موت نے نگل لیا مگر زندہ رہے گا۔۔۔۔


خدا کی تخلیق کردہ کائنات کے وحید صادق و امین کا فرمان عالی شان ہے"علم انسان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے، کیونکہ اس سے انسانوں کو فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔" ( صحیح مسلم)
راولپنڈی چھاؤنی کی ایک گلی میں میرا ایک قریبی دوست انعام صدیقی رہا کرتا تھا، اور اسی تعلق نے مجھے ایک ایسے گھر تک پہنچایا جو میرے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کے انداز پر گہرا اثر چھوڑ گیا — وہ گھر جس کے سربراہ تھے فردوس مکیں جناب "استاد حافظ‌الحق صدیقی" جنہیں اہلِ محلہ احترام سے "صدیقی سر" کہتے تھے۔
صدیقی سر کا گھر علم، اخلاق، دین اور روشن خیالی کا گہوارہ تھا۔ ان کے دروازے ہر آنے والے کے لیے کھلے رہتے، چاہے وہ پڑوسی ہو یا محلے کا کوئی طالب علم۔ وہ محض استاد نہیں تھے، بلکہ ایک مربی اور رہنما بھی تھے۔ ان کے لہجے میں نرمی، الفاظ میں وقار، اور رویے میں شائستگی نمایاں تھی۔ باب علم حضرت علی کا ایک قول دہرایا کرتے تھے "جو علم انسان کے رویے میں نرمی نہ لائے، وہ بوجھ ہے، برکت نہیں۔"
یہی اصول ان کی اولاد کی تربیت کی بنیاد تھا۔ اسی گھرانے کی فکری اور اخلاقی تربیت نے سینیٹر عرفان الحق صدیقی (ہلالِ امتیاز) کی فکری اور عملی کردار کی تشکیل کی ۔ عرفان صدیقی نے اپنی زندگی میں یہ سبق برقرار رکھا کہ علم صرف کتابوں میں نہیں بلکہ کردار، رویے اور تحریر میں بھی ظاہر ہونا چاہیے۔
عرفان صدیقی نے ملک بھر میں اپنے کالموں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ میں علم و فکر کی روشنی پھیلائی۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی فکری بنیادوں کا دفاع، مذہبی رواداری کی تبلیغ اور اخلاقی قدروں کا احیاء نمایاں رہا۔ ان کے قلم نے کبھی نفرت نہیں ٌٌپھیلائی ، ہمیشہ محبت، شائستگی اور فکری بصیرت کی رہنمائی کی۔ وہ لکھتے تو محسوس ہوتا جیسے ہر لفظ پاکستانیت کا وضو کر کے صفحے پر اترا ہو۔ رومی نے لکھا تھا "جو شخص علم چھوڑ جاتا ہے، وہ دراصل اپنے بعد روشنی چھوڑ جاتا ہے۔" ہم دیکھتے ہیں عرفان صدیقی نے خوب روشنی چھوڑی ہے۔
انھوں نے سیاست میں قدم رکھا تو صدیقی سر کے قول کو بھلایا نہیں "الفاظ میں تلخی نہیں، کردار میں بلندی رکھو۔" وہ پارلیمنٹ میں اختلاف رائے کو دشمنی نہیں بلکہ فکری وسعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے دلائل میں سختی نہیں، بلکہ علم کی نرمی اور دلائل کی شائستگی نمایاں ہوتی تھی۔ انہوں نے قوم کو یہ باور کرایا کہ سیاست میں سب سے بڑی طاقت علم، استدلال اور کردار ہے۔
عرفان صدیقی کا قلم ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہا۔ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، منافقت کو بے نقاب کیا، اور عوام کو شعور و فہم کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کی تحریروں میں تنقید میں نرمی اور نصیحت میں وقار نمایاں رہا۔ ان کے مطابق قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے۔ ان کا ہر لفظ ایک سبق، ہر جملہ ایک فکری رہنمائی رہا انہوں نے یہ نیلسن منڈیلا کے اس جملے کو عزت دی "تعلیم ایک ایسی مشعل ہے جو ایک سے دوسری نسل تک روشنی پہنچاتی ہے۔" عرفان صدیقی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ علم کی اہمیت کا ادراک حاصل ہو تو زندگی کے ہر شعبے میں روشنی بکھیرتا ہے۔
عرفان صدیقی کے نزدیک پاکستانیت محض جغرافیہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، اخلاقی شناخت اور فکری شعور ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ قوم کو یہ باور کرایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور قوم کی ترقی علم، کردار اور اخلاق سے وابستہ ہے۔ "یہ ملک ہمیں صرف زمین کے طور پر نہیں، ایک نظریے کے طور پر عطا ہوا ہے۔" ان کی تحریروں میں وطن سے محبت، امید، اور فکری رہنمائی کی جھلک نمایاں رہی۔ وہ قوم کو یہ پیغام دیتے رہے کہ مایوسی شیطان کا ہتھیار ہے، اور امید مومن کا ایمان۔
10 نومبر 2025 کو سینیٹر عرفان صدیقی کی وفات نے صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ ایک فکری روایت کو رخصت کیا۔ اسلام آباد کے اسپتال میں ان کی سانسیں خاموش ہوئیں، مگر ان کے خیالات، تحریریں اور اخلاقی روشنی زندہ رہی۔ بابا اشفاق احمد کا قول بار بار میرے زہن پر دستک دیتا ہے کہ "وہ انسان کبھی نہیں مرتا جو علم، کردار یا محبت کی صورت میں یاد رہ جائے۔"
ان کے کالم، تحریریں اور تقریریں آج بھی عوام کو سوچنے اور شعور پانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان کا اندازِ بیان آج بھی زبانِ کی شائستگی کا معیار ہے، اور ان کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ علم کبھی مرتا نہیں — وہ کردار اور عمل کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ عرفان صدیقی کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کے علم و کردار کی روشنی کو ہمیشہ زندہ رکھے۔
خدا کرے وہ چراغ، جو عرفان نے جلایا، ہر دل میں امید اور ہر ذہن میں روشنی بن کر خیالات کو ،مور کرے۔ اور یہ وطن ان کے قلم کا امین رہے، اور ہم سب اس روشنی کے مسافر بنے رہیں۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 259 Articles with 227414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.