یہودی یروشلم کو اپنا تین ہزار سالہ پرانا دارلخلافہ تصور
کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہویوں کے آبا و اجداد یہیں سے آئے تھے بیت
المقدس میں تقریباً نو لاکھ فلسطینی آباد ہیں جو مشرقی بیت المقدس کو اپنی
ریاست کا دارالخلافہ تصور کرتے ہیں۔ اس شہر میں مسجد اقصیٰ ہے اس شہر میں
مسیحیوں کے بھی کئی ایسے مقامات ہیں جن میں کلیسا اور مقبرے ہیں جن کو وہ
مقدس تصور کرتے ہیں۔
تمام عالم اسلام میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی
فیصلے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور بیشتر ممالک میں امن پسند
لوگوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف امریکی سفارتخانوں کے باہر احتجاجی
مظاہرے کئے اور اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی شرمناک و افسوسناک حرکت سے قرار دیا ہے ۔
اس مذموم حریت کے خلاف جہاں عرب لیگ اور او آئی سی کے خصوصی اجلاس طلب کئے
گئے وہاں ترکی اور ایران نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف سخت احتجاج کیا جبکہ دوسرے
مسلم ممالک نے بھی اس پر اپنا غم و غصہ ظاہر کیا اور تو اور خود امریکہ میں
بھی ٹرمپ کے اس اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے اور اسے بین
الاقوامی رائے عامہ کے خلاف تصور کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے منصوبے 1947ء کے تحت اس وقت کے اس علاقے پر قابض برطانیہ نے
فلسطین کو تین علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کیا تھا جن میں ایک یہودی ریاست،
ایک عرب اور ایک علیحدہ محصور علاقہ جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے، کو
اقوام متحدہ کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ اس پیشکش کو یہودیوں نے قبول کیا
لیکن عربوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 1948ء میں برطانیہ کی طرف سے
اس علاقے پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے بعد یہودیوں نے ایک علیحدہ ریاست
اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تھا ۔
یہودیوں کے اس اقدام کے بعد عرب ریاستوں اور فلسطینیوں نے جنگ کا آغاز کیا۔
بہرحال 1995ء میں امریکی کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی جس کی رو سے بیت
المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا جانا تھا اور یہ بھی فیصلہ کیا
گیا تھا کہ امریکی سفارتحانہ 31 مئی 1999ء تک بیت المقدس منتقل کیا جائے گا
تاہم یہ عمل متنازعہ ہونے کے باعث اس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا ،
لیکن ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی انتخابی مہم میں اس بات کا وعدہ کیا تھا
کہ جیت جانے کی صورت میں وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردے
گا، جس پر اس نے عمل شروع کیا۔ امریکہ کے اس اعلان پر اگرچہ پوری دنیا نے
زبردست احتجاج کیا، لیکن سوائے چند ایک ممالک کے کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو
کھل کر امریکہ کی مخالفت میں میدان میں اتر جائے۔
عرب تو مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اتحاد اور عرب دو متضاد تصورات ہیں،
اسی طرح دوسرے ملک زبانی زبانی کہہ تو رہے ہیں لیکن سوائے چند ایک کے کسی
میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس معاملے پر اپنے ہمنوا ملکوں کو اکٹھا کر کے
ان کو میدان کارزار میں لاتا۔ عرب لیگ یا او آئی سی کے لاکھ اجلاس منعقد
ہوں لیکن اس معاملے پر کچھ نہیں ہوسکتا ہے جب تک امریکہ پر زبردست عالمی
دباؤ نہیں بنایا جائے گا تب تک یروشلم کے معاملے پر کچھ نہیں ہوسکتا ہے
جیسا کہ آثار و قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو اس معاملے میں ایسے
ممالک کی تائید و حمایت حاصل ہے جو اس وقت سامنے آنے میں مصلحتوں سے کام لے
رہے ہیں، اگر امریکہ یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگا
تو دوسرے ملک بھی اس کی تقلید میں پیچھے نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ کوئی محتاج
تشریح حقیقت نہیں کہ واشنگٹن ہمیشہ منافقت کی چادر اوڑھے مشرق وسطٰی میں
زبانی کلامی صلح صفائی کا دم بھرتا رہا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس نے روزِ
اول سے جابر و قابض اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک کر فسلطین مسئلے کو جان بوجھ کر
پیچ در پیچ اُلجھایا، نتیجہ یہ کہ اتنا خون خرابہ اور جنگیں ہونے کے باوجود
اس مسئلے کا کوئی تصفیہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
یہ امریکی فارمولے’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘کا کمال ہی تھا، جس نے پہلے
الجیریا کے مسلم سالویشن فرنٹ اور بعد ازاں مصر میں اخوان المسلمین کی
عوامی حکومت کا تختہ پلٹا دیا۔ بہرکیف بیت المقدس کی حرمت و تقدس کو
نظرانداز کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے پر مسلمانوں کا برہم ہونا
اپنی جگہ، مگر معاملہ مذمتی بیانات، نعرہ بازیوں اور جذباتی تقریروں تک
محدو نہ رکھا جائے بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک موثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی
کا متقاضی ہے جب تک مسلمان آپس میں متحد نہیں ہونگے تب تک امریکہ اسی طرح
اپنی من مانیاں کرتا رہے گا ۔ |