نیب کے پاس پیسے کی کمی نہیں، کیونکہ وہ اکثر
ملزمان (نادہندگان) سے پیسہ نچوڑتا ہی رہتا ہے، جس نے ایک ارب کی کرپشن کی
وہ ایک آدھ کروڑ جمع کروائے اور رہائی پائے، باقی بعد میں آسان اقساط کی
صورت میں دیکھا جائے گا، یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ اقساط ادا بھی کرنا ہیں،
ماحول ساز گار ہو جائے تو باقی رقم ہضم بھی کی جاسکتی ہے، بس ذرا معدہ
مضبوط ہونا چاہیے۔ نیب کے پاس پیسے ہیں تو ان کے استعمال کی منصوبہ بندی
بھی ہوتی ہوگی، آخر قومی خزانہ بھی خالی ہی رہتا ہے، اس کو بھرنے کے لئے
بھی نیب سے مدد لی جاتی ہوگی۔ ہمیں نیب کے پیسوں کا خیال عدالتِ عظمیٰ کے
ان ریمارکس پڑھ کر آیا جس میں ایک معزز جج نے کہا ہے کہ ’’․․ لوگ گرفتار
ہوتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں، نیب کو چاہیے ہسپتال بنائے، جہاں اس قسم کے
لوگوں کا علاج کروائے۔ روایت بن گئی ہے کہ میڈیکل بورڈ نے بھی ملزمان کی
حمایت شروع کردی ہے ․․․ قانون بیمار لوگوں کو ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت
دیتا ہے، لیکن لوگ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں ․․․‘‘۔
ملزمان کے بیمار ہونے کی روایت نئی نہیں، یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
حکومتیں اپنے مخالفین کو مختلف حیلے بہانوں سے سرکاری مہمان بناتی آئی ہیں۔
مگر بھلے وقتوں میں جیل جانے والے خوشی سے جاتے تھے اور واپس آنے تک لیڈر
بن چکے ہوتے تھے، بسا اوقات جیل ہی سیاستدانوں کو لیڈر بناتی تھی، جتنی جیل
کاٹی ہوتی ہے ، وہ کریڈٹ میں جاتی ہے۔ مگر اب ایسا کم ہوتا ہے، کرپشن کے
نام پر جیل جانے والے اور حکومت کی مخالفت میں جیل جانے والوں میں بہت فرق
ہے۔ بہت سے باوسیلہ قیدی جیل کی بیرکوں میں رہنے کی بجائے جیل ہی کے ہسپتال
میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی قیدی حکومت کی خصوصی نگاہ میں ہے، اور اس کا معاملہ
قومی اور ملکی اہمیت کا حامل ہے تو الگ بات ہے، ورنہ عام وی آئی پی قیدی
جیل بعد میں جاتے ہیں، ان کے لئے بیماری کا انتخاب پہلے ہو جاتا ہے، کہ کس
بیماری کو جواز بنا کر کس ہسپتال میں داخل ہونا ہے، زیادہ وی آئی پی قیدی
تو اپنے اثرورسوخ استعمال کر کے علاج کی غرض سے بیرونِ ملک بھی تشریف لے
جاتے ہیں، اگر وہ زیادہ طاقتور ہوں تو واپس آنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی،
کیونکہ پاکستان کی جیلوں اور باہر کی آزادی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف اس کی زندہ مثال ہیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں جب بے نظیر زرداری کی حکومت تھی، تو میاں شہباز
شریف مستقل کمر کی درد میں مبتلا تھے، اور اس سلسلے میں وہ برطانیہ میں ہی
زیر علاج رہتے تھے۔ حالانکہ اس وقت جیل کا خطرہ بھی نہیں تھا۔ اپنے
حکمرانوں کی صحت اپوزیشن میں رہ کر بھی خراب ہو جاتی ہے، حکومت ملتی جاتی
ہے، تمام بیماریاں ایسے غائب ہو جاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جب سے
نیب نے سیاستدانوں (یا کسی حد تک بیوروکریٹس) پر گرفت کا سلسلہ شروع کیا
ہے، جیلوں ، بیماریوں اور ہسپتالوں کی روایت نے زور پکڑ لیا ہے۔ ڈاکٹر
عاصم، شرجیل میمن، اسحاق ڈار اور دوسرے، جس کو بھی نیب نے طلب کر لیا،
بیمار پڑگئے۔ مرضی کے ہسپتالوں میں مرضی کا علاج، اب تو کہا جارہا ہے کہ اِ
ن بیماروں کے لئے ہسپتال کا پورا پورا فلور ہی بُک ہو جاتا ہے۔ عدالتِ
عظمیٰ والی بات گزشتہ ماہ سراج الحق نے بھی کہی تھی، کہ نیب ایسے مریضوں کے
لئے ایک ہسپتال بنا لے۔ اب اگر عدالتِ عظمیٰ نے یہ ریمارکس دیئے ہیں تو
’’از خود نوٹس‘‘ لیتے ہوئے کبھی یہ حکم ہی جاری کردے کہ نیب ایک ہسپتال کا
اہتمام کر لے۔ اس میں بہت سے مریضوں کا علاج تو ہو جائے گا، کیونکہ نیب بہت
سے ایسے سرکاری ملازمین کی بھی گردن دبوچ لیتا ہے، جنہیں چھوٹی مچھلیاں
قرار دیا جاتا ہے، اور بہت سے مگر مچھوں سے ڈیل اور سہولتوں کا چرچا ہو
جاتا ہے۔ نیب کی گرفت میں آنے والے بہت سے مریض وی آئی پی ہوتے ہیں، کیونکہ
کرپشن کا الزام کروڑوں اربوں تک ہوتا ہے۔ ایسے مریض اپنا علاج پاکستان میں
کروانا پسند ہی نہیں کرتے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، کہ آخر
نیب کی گرفت میں آتے ہی امراض کیوں جاگ جاتے ہیں، کیا یہ بھی نیب کی آنکھوں
میں دھول جھونکنے کی کوشش تو نہیں، اور کرپشن کے ساتھ ساتھ فراڈ کی کہانی
تو نہیں؟ ایسے جعلی مریضوں اور جعلی میڈیکل بورڈوں کے خلاف ایکشن کے بارے
میں بھی عدالتِ عظمیٰ ہی کوئی حکم جاری کرے تو کرے۔
|