناٹ
آؤٹ رہے۔ ان کے برعکس جہانگیر ترین آف شور کمپنی کے اصل مالک ، کاغذات
نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔ اس لیے انہیں بڑی عدالت
کے سامنے غلط بیانی کرنے، اثاثہ چھپانے اور غلط بیانی کرنے پر این
اے154لودھراں سے فوری طور پر نا اہل اور آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) و عوامی
نمائندگی کے قانون کی سیکشن 99(1)(f) کے تحت بددیانت قرار دے دیا گیا۔عمران
خان کا کیس میاں نا اہل شریف کے کیس سے بالکل مختلف اس طرح ہے کہ ان پر
کرپشن کے الزامات تھے جن پر نیب کو ریفرینس دائر کرنے کا حکم دیا گیا،
پاناما کیس میں ایسا اثاثہ سامانے آیا جو ظاہر نہیں کیا گیا تھا ، تاہم
عدالت نے قانونی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ فیصلہ کہتا ہے کہ عمران خان
کے خلاف مقدمہ آمدن سے زائد اثاثوں اور کرپشن کا نہیں ۔
سپریک کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب نے عدالتی فیصلے پر اپنا اضافی نوٹ بھی
تحریر کیا جسے سخت ریمارکس کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ’’ عمران خان کیس
کے حقائق نواز شریف کیس سے بہت مختلف ہیں عمران خان کے کیس کا موازنہ نواز
شریف کیس سے نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس فیصل عرب نے 13صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ
میں کہا کہ حقیقت یہ ہے نواز شریف 30سال میں کئی بار عوامی عہدیدار رہ چکے
ہیں، وہ وزیر خزانہ، وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان پر منی
لانڈرنگ کرپشن ذرائع سے زائد آمدن کے سنگین الزامات ہیں ، نواز شریف کیس
میں طے ہوا تھاا یسے شخص کا ایماندار ، شفاف اور اچھی ساکھ کا ہونا ضروری
ہے‘‘۔جسٹس فیصل عرب کا نوٹ عدلیہ کی آزادی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ کہ آج کی
عدلیہ 1999والی عدلیہ نہیں بلکہ یہ عدلیہ آزاد ہے اس پر کسی قسم کا دباؤ
نہیں ۔ اس بات کا اظہار چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنی حالیہ
تقریر میں بھی کیا جو بالکل درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
ہم پر دباؤڈالنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا، عدلیہ پر دباؤ ہے نہ کسی پلان
کا حصہ ہیں۔ دباؤ ہوتا تو حدیبیہ کا یہ فیصلہ نہ آتا، حلفیہ کہتا ہوں علم
نہیں تھا وہ فیصلہ بھی جمعہ کو آئیگا، فیصلہ خلاف آئے تو گالیاں نہ دیں،
سپریم کورٹ میں کوئی تقسیم نہیں ، تمام جج آزاد ہیں۔ جسٹس صاحب نے درست
فرمایا کہ وہ لوگ تبصرے کرتے ہیں جنہوں نے فیصلہ نہیں پڑھا ہوتا، ان کا
کہنا تھا کہ سیاسی گند عدالت کی لانڈری سے ختم ہو تو عام آدمی کے مقدمات کو
وقت دینگے‘۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے واضح بیان کے بعد عدالیہ
کے بارے میں جو غلط قسم کی گفتگو کی جارہی تھی اسے بند ہوجانا چاہیے۔ لیکن
اب ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ چیف جسٹس کو تقریر میں وضاحت کرنا چاہیے تھی
یا نہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں، جج نہیں لیکن
انداز یہ بتا رہا تھا کہ برداشت کی انتہا ہوچکی تھی۔ حکومت کو اپنی تمام تر
توجہ حکومت سازی پر دینی چاہیے، میاں نا اہل شریف اپنا کام کرتے رہیں،
عدالتوں میں اپنی صفائی ستھرائی دیتے رہیں ، حکومت کو آزادانہ طور پر امور
مملکت چلانے دیں۔ اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے کہ حکومت نون لیگ کی تو ہے
لیکن تمام تر اختیارات کا منبع میاں اہل شریف ہیں۔ اس طرح حکومت کی
کارکردگی متاثر ہورہی ہے اور یہ تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ حکومت امور مملکت
چلانے میں نا کام ہوچکی ہے اور اس کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں۔اگر ایسی صورت
حال پیش آجائے تو قبل از وقت انتخابات ہی آئینی اور جمہوری راستہ ہے جسے
اپنانے میں ہی ملک قوم اور جمہوریت کے بچاؤ ہے۔اگر آئینی وقانونی راستے کا
انتخاب نہ کیا گیا تو پھر غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو راستہ بنانے
کا موقع مل جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں ملک و قوم کو شدید نقصان ہوتا ہے ملک
کئی سال پیچھے چلاجاتا ہے۔ ہمارے حکمراں جیسے بھی ہیں اللہ انہیں نیک ہدایت
دے۔ (19دسمبر2017) |