آدھاسچ ابھی باقی ہے

ایک اہم لیگی ذریعے نے اس افسوسناک سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایاہے کہ نوازشریف کی برطرفی کے بعدحکومت پے در پے بحرانوں کا شکار ہونے لگی جس سے قیادت کو یہ خدشات لاحق ہوگئے کہ نہ صرف حکومت کی مدت پوری نہیں ہوگی بلکہ ٹیکنوکریٹ حکومت بناکر تین برس کیلئے انتخابات ملتوی کردیئے جائیں گے اوران تین برسوں میں نوازلیگ کی عوامی حمائت چھین کرٹکڑے ٹکڑے کردی جائے گی اوراس کابڑا حصہ تحریک انصاف کے حوالے کردیا جائے گا۔اسی باوثوق ذریعہ کے بقول نوازشریف کی برطرفی کے بعدان کی اجازت اور مشورے سے نوجوان لیگی وزراء اور لیگی رہنماؤں کامختصرگروپ کویہ ذمہ داری سونپ گئی کہ وہ یورپی یونین کے سفارت خانوں کادورۂ کرکے انہیں اس بات پرآمادہ کریں کہ وہ حکومت کوبچانے میں اپنابھرپورکرداراداکریں۔انوشہ رحمان سمیت بعض ان اہم دیگرافراداس ذمہ داری کواداکرنے کیلئے منتخب کئے گئے جن کا تعلق مریم نوازسے ہے ۔ لیگی وزراء نے برطانیہ سمیت یورپی یونین اورامریکی سفارتکاروں سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کی کہ شریف خاندان کواس مشکل گھڑی سے نجات دلائی جائے،اگلے انتخابات وقت پرمنعقد ہوں اوراگلے انتخابات میں نوازلیگ کی حکومت بننے دی جائے اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں،اوریہ کہ پاکستانی سیاست اور انتظامی فیصلوں میں فوج کے کردارکوکم کرنے میں مددکی جائے۔ذرائع کے مطابق اس درخواست کے جواب میں یورپی یونین اوربالخصوص برطانیہ نے حوصلہ افزاجواب دیااور ہرطرح کی مددکرنے کاوعدہ کیاتاہم اس کے عوض انہوں نے چندشرائط حکومت کے سامنے رکھیں جن میں سب سے اہم شرط قادیانیوں کے حوالے سے آئینی پابندیوں میں نرمی کی تھی اوراس معاملے میں برطانیہ سب سے زیادہ دلچسپی لے رہاتھا۔
یونین کے سفارتکاروں سے ہونے والی ملاقاتوں کااحوال مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کودیاجاتارہا۔ملاقات کرنے والے لیگی وزراء نے یہ تجویزپیش کی کہ نااہل پارٹی کے صدرکوآئینی تحفظ دینے کیلئے کی جانے والی کوششوں کے پردے میں قادیانیوں کے حوالے سے شقوں میں بھی ایسی خاموش اور یک لفظی ترمیم کرادی جائیں جوسیاسی ہنگامہ خیزی کے بھڑکتے الاؤ کی تپش میں کسی کونظر نہ آئیں۔اس کام کیلئے بیرسٹرظفراللہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ۔ انہوں نے ہی ترمیم شدہ آئینی مسودہ سابق وزیرقانون زاہدحامدکے حوالے کیا۔ذریعے کے بقول قادیانیوں والی ترمیم سے زاہدحامدبخوبی واقف تھے۔ان کا یہ کہناسراسرغلط ہے کہ ان کی نظرسے یہ ترمیم نہیں گزری۔سینیٹ میں منظوری سے قبل راجہ ظفرالحق نے اس تبدیلی کی طرف ان کی توجہ دلائی تھی لیکن زاہدحامدنے اسے مزاق میں اڑادیا تھا۔ترمیم منظورہونے کے بعداس سارے منصوبے میں شامل ایک خاتون وزیرنے فوراًیورپی یونین اوردیگرمتعلقہ ممالک کے سفارتخانوں کومطلع کیاکہ ان کی سب سے بڑی شرط کوپوراکردیاگیاہے اب وعدے کے مطابق وہ بقیہ کام پورا کریں۔
لیگی ذریعے نے یہ بھی بتایاکہ یورپی یونین اورحکومتی ٹیم میں مکمل اتفاق رائے کے بعدیونین کی جانب سے قومی اداروں کومسلسل یہ پیغام موصول ہونے شروع ہوگئے کہ امریکا ، برطانیہ اوریورپی یونین پاکستان میں جمہوری حکومت کے خاتمے یاالیکشن میں تاخیرکوپسندنہیں کریں گے لہندااس حوالے سے ان سے کسی حمائت یامددکی توقع نہ رکھی جائے،یہاں تک کہاگیاکہ اگرجمہوری حکومت کی جگہ کسی نگراں حکومت کوطول دیاگیاتو پاکستان کے ساتھ اقتصادی، معاشی ،سماجی منصوبوں اورویزہ تعلقات پرفوری نظرثانی کی جاسکتی ہے۔اس دباؤ کے بعدہی تین برس کیلئے نگراںحکومت کاآئیڈیا بیک شیلف میں ڈال دیاگیا۔ ذریعے نےانکشاف کیاکہ ممتازقادری کوپھانسی دینے کامطالبہ بھی یورپی یونین اوربرطانیہ کی جانب سے آیاتھااوراس کے بدلے نواز حکومت کوکئی معاملات میں رعائت ملی تھی۔

ذریعے نے انکشاف کیاکہ جب آئینی نقب زنی کی کوشش ناکام ہوگئی تونوازشریف نے راجہ ظفرالحق کی نگرانی میں ایک کمیٹی کااعلان کیا،اس کا مقصد دینی حلقوں میں راجہ ظفرالحق کی نیک نامی کواپنے لئے ڈھال بناناتھااوران حلقوں کو یہ تاثر دیناتھاکہ نوازشریف اس سارے معاملے سے لاعلم تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے فیصلے ان کے علم سے ہورہے تھے اور کمیٹی کاقیام محض دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ذریعے نے بتایاکہ راجہ کمیٹی کے ذمے اگرچہ نقب زنوں کوتعین تھالیکن اندرون خانہ میاں برادران راجہ ظفرالحق پرمسلسل دباؤ بڑھارہے تھے کہ وہ اپنی رپورٹ میں کسی ذمہ دارکانام نہ ڈالیں ۔یوں راجہ ظفر الحق دوطرفہ دباؤ میں تھے ،ان پردینی حلقوں کابھی دباؤتھاکہ وہ ذمہ داران کا صاف اورواضح تعین کریں تاکہ ان کی نیک نامی ،ساکھ اوردینی غیرت پرحرف نہ آئے ۔

ذریعے کے مطابق شہبازشریف کوبھی اس معاملے سے الگ نہیں رکھاجاسکتا اگرچہ بظاہر انہوں نے خودکواس مسئلے سے الگ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ذریعے کے مطابقممتازقادری کوپھانسی دیئے جانے کے بعدایک نجی گفتگو میں نوازشریف نے اس پھانسی کاذمہ دارشہبازشریف کو ٹھہرایا تھا۔اس وقت ان کے پاس عرفان صدیقی اوراحسن اقبال بھی موجودتھے۔ذریعے نے انکشاف کیا کہ ۱۹۹۷ءمیں جب نواز شریف جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تھے اورراجہ ظفرالحق مذہبی امورکے وزیرتھے،تب نوازشریف نے اسحاق ڈارکوراجہ ظفر الحق کے پاس بھیجا تھا۔ اسحاق ڈار نے راجہ ظفرالحق کے سامنے یہ تجویزرکھی تھی کہ اگرآئین سے قادیانیوں کوکافرقراردینے والی شقوں میں تبدیلی کردی جائے تومغربی ممالک اورعالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے سارے قرض معاف کردیں گے۔ خوداسحاق ڈار اورنوازشریف اس تجویزکے حامی تھے لیکن وہ دینی حلقوں سے خوفزدہ تھے،اس لئے راجہ ظفرالحق سے مشورہ لیناچاہتے تھے۔اگرراجہ ظفرالحق مان جاتے تودینی جماعتوں کوکنٹرول میں رکھنے کی ذمہ داری انہی کو سونپ دی جاتی اوربعدمیں اگربات بگڑجاتی توساراملبہ راجہ ظفرالحق پرگرادیاجاتا۔راجہ ظفرالحق یہ سب کچھ بھانپ گئے اورانہوں نے سختی سے اسحاق ڈارکوجواب دیا کہ میاں صاحب کوبتادیں کہ اگرآپ نے ایسا کیاتونہ پھر آپ رہیں گے نہ ہم، ایسا طوفان آئے گاکہ سب بری طرح غرق ہوجائیں گے۔اسحاق ڈارمایوس ہوکر واپس چلے گئے ۔چنددن بعد کابینہ کااجلاس ہواتودرمیانی وقفے میں نوازشریف نے اسحاق ڈاراورراجہ ظفرالحق کوبلایا۔ تب نواز شریف نے اسحاق ڈارسے پنجابی میں پوچھاکہ آپ کی راجہ صاحب سے بات ہوگئی تواسحاق ڈارنے پنجابی میں جواب دیا:جی ہوگئی مگر راجہ صاحب توہاتھ رکھنے ہی نہیں دیتے۔اس پرنواز شریف نے ٹھنڈی سانس بھرکرکہا''اچھا''اورخاموش ہوگئے۔

ذریعے کے بقول نوازشریف کاذہن شروع سے قادیانیوں کے بارے میں خاصا لچکداررہاہے اسی لئے کبھی وہ انہیں اپنا بھائی قراردیتے ہیں اورکبھی ممتاز قادری کوپھانسی دے دیتے ہیں۔اسی سوچ کانتیجہ ہے کہ سوشل میڈیاپرگستاخانِ رسول کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی کیونکہ برطانیہ ،یورپی یونین اور امریکاکاروائی کے خلاف تھے اورنوازشریف ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے تھے۔ایک سوال کے جواب میں ذریعے کاکہناتھاکہ جسٹس شوکت صدیقی نے آدھاسچ بولا ہے،وہ انوشے رحمان تک توپہنچ گئے لیکن ان کے پیچھے کون لوگ تھے،ان کی نشاندہی سے قاصررہے۔لیگی ذریعے کے بقول فرض کرلیں کہ تحریک لبیک کے دھرنے کے پیچھے کوئی اورتھا،توبھی یہ موقع کس نے دیا؟ ظاہرہے نوازشریف حکومت نے۔ کس نے کہاتھاکہ آئین میں نقب لگاکرقادیانیوں کی حمائت میں ترمیم کرو؟یہ توکسی ادارے نہیں کیاتھا،یہ کام توخودحکومت نے کیاتھااورجب وہ اپنے پھیلائے ہوئے جال میں خودپھنس گئی توالزام تراشی پراتر آئی۔لیگی ذریعے کے بقول دھرنے کے حوالے سے حکومت کی بے خبری کایہ عالم تھاکہ اسے جاننے میں دس دن لگ گئے کہ دھرنے کے پیچھے کوئی دوسری طاقت نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاًختم نبوت کے تحفظ پردیاگیادھرناہے ورنہ شروع کے دس دنوں میں ساری قیادت نے اس پر یقین کررکھاتھاکہ دھرناکسی طاقت کے کہنے پرشروع ہواہے لہندااس کے سامنے جھکنانہیں ہے بلکہ پوری طاقت سے کھڑے رہناہے تاکہ کمزوری کا تاثرنہ جائے لیکن دس دن بعدحکومت کوپتہ چلاکہ معاملہ وہ نہیں جووہ سمجھ رہی ہے لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکاتھا۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.