ٹرمپ اور مودی : رام ملائی جوڑی

ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی دو عظیم جمہوریتوں کے مہان سپوت ہیں۔ ان دونوں پر جمہوریت کی دیوی بہت مہربان ہے ۔یہ انتخابات میں غیر متوقع طور پر زبردست کامیابی درج کراچکے ہیں ۔ یہ ہم مزاج اور یکساں طبیعت کے حامل ہیں۔ انہیں رعونت، تلوّن مزاجی ، کذب بیانی ، شدت پسندی اور مسلم دشنین نے ایک جان دوقلب بنادیا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کی مشابہت کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ایک جیسے حالات سے دوچار ہوجاتے ہیں اور ان سے نکلنے کے لیےایک جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ حال میں ایک کے سامنے گجرات اور دوسرے کے آگے الابامہ کا انتخاب تھا۔ عرصہ دراز سے یہ علاقے بی جے پی اور ریپبلکن کے گڑھ مانے جاتے تھے لیکن دیکھتے دیکھتے ان دونوں کی حالت پتلی ہوگئی ۔ ایسے میں مودی جی کورام مندر کی یاد آئی تو ٹرمپ صاحب کے اندر اسرائیل کی محبت جاگی ۔ ایک کوگجرات کی سیاست میں پاکستان کی مداخلت نظر آئی اوردوسرے نے شمالی کوریا کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی ۔حالات مزید خراب ہوئےتواحمد پٹیل کی آڑ میںمودیفرقہ پرستی کی سیاست کرنے لگےاورٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرلیا لیکن الابامہ میں ٹرمپ کی شکست گواہ ہے کہ یہ حربے ہمیشہ کارگر ثابت نہیں ہوتے ۔

مودی کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال چہار جانب سے مشکلات میں گھرے ہوے ہیں ۔ یہاں نوٹ بندی،جی ایس ٹی، گئورکشکوں اور گجرات کا عفریت پھن کھولے کھڑا ہے تو وہاں داخلی سیاست میں الابامہ سینیٹ کا انتخاب اورخارجہ پالیسی کےمحاذ پرٹرمپ کی ہر دھمکی کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے والاسخت گیر شمالی کوریا کاصدر کم جونگ ہے ۔اس کے علاوہ ٹرمپ کی اپنی ذات پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات اوران سب کے نتیجے میں مقبولیت کی روز افزوں گراوٹ نے ان کی نیند اڑا رکھی ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ترپ کا پتاّ ڈالتے ہوئےالابامہ کی ووٹنگ سے قبل یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلیا اور سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادی کی خلاف ورزی کرتے ہوئےٹرمپ نے ۲۲ سالہ روایت سے انحراف کرکے ناکامیوں کے اوپر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کی لیکن اس میں بری طرح ناکام رہے۔ قدامت پسند ریپبلکن کے گڑھ الابامہ میں ۲۵ سال بعد ڈیموکریٹ امیدوار کامیاب ہوگیااور ہیلری کلنٹن کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اگر ہم وہاں جیت سکتے ہیں تو کہیں بھی ٹرمپ کو ہرا سکتے ہیں۔ گجرات کے انتخابی نتائج کے بعد ممکن ہے راہل کو بھی یہی کہتے سنا جائے۔

ری پبلکن سینیٹر جیف سیشنز کے ٹرمپ کی کابینہ میں اٹارنی جنرل کا عہدہ قبول کرنے کے نتیجے میںیہ نشست خالی ہوئی تھی۔اس پر ڈیموکریٹ کی کامیابی کے بعد ۱۰۰ رکنی سینیٹ میں ری پبلکن کیتعداد۵۱ ہوگئی ہے اور ڈیموکریٹس کی تعداد ۴۹ ہوجائے گی۔یہ انتخاب ٹرمپ کا امتحان تھا اکیونکہ وہ جنسی بے راہ روی کے الزامات کا شکاررائے مور کی حمایت کررہے تھے ۔الابامہ میں انتخابی مہم کے دوران اس وقت رائے دہندگان کو شدید دھچکا لگا جب متعدد خواتین نے ریپبلکن امیدوار پر نازیبا حرکات کا الزام لگایا۔ اس کے بعد پارٹی کے کئی ممتاز رہنماؤں نے امیدوار کی تبدیلی کا مطالبہ کیا مگر ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے مور کی حمایت کردی ۔ سوال یہ ہے کہ امریکی صدر نے ایک ایسے امیدوار کی حمایت کیوں جس پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود ٹرمپ بھی اسی طرح کے الزامات سے جوجھ رہے ہیں۔ شاید وہ جاننا چاہتے تھے کہ عوام اس معاملے کو کتنا اہمیت دیتے ہیں یا یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ خود ان کی اپنی نگاہ میں خواتین کے عصمت و وقار کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

الابامہ میں ٹرمپ کے ذریعہ رائے مور کی پشت پناہی سے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر می ٹو (Me Too) ’میں بھی‘ کے نام سے جاری بحث کا رخ پھر سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب مڑگیا۔ اس سے قبل صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ۱۶ خواتین نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ سابق ملکہ حسن سامانتھا ہولوی نے دعویٰ کیا تھا کہ ؁۲۰۰۶ میں مس امریکا کے مقابلہ حسن کے دوران ٹرمپ نے انہیں اور دیگر لڑکیوں کو ہوس بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ اس بارریچل کروک نے الزام لگایاہے کہ ان کی رضامندی کے بغیر ان کو بوسہ دیا تھا اور ساتھ ہی کانگریس سے مطالبہ کیا کہ جماعتی وفاداری (عصبیت) سے اوپر اٹھ کرامریکی کانگریس پارٹی صدر کے جنسی رویہ کی تفتیش کرے۔اس مطالبے کی حمایت میں کانگریس (ایوانِ زیریں ) کی ۵۰ خواتین اور ۳ مرد قانون سازوں نے ٹرمپ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

جنسی ہراسانی کے معاملے میں مینیسوٹاسےڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر سین فرانکین استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف تفتیش سےکترا رہے ہیں بلکہ ڈھٹائی سے اس کو مسترد کرتے ہیں ۔ یہ ستم ظریفی ہےخود کو حقوق نسواں کا سرخیل بتانے والےامریکہ میں قصر ابیض کی پریس سیکریٹری سارہ ہکابی سینڈرز بھی اپنی برادری سے غداری کرتے ہوئے حق نمک ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ وہ بھی تمام شواہد کو نظر انداز کرکے ٹرمپ پر لگے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں ۔انہوں نے اس معاملے میں نظام جمہوریت کی سب سے کمزور کڑی کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا ان دعووں کا فیصلہ انتخابات والے دن پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں آچکا تھا گویا سیاستدانوں کے سارے پاپ انتخاب کی گنگا میں ڈبکی لگا کر پار نکلنے سے دھل جاتے ہیں ۔ نریندر مودی بھی ؁۲۰۰۲ میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہی بولی بولتے تھے۔

پاکستان جس طرح مودی جی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے اسی طرح شمالی کوریا نے ڈونالڈٹرمپکے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ مودی کبھی تو اپنی حلف برداری میں نواز شریف کو دعوت دیتے ہیں تو کبھی پاکتالن کو دہشت گرد قرار دے کر جنگ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں ۔ جب جی میں آتا ہے بن بلائے لاہور پہنچ جاتے اور جب من کرتا ہے سرجیکل اسٹرئیک کا ڈرامہ کردیتےہیں ۔ شمالی کوریا کے حوالے سے امریکہ میںبھی یہی کھیل چل رہا ہے۔ ماہِ اکتوبر میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے شمالی کوریا کے لیڈر سے مذاکرات کی کوشش کو وقت کی بربادی قراردے دیا اور دسمبر غیر مشروط گفتگو کی پیشکش کردی۔ اس دوران جوتبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان پر نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ پہلے تو مودی کی طرح عامیانہ لہجے میں ٹرمپ نےکمجونگ کو ''لٹلراکٹمین'' کےلقبسےنوازدیا۔ اس کے جواب میں شمالی کوریا کا میڈیا پر ٹرمپ کو ’بوڑھا پاگل‘ قرار دے د یا، پھر ٹرمپ نےاستہزائیہ انداز میں ٹویٹ کیا کہ کِم جونگ نے انہیں بوڑھا کہہ کر ان کی بے عزتی کی حالانکہ انہوں نے کبھی بھی شمالی کوریا کےرہنما کو موٹا اور چھوٹا نہیں کہا ہے۔ ٹرمپ کے اس گھٹیا جملہ بازی پر تو ممکن مودی جی بھی شرمندہ ہوجائیں ۔

امریکہ کی گیدڑ بھپکی کو ٹھکرا کر نومبرکےآخرمیںپیانگیانگ نے میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد دعویٰکیا کہابپوراامریکہاس کے جوہری حملے کی دست رس میں ہے۔ نومبر کے اواخر میں امریکہ نے بات چیت سے مایوس ہوکر شمالی کوریا کو دہشت گرد ریاست قرار دے کر اس کے خلاف مزیدپابندیوں کا اعلان کردیا ۔امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا کہ یہ کام بہت برسوں پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔کیونکہ شمالی کوریا دہشت گردی کی معاونت کررہا ہے اور ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دے رہاہے۔اقوام متحدہ میں ٹرمپ نے دھمکی دی کہ امریکہ یا اس کے حلیفوں کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ شمالی کوریا کونیست نابود کردیں گے ۔ اس کے جواب میں شمالی کوریا کے وزیرخارجہ ری یونگ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے دروازے پر کہا ’’یہ تو کتے کے بھونکنے جیسا ہے۔ مثل مشہور ہے کتوں کے بھونکنے کے باوجود قافلہ گذر جاتا ۔ وہ اگر کتوں کی مانند بھونک کر ہمیں مرعوب کرنا چاہتا ہے تو یقیناً خواب دیکھ رہا ہے‘‘۔ جس جنوبی کوریا کی خاطر یہ دھمکی دی گئی اس نے امریکہ کی مرضی کے خلاف اپنے پڑوسی کی امداد کا اعلان کردیا ۔

شمالی کوریا کے اوپر سے ؁۲۰۰۸ میں جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے پابندی اٹھا لی تھی۔ ٹیلرسن نے الزام لگایا کہ شمالی کوریا اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے جوہری اسلحے کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔پیانگ یانگ نے اپنے میزائل پروگرام کے منصوبے کو راز میں بھی نہیں رکھا کہ وہ ایسا میزائل بنانا چاہتا ہے جو امریکہ کی سرزمین کو نشانہ بنا سکے اور یہ کہ اس نے ہائیڈروجن بم تیار کر لیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے سے ایٹمی جنگ کے بادل منڈلانے لگے لیکن امریکی اسٹریٹجک کمانڈ کے سربراہ جنرل جان ہائیٹن نے ٹرمپ اور ٹلرسن کی ہوا نکال دی۔ انہوں نے برملا کہا کہ اگر امریکی صدر نے کسی بھی ملک کے خلاف ایٹمی حملے کا ’’غیر قانونی‘‘ حکم دیا تو وہ اس کے خلاف نہ صرف مزاحمت کریں گے بلکہ انہیں قائل کریں گے کہ وہ مسئلے کا حل نکالنے کیلئے دیگر متبادل پر غور کریں۔

جنرل جان ہائیٹن نے کہا کہ بحیثیت کمانڈر ان کا کام صدر کو مشورہ دینا ہے اور اگر صدر انہیں کوئی غیر قانونی کام کرنے کو کہیں تو وہ اسے صاف غیر قانونی کہہ دیں گے ۔انہوں صدر کو یاد دلایا کہ ایٹمی حملے کی ہدایات جاری کرنے سے قبلصدرمملکت لازما ًسوچیں کہ آیا واقعی ایٹمی حملے کی ضرورت ہے؟ اس سے کیا اثرات پڑیں گے گا ؟ اور کہیں اس حملے سے غیر ضروری اذیت ناک صورتحال تو پیدا نہیں ہوجائے گی؟یہ بیان دراصل حکم عدولی کے مترادف ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقتوں کےسبب ان کی مقبولیت کی شرح پہلے سال کے اندر۳۲ فیصد تک گر گئی نیز ۴۰ فیصد عوام نے ان طریقہ کار کو مایوس کن قرار دے دیا ہے ۔اس پس منظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کا ناعاقبت اندیش فیصلہ کیا ۔
اس فیصلے کے پس پشت داخلی دباو اورخارجی مفادات کارفرما ہیں۔ سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ کمیوں اور خامیوں کی جانب سے توجہ ہٹتی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں موجود یہودی کسی قدر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے سفید فام عیسائیوں کو ان کی محرومی کا احساس دلا کر تارکین وطن کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکائے۔ اس کا نشانہ ایشیائی اور افریقی نسل کے لوگ بنے ۔ یہ نفرت یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے فیصلوں کی مخالفت میں مسلمانوں کے ساتھ غیر صہیونی یہودی بھی پیش پیش رہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے بعدمسلمان اور یہودی دونوں امریکی انتہا پسند عیسائیوں کے تشددکا شکار ہوئے۔ یروشلم کے فیصلے نے یہودیوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ اس سے ٹرمپ کو چندہ دینے والے یہودی سرمایہ داروں کی باچھیں کھل گئیں جن کی بڑی تعداد صہیونی ہے۔ عیسائیوں میں اوینجلک نام کا انتہا پسند طبقہ بھی ٹرمپ کا حامی ہوگیا ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ یروشلم کے اسرائیلی قبضے میں چلے جانے کے بعد ہی عیسیٰ ؑ کا ظہور ہوگا اور وہ دجال کا خاتمہ کریں گے۔ اس طرح ٹرمپ نے ایک قلیل اقلیت میںاپنی مقبولیت کو بڑھانے کے عوض ساری دنیا کو ناراض کردیا۔

ٹرمپ کے اس فیصلے سے عالم اسلام میں غم غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر اتر آئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی) کےاعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکہ ازخود مشرقوسطیٰ میں امنکے قیام کی سعی سے سبکدوش ہوگیاہے۔ ایک قرار داد میں ۵۰سے زائد مسلم ممالک کےسربراہوں اور وزراء نے مشرقی یروشلم کو فلسطین کی ریاست کا دارالحکومت قراردیا۔ ان لوگوں نے دیگر ہم خیال ممالک کو بھی ریاستِ فلسطین اور مشرقی یروشلم کو اس کی مقبوضہ دارالحکومت تسلیم کرنے کی دعوت دی ۔ یوروپی اور افریقی یونین بھی چونکہ ٹرمپ کے مخالف ہیں اس لیے ممکن ہے کچھ ممالک اس دعوت پر لبیک کہیں لیکن جب تک اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا اس وقت تک زمینی حقائق نہیں بدلیں گے۔

اسرائیل کے قیام کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ یوروپ یہودیوں سے نالاں تھا اور وہ اس ملک میں انہیں روانہ کرکے چھٹکارہ پانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ روس اور دیگر یوروپی ممالک نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو فوراً تسلیم کرلیا۔ اسی تا ظر میں اوبامہ نے اسرائیل کو یہودیوں کا پناہ گزین کیمپ قرار دیا تھا ۔ امریکہ کے لیے اس کی حیثیت اپنی ایک نوآبادیات کی سی ہے۔ اس لیے وہ اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کی خاطراسرائیل کی مالی و حربی مدد کرتے ہوئےبظاہر ایک معتدل فریق کا ڈھونگ بھی کرتا رہا۔ اس کی ا یک وجہ تو یہ تھی اسرائیل کے ہمسایہ شام ، عراق اور مصر سوویت بلاک میں شامل تھے۔ امریکہ ان ممالک کی عوام کو اپنا ہمدرد بنائے رکھنا چاہتا تھا۔ سویت یونین کے خاتمہ کے بعد جب یہ مجبوری ختم ہوئی تو امریکہ کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس نے سفارتخانہ منتقل کرنے کا فیصلہ تو کیا مگر عملدرآمد ٹالتا رہا کیونکہ تیل کے لیے وہ عربوں پر منحصر تھا ۔ اب وہ خودکفیل ہوگیا ہے ۔ عربوں میں وہ دم خم بھی نہیں ہے کہ تیل کی فراہمی بند کرسکیں اس لیے ۲۲ سالوں تک ٹلنے والے فیصلے کا نفاذ کی گھڑی آگئی ۔

اس صورتحال کی بنیادی وجہ امت مسلمہ نہیں بلکہ اس پر مسلط حکمراں ہیں ۔ مصر ، عراق اورشام جیسے طاقتور ممالک کے بے دین حکمرانوں نے اپنے اپنے ممالک کی دین پسندتحریکوں کو کچلامگر اسرائیل کے آگے پسپا ہو گئے۔ اسلامی تحریکات کوجوممالک پہلے بے ضرر سمجھتے تھے عرب بہار کے بعد وہ بھی اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلامی تحریکات کے دشمن بن گئے۔ اب وہ بھی اسی انجام کی جانب بڑھنے لگے ہیں جو بعث حکمرانوں کا ہوا تھا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کو نہ تو سوویت یونین کے ہمنواوں پر اعتماد تھا اور نہ امریکہ کے غلاموں پر ہے۔ امریکہ نے اپنے اس اقدام سے اپنے سارے ہمنواوں کی لٹیا ڈبودی ہے۔ اس کے بعد جوسیاسی خلفشار برپا ہوگا اس میں سے مسلم دنیا کے اندر ترکی جیسا انقلاب آئےگاجس کے نتیجے میں جلد یا بہ دیر اسرائیل کا ناسور جسد امت سے نکال پھینکا جائے گا۔امن عالم کی خاطر صہیونیت اور فسطائیت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ یہ باطل افکار ونظریات اور ان کے پروردہ مودی اور ٹرمپ بظاہر ناقابلِ تسخیر نظر آتے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ جیسے الابامہ میں ہوا یا گجرات میں ہورہا ہےاسی طرح کے عبرتناک انجام سے یہ ہمیشہ دوچار ہوئے ہیں ۔ان کو دوام حاصل نہیں ہوتا۔التح کے مقابلے حماس کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بے دین قیادت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ امید ہے حقیقی آزادی کا اسلامی سورج فلسطین کے لیے آزادی کا پیغام لائے گااور بیت المقدس کی بازیابی بھی ہوگی۔ بقول علامہ اقبال ؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ تو حید سے

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230424 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.