حق بجانب

پاکستان میں موروثی سیاست کا تصور بڑا بختہ ہوہاہے۔آپ کسی بھی سیاسی جماعت کو اٹھا کر دیکھ لیں۔اول تو اس کی ٹاپ قیاد ت قریبا ایک ہی خاندان سے متعلقہ ہوگی۔یا کم ازکم نچلی سطح پر کہیں نہ کہیں کسی بڑے خاندان کی اجارہ داری ضرور نظر آئے گی۔مسلم لیگ ہو پیپلز پارٹی یا ان سے نکلے والے دھڑے آپ کو کوئی نہ کوئی فیملی دکھائی دے گی۔اگر کوئی سیاسی قائد موروثی سیاست کے خلاف کوئی شعلہ بیانیاں کرتانظر آتے تو سمجھ لیجیے کہ یا تو وہ اولاد نہیں رکھتا یا یہ اولاد ناخلف ہے۔اس قباحت کے سواکوئی دوجا سبب نہیں۔اگر یہ قائد مساوات۔اخلاقیات وغیر ہ کا ڈھنڈورہ پیٹنا ہے تویہ انگور کھٹے سے بڑھ کرکچھ نہیں۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں مریم نواز کو 2017ؑؑؑء میں دنیا کی11باہمت اور طاقتور خواتین میں شامل کیاہے۔جب کہ پاکستان کی خواتین میں ان کا نمبر پہلاہے۔انہیں اپنے والد کی دست راست قراردیتے ہوئے رپورٹ میں ان کا بڑا حوصلہ ان کی شہرت اور کامیابوں کا سبب قرار دیا گیا ہے۔اس رپورٹ کو دیکھ رکر لوگ ناک بھوں چڑائیں گے۔مگر زمینی حقائق اس رپورٹ کی تائید کررہے ہیں۔شیخ رشید اور اعتزاز احسن کی جانب سے مریم نواز کو لیکر نان سٹاپ منفی پراپیگنڈا کیا جاتارہا۔ الزام لگایا گیا کہ مریم نواز کوئی بھی عوامی عہدہ نہ ہونے کے باوجود اختیارات پر قابض ہیں۔کہا گیاکہ اپنے والد کی بیماری کے دوران غیر قانونی طور پر وہ کاروبار حکومت چلاتی رہیں۔

مریم نوازپرپارٹی کو موروثی پارٹی بنادیے جانے کا الزام بھی لگتارہا۔خاندان سے باہر تو مریم کی پارٹی معاملات میں مداخلت پر تشویش تھی ہی۔بد تدریج یہ عدم اطمنیان خاندان کے اندر بھی بڑھتا چلا گیا۔بڑے میاں جی او رچھوٹے میاں جی کے درمیاں انداز سیاست کاجداجدا رنگ مریم اور حمزہ میں عدم اتفاق کا سبب بنا۔شہبازشریف کی نظر میں سیاست بچے کھچے پر اکتفا کرنے کا نام ہے۔وہ سسٹم کے تابع رہ کر کام کرنے کا فلسفہ رکھتے ہیں۔بڑے میاں صاحب کا فلسفہ اس کے بالکل برعکس ہے۔وہ سسٹم کے نام پر کچھ لوگوں کو ریاست اور عوام کے وسائل پر قابض ہونے کو برداشت نہیں کررہے۔وہ قوم کو بچا کھچا نہیں پورے کا پورا دینے کی کوشش میں ہیں۔مریم نواز اپنے والد کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کے سبب عوامی توجہ مل رہی ہے۔عوام وسائل کی کچھ لوگوں میں بندر بانٹ سے بے زار ہے۔اس کی نظریں نوازشریف پر ٹکی ہوئی ہیں۔مریم صاحبہ اس مشکل وقت میں مسلسل اپنے والد کا ساتھ نبھارہی ہیں۔ان کا سب سے اہم رول حلقہ ایک سو بیس کا الیکشن تھے۔نوازشریف کو نااہل کروادیے جانے کے بعدپارٹی کی دیگر سہمی سہمی تھی۔کچھ آسانیاں عدلیہ نے یوں مہیا کردیں کہ انتخابی حلقوں میں کمپیئن میں بہت زیادہ پابندیاں عاید کردیں۔یہ پابندیاں ان لیگی رہنماؤں کے لیے غیبی امداد بن گئیں۔جو منظر عام سے غائب رہنے کے متمنی تھے۔تب شہبازشریف۔حمزہ شہباز سمیت کئی بڑے لیڈرا ن یا تو پاکستان سے باہر چلے گئے۔یا وطن میں رہتے ہوئے چپ ساادھے رہے۔کچھ لوگ تو چوہدری نثار کی طرح کھل کر نوازشریف اور مریم صاحبہ پر اعتراض بھی کرنے لگے۔ان کے انداز سیاست کو نامناسب قراردیاجانے لگا۔یہی وقت تھاجب مریم نے اپنے آپ کو منوایا۔تب انہوں نے غیرمعمولی تدبر اور جدوجہد دکھائی۔اگر اس الیکشن کو نوازشریف کے نام اورمریم کی محنت سے موسوم کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

مریم نواز کو پاکستان کی سب سے زیادہ باہمت اور طاقت ور خاتون قراردیا گیا ہے تو بے جانہیں۔وہ خود کو اس کی حق دار ثابت کرچکیں۔موروثی سیاست کا الزام لگانے والوں کو بھی انہوں نے خاموش کردیا۔میاں صاحب کی وہ اکلوتی اولاد نہیں مگر صرف مریم ہی نے اپنے والد کی تقلید کرنے کا فیصلہ کرکے یہ بتادیا کہ موروثی سیاست میں بھی کوئی اصول کارفرما ہوتاہے۔خالی رشتہ ہونا ہی کافی نہ ہوگا۔اس کے لیے گنوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس کے لیے رضامندی اور دلچسپی ہونا لازمی ہے۔مریم صاحبہ کی دوسری ہمشیرہ نے نظام سیاست سے بے رغبتی دکھائی۔یہی حال مریم نوازکے دونوں بھائیوں کا ہے۔ممکن ہے ان کے والد نے ان کی بے رغبتی دیکھ کر انہیں سیاست سے دور رہنے کا موقع دیا۔اب جو حالات شریف فیملی کو درپیش ہیں۔وہ حسن نواز اور حسین نواز کی طر ف سے سیاست سے بے زاری کو سچ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔شریف فیملی کو گاڈ فادر فیملی بنا کر دکھا یا جارہاہے۔حسن اور حسن کے لیے یہ بات عجب ہے۔عملا تو نوازشریف کے ہر دو ر اقتدار میں کرپشن اور غیرقانونی معاملات ان کی ہم عصر دوسری حکومتوں سے ہزار گنا کم رہے۔مگر نوازشریف کو پاکستان کی سب سے بڑی برائی قراردیے جانے کا رجحان دونوں کوناانصافی پر مبنی لگ رہاہے۔دونوں بیٹوں کی پاکستانی سیاست سے دلچسپی کم نہ ہونے کی درجنوں وجوہات ہیں۔جو عبرت ناک انجام ان کے والد کا ہورہاہے۔اس کے بعد ان دونوں کے لیے پاکستانی سیاست مذید ڈراؤنی بن چکی۔یہان مشرف جیسے سراپا آئین اور قانون شکن حکمران پر تو خاموشی رہی۔زردری دور جیسے بے ایمانی اور ٹھگ بازی کے دور پر تو آنکھیں موندی گئیں۔مگر نوازشریف دور میں سب نے تلواریں نکال لیں۔ اگر مریم کو پاکستان کی سب سے طاقت ور اور باہمت خاتون قراردیا جارہا ہے تو بے سبب نہیں اس وقت ملکی سیاست میدان خارزار بنی ہوئی ہے۔اس میں کودنا واقعی ہمت اور جوانمردی کا کام ہے۔اسی طرح اگر حسن اور حسن پاکستانی نظام سیاست سے بے زار ہیں تو وہ بھی بالکل حق بجانب ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.