سکے سے آر فائیو تک کا سفر

دینار کے زوال سے لے کر برکس کی متبادل کرنسی تک کی جدوجہد
**سکے سے آر-فائیو تک کا سفر**
**دینار کے زوال سے لے کر برکس کی متبادل کرنسی تک کی جدوجہد**
**تحریر: ابو ہشام**

ایک زمانہ تھا جب حقیقی سکے معیشت کی بنیاد ہوا کرتے تھے۔ دینار، جو چار اعشاریہ پچیس گرام خالص سونے پر مشتمل ہوتا تھا، ہاتھوں میں آتا تو اعتماد اور استحکام کا احساس دلاتا تھا۔ درہم، جو دو اعشاریہ پچانوے گرام چاندی سے ڈھالا جاتا تھا، اپنی قدر اور شفافیت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

آج ہمارا مالی نظام ایسے کاغذی نوٹوں پر قائم ہے جن کی کوئی اندرونی قدر نہیں۔ 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے جب ڈالر کو سونے کے معیار سے الگ کیا، تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 1974 میں شاہ فیصل نے تیل کے بدلے ڈالر کو بطور عالمی کرنسی تسلیم کیا، جس سے مسلم دنیا کا معاشی انحصار مزید گہرا ہو گیا۔

اس کے بعد جو بھی ممالک اس نظام سے انحراف کی کوشش کرتے، انہیں سخت نتائج بھگتنے پڑے۔ صدام حسین نے یورو میں تیل فروخت کرنے کی کوشش کی تو عراق پر حملہ ہوا۔ معمر قذافی نے سونے کے دینار کی بنیاد پر نیا کرنسی نظام پیش کیا تو وہ عالمی سیاست کا نشانہ بنے۔ ایران نے ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کیا تو اس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

امریکی جنرل ویسلی کلارک نے 2007 میں اعتراف کیا: "ہم پانچ سال میں سات ممالک کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں... عراق، پھر شام، لبنان، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور آخر میں ایران۔ یہ دہشت گردی کا مسئلہ نہیں تھا... یہ کنٹرول کا مسئلہ تھا۔"

ان واقعات کے پیچھے کئی اہم وجوہات کارفرما تھیں۔ سب سے پہلے تو لیبیا کے 143 بلین ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائر پر قبضہ کرنا ایک بڑا محرک تھا۔ دوسری طرف ڈالر کی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کی خواہش بھی ایک اہم وجہ تھی۔ خطے کے تیل اور گیس کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا بھی ان اقدامات کا ہدف تھا۔ مغربی مفادات کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا بھی ان پالیسیوں کا حصہ تھا۔

آج 2025 میں، ڈالر کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ برکس ممالک ایک متبادل کرنسی "آر-فائیو" متعارف کرانے جا رہے ہیں۔ روس اور چین اپنی گیس کی تجارت یوآن اور روبل میں کر رہے ہیں۔ کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک بھی ڈالر سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔

حدیث میں آیا ہے: "مسلمانوں کے سکے کو بغیر ضرورت کے توڑنا حرام ہے" (ابو داؤد: 3449)۔ ایک اور روایت کے مطابق: "ایسا زمانہ آئے گا جب دینار و درہم باقی نہ رہیں گے" (مسند احمد: 10284)۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے سونے چاندی کے سکوں کو چھوڑ کر کاغذی نوٹوں کو اپنا لیا ہے۔ لیکن امید کی چند کرنیں بھی ہیں۔ ملائیشیا نے سونے کے دینار کی بنیاد پر تجارت کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے معاملات یوآن اور روپے میں طے پا رہے ہیں۔ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات سونے کی مشترکہ کرنسی پر کام کر رہے ہیں۔

ہمیں اب ان سکوں کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے جنہیں توڑنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا تھا۔ اگر ہم اسی کاغذی نظام کو تھامے رہے، تو ہم نہ صرف معاشی طور پر دفن ہوں گے بلکہ تاریخ میں تماشائی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ اور ہماری خاموشی، ہماری شکست بن جائے گی۔

 

ابو ہشام
About the Author: ابو ہشام Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.