بجلی کے بلوں میں ریلیف کیسے دیا جاسکتا ہے

 پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کوپوراکرنے کے لیے تیل سے چلنے والے تھرمل پاورلگائے گئے۔ اس دورمیں چونکہ تیل سستاتھا اس لیے اس سے چلنے والے بجلی بنانے کے پلانٹس کوترجیح دی گئی۔ اس کے بعد کے ایک دورحکومت میں بجلی کی طلب اوررسدمیں فرق کم کرنے کے لیے فلیٹس ریٹس متعارف کرائے گئے۔ جس کے مطابق جوجتنی زیادہ بجلی استعمال کرے گا اس کے لیے فی یونٹس قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ شروع شروع میں یہ فرق اتنازیادہ نہیں تھا اس لیے کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اس دوران لوڈشیڈنگ بھی شروع ہوگئی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتیں بھی زیادہ اورکم کی جانے لگی۔ چونکہ آئی پی پیزکے ساتھ معاہدہ ڈالرمیں ہوا اس لیے ڈالرکے ریٹ کے اثرات بھی بجلی قیمتوں پر پڑنا شرو ع ہوگئے۔اس کے بعدایک اورپالیسی بنائی گئی جس کے مطابق صارفین جوبجلی استعمال کریں گے اس میں جوتیل استعمال ہوگا اس کی زیادہ یاکم قیمت کی وجہ سے اس کی قیمت صارفین سے بعدکے بجلی کے بلوں میں وصول کیے جائیں گے یااداشدہ بل میں سے تیل کی قیمت کے تناسب سے پیسے واپس دیے جائیں گے۔اس پالیسی کوفیول ایڈجسٹمنٹ کانام دیاگیا۔ بجلی کی طلب زیادہ اوررسدکم ہونے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کادورانیہ بڑھتاگیا۔ ایک دورمیں ایسا بھی آیا کہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہونے لگی۔ایک حکومت آئی اس نے سستی بجلی بنانے اوراس کی پیداواربڑھانے کی پالیسی اپنائی۔ متبادل ذرائع سولر ،کوئلہ وغیرہ سے بجلی کے بنانے کے پلانٹس لگائے گئے۔ تھرمل پاورکوبھی تیل سے سستی گیس ایل این جی پرمنتقل کرنے کی کوشش بھی ہوئی۔اس پرکامیابی ہوئی یانہیں راقم الحروف اس بارے معلومات نہیں رکھتا۔بجلی کی پیداوار طلب سے بڑھ گئی۔ چونکہ آئی پی پیزسے معاہدہ ڈالرمیں ہوا اورزیادہ تربجلی تیل سے بنائی جاتی ہے اس لیے ڈالرکی قیمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتیں بڑھتی گئیں اورتیل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت بھی بڑھائی جانے لگی۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے بعدکیپسٹی چارجزکے نام سے بجلی کے بلوں میں صارفین سے وصولی شروع کردی گئی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ حکومت آئی پی پیز کواس بجلی کی قیمت بھی اداکرتی ہے جوبچ جاتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت تین سے چھ ماہ کے لیے بجلی کی قیمت بڑھائی جانے لگی۔ میڈیاکے ذریعے اس وقت جوتفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق حکومت نہ صرف اس بجلی کی قیمت اداکرتی ہے جوبچ جاتی ہے بلکہ اس بجلی کی قیمت بھی اداکررہی ہے جوبنائی ہی نہیں جارہی۔ کہا جاتاہے کہ آئی پی پیزکے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی وجہ سے حکومت ایساکرنے پرمجبورہے۔ اس وقت بجلی کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ صارفین کے لیے بجلی کے بل اداکرناناقابل برداشت ہوتاجارہاہے۔کہاجاتاہے کہ اس وقت فی یونٹ کی جوقیمت ہے اس میں اٹھارہ روپے کیپسٹی چارجز بھی شامل ہیں۔ایک طرف حکومت پاکستان نقصان پوراکرنے کے لیے بجلی کی قیمت بڑھارہی ہے دوسری طرف بجلی بچ رہی ہے۔

حکومت پاکستان کو بجلی کی پالیسیوں کاازسرنوجائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ دورحکومت میں بہت اچھی پالیسی بنائی گئی ۔جس کے مطابق آئندہ پاکستان میں بجلی بنانے کے جوپلانٹس لگائے جائیں گے تیل اورگیس پرنہیں بلکہ مقامی وسائل سولر، ہوا، پانی اورکوئلہ وغیرہ سے لگائے جائیں گے۔ پاکستان میں ان تمام وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دیکھاجائے توپاکستان میں یہ تمام وسائل مفت ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں ہے صرف ان وسائل کو قابل استعمال بنانے اوران کی نقل وحرکت پراخرجات آئیں گے۔ اس پالیسی کے بعدحکومت پاکستان کوفلیٹس ریٹس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اورکیپسٹی چارجزپرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دورمیں یہ پالیسی لائی گئی کہ جوجتنی زیادہ بجلی استعمال کرے گا اس سے فی یونٹ قیمت اتنی ہی زیادہ وصول کی جائے گی۔اس دورمیں بجلی کی طلب رسد سے زیادہ تھی۔ اب حکومت اس بجلی کی قیمت بھی اداکررہی ہے جوبچ جاتی ہے۔ اس کامطلب ہے اب ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس سے عوام بجلی کازیادہ کرناشروع کردیں۔جب تک بجلی کی مہنگی سے مہنگی ہوتی رہے گی ایسانہیں ہوسکتا ۔اب فلیٹس ریٹس ختم کرنے ہوں گے کم سے کم پانچ سویونٹس استعمال کرنے والے صارفین سے وہی قیمت وصول کی جائے جوایک سویونٹس استعمال کرنے والوں سے وصول کی جاتی ہے۔ اس سے صارفین بجلی کااستعمال زیاد ہ کرناشروع کردیں گے۔ حکومت پاکستان کواس بجلی کی قیمت نہیں دینی پڑے گی جوبچ جاتی ہے۔ اس کے بعدبھی اگربجلی کی پیداوارطلب سے بڑھ جائے توحکومت پاکستان اسے برآمدکرنے کااہتمام کرے۔ اب بھی جوبجلی بچ رہی ہے اسے برآمدکردیاجائے تواس کی قیمت کیپسٹی چارجزکے نام پرعوام سے وصول نہیں کرنی پڑے گی۔ اس اقدام سے بھی بجلی سستی ہوجائے گی۔ اس سے بجلی کی پیداواری لاگت میں فی یونٹ کمی آجائے گی۔یوں مہنگی بجلی کے ستائے ہوئے عوام کوکسی حد تک ریلیف دیاجاسکے گا۔ رہا معاملہ اس بجلی کی ادائیگی کرنے کاجوبنائی ہی نہیں جارہی اس کے لیے آئی پی پیزکے ساتھ کیے گئے معاہدوں کاپھرسے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جوآئی پی پیزاس بجلی کی قیمت وصول کررہے ہیں جووہ بناہی نہیں رہے ان آئی پی پیزکے مالکان کوکسی مناسب فورم پربلاکر ان سے پوچھاجائے وہ کس معاہدے کے تحت بجلی نہیں بنارہے اوراس کی قیمت بھی وصول کررہے ہیں۔ ان معاہدوں کافرانزک آڈٹ کرایاجائے ۔اس سے اگرثابت ہوجائے کہ واقعی اس طرح کے معاہدے ہوئے ہیں توان شخصیات سے جواب طلبی جائے جنہوں نے اتنی سخت شرائط پرمعاہدے کیے۔ اب ان معاہدوں کی سخت شرائط کی مہنگی بجلی کی صورت میں سزا عوام کومل رہی ہے۔ جوکسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ حکومت پاکستان ان مسائل کوحل کرلے اوربجلی سستی کردے توسرمایہ کاری لانااوربھی آسان ہوجائے گا۔ملک کوترقی یافتہ بنانے کی رفتارتیزکی جاسکے گی۔ آئی پی پیزمالکان کواگرکسی اورفورم پرنہیں بلایاجاسکتا توسپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے۔ اس کاایک اورحل یہ بھی ہے کہ مقامی وسائل سے بجلی کی پیداواراتنی بڑھادی جائے کہ تیل سے بنائی گئی بجلی کی ضرورت ہی نہ رہے اوراسے برآمدکردیاجائے ۔اگرکالاباغ ڈیم بننے دیاجاتاتوآئی پی پیزکے ساتھ اتنی سخت شرائط پرمعاہدے کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس وقت عوام کوجوناقابل برداشت بجلی کے بل اداکرنے پڑرہے ہیں اس کے ذمہ داروہ لوگ بھی ہیں جوکالاباغ ڈیم نہیں بننے دے رہے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 395 Articles with 320229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.