حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت

بڑی غیرت مند قوم ہے اور حضور ؐپاک سے تو اتنی محبت کرتی ہے کہ اول آ پؐ کے (اسوہ حسنہ) پر مکمل عمل کرتی ہے۔ہم مسلمانوں میں اور خاص کر پاکستانی مسلمان تو ایسا کوئی عمل کرتے ہی نہیں۔(مثلاً چوری ،ملاوٹ ، کم تو لنا ذخیرہ اندوزی ، بے انصافی قتل ، غارت ، لوٹ مار وغیرہ لمبی فہرست ہے پاکستانی مسلمانوں کے کارناموں کی) جس سے حضور ؐ ناراض ہوں۔

اگر آپ لوگوں کو آپؐ سے اتنی محبت ہے اور اس فلم پر اتنا غصہ ہے تو اپنے ہی ملک میں آگ لگانے کی بجائے سب اکٹھے ہوکر وعدہ کرتے کہ ہم حضورؐ پاک کی طرح سادہ زندگی گزاریں گے تھوڑی اور سادہ غذا کھائیں گے اور ہم کسی بھی ملک سے قرضہ نہیں لیں گے۔ بھکاری مسلمان کو اﷲ اور اُس کا رسول پسند نہیں کرتے۔کیوں جو ہاتھ پھیلانا ہے وہ پہلے اپنی غیرت ختم کرتاہے اور پھر مانگتا ہے اور مسلمان صرف اﷲ کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اﷲ کے علاوہ وہ کسی اور سے مانگنے والا تو مسلمان ہوہی نہیں سکتا ۔ ہاں نام کا مسلمان ہو سکتا ہے کہ مسلمان کے گھر پیدا ہوگیا ۔

کیا مسلمان حضور ؐ پاک کے زمانے میں فاقے نہیں کرتے تھے۔

کیا وہ کفار سے مانگتے تھے کہ ہم تین دن سے بھوکے ہیں۔ یا ہمیں قرضہ ہی دے دو۔ ہم کھانا کھا لیں حالانکہ اس زمانے میں کفار اور مسلمانوں کے آپس میں خونی رشتے تھے لیکن ان کی غیرت گوارہ نہیں کرتی تھی۔

اور پھر وہ جانتے تھے قرضہ لینے سے ہم ان کی غلامی میں آجائیں گے ہم پر تو فاقوں کی نوبت تو اکثر آتی ہے ہم اس سے قرضہ لے لے کر ان کے غلام بن جائیں گے اور پھر سر اُٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔

ہم پر (اﷲ نہ کرے) فاقوں کی نوبت تونہیں آئی ہوئی ہے تو پھر ہم آخر ساری دُنیا سے کیوں مانگتے پھرتے ہیں۔

آج اگر ہم یہ وعدہ کرتے کہ سب امیر غریب پانی ، بجلی ، گیس سب کے بل ادا کریں گے۔زکوۃ اور ٹیکس سب پورا پورا ادا کریں گے ۔ تو ہم اپنے ملک کو قرضوں کے بوجچھ سے آزاد کرواکر سراُٹھا کر جی سکتے ہیں۔

ہم پاکستانی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ہم سے حضورؐ بڑے خوش ہیں کہ ہم صرف جلسے ،جلوس اور نعرے لگا کر زبانی کلامی جو حضور ؐ پا ک سے محبت کے دعوے دار بنتے ہیں۔

جس اُمت کیلئے آپ ؐ راتوں کو جاگ کر اﷲ سے بخشش مانگا کرتے تھے۔ اور آج خود مسلمان دوسرے مسلمان کا خون کر رہاہے اور کسی مسلمان کی جان ، مال اور عزت محفوظ نہیں طاقتور مسلمان کے ہاتھوں کمزور مسلمان کی ہر چیز غیر محفوظ ہے۔

کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہجوم اکٹھا کر کے ہم دوسروں کی جان سے کھیل جاتے ہیں دعوے حضور ؐ کی محبت کے کرتے ہیں۔ آپؐ اپنی امت کی یہ بے بسی دیکھ کرکتنے دکھی ہیں ۔آپؐ کو تو ہر وقت اپنی اُمت کی فکر ہوتی تھی ۔ بڑا عام جملہ ہے آپؐ پر میں قربان۔

آپ ذرا اپنا غصہ ہی قربان کردیں کہ ہم آج سے غصہ نہیں کریں گے ۔ اپنے نفس کے غلام ۔ حضورؐ سے کیا محبت کے دعوے کریں گے ۔

حضورؐ کے زمانے میں جب کفار کی حرکتوں اور باتوں سے ہمارے نبیؐ کو تکلیف ہوئی۔

تو صحابہ کرام ؓ اس کا اظہار ہماری طرح توڑ پھوڑ کرنہ کرتے ۔ اگروہ ایسا فساد کرتے تو اُن کے اس رویے کو دیکھ کر کوئی اسلام قبول نہ کرتا۔ اس لیے کہ لوگ سوچتے کہ یہ کیسا مذہب ہے کہ اس کے مانے والے اتنے خونی اور فساد برپا کرنے والے لوگ ہیں۔

صحابہ کرامؓ اس کا جواب حضورؐ سے اور زیادہ محبت کرکے دیتے۔ (یادرہے وہ ہماری طرح زبانی محبت کے دعو ے دار نہیں تھے) صحابہ کرام ؓغصہ نہ کرتے ، اپنے نفس کو مارتے ،نہ جھوٹ بولتے، نہ کم تولتے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرتے کسی کا بُرا نہ کرتے ، ان کے ہاتھوں ،اپنوں کی غیروں کی سب کی جان ،مال ، عزت محفوظ رہتی۔

ان کو دیکھ کے کہ مسلمان ایسا ہوتا ہے تو لوگ مسلمان ہوجاتے ۔

آپ جو کہتے ہیں کہ ساری دُنیا میں اسلام پھیل رہا ہے تو عرض ہے کہ آج کے مسلمان کو دیکھ کرکوئی مسلمان نہیں ہوریا۔بلکہ لوگ اسلام کو پڑھ کر جب جانتے ہیں کہ اسلام ایسا زبر دست مذہب ہے تو وہ مسلمان ہوجاتے ہیں۔

پھر ہم لوگ کہتے ہیں وہ تو صحابہ کرامؓ تھے ہم ویسے کسے بن سکتے ہیں ۔ تو نورالدین زنگی تو حضورؐ کے زمانے میں نہیں تھے۔ کتنا بڑا اعزاز ان کو مِلا کہ حضورؐ نے ساری دُنیا سے اُن کو منتخب کیا اور خواب میں آکر ان سے کہاکہ مدینہ جاؤ۔ کچھ لوگ مجھے تنگ کر رہے ہیں اور خواب میں ان لوگوں چہرے بھی دِکھا دیے پھر نورالدین زنگی نے مدینہ جاکردونوں کو قتل کیا ۔ روضہ رسول ؐ کے چاروں طرف شیشہ پلائی دیوار بنوادی۔ تفصیل آپ خو د پڑھیں ـ میسج موبائیل پر تو 24 گھنٹے پڑھتے رہتے ہیں ۔ ذرا تاریخ اسلام بھی پڑھ لیں۔
آج مسلمانوں کی تعداد کتنی زیادہ ہے کیا اس میں ایک بھی نورالدین زنگی جیسا مسلمان ہے۔

جس کے خواب میں آکر حضورؐ پاک کہیں کہ مجھے ان کی (کفار) حرکتوں سے کوئی دُکھ تکلیف نہیں ہوتی اس سے میری شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی نہ مجھے کوئی فرق پڑتا ہے ۔

فرق تو مجھے اس وقت پڑتا ہے۔ تکلیف تو مجھے اس وقت ہوتی ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں کیا ان کا دین انہیں یہ سکھاتاہے ۔ہر وقت غصے سے بھرے، بے رحم ، بے انصاف لوگ ۔ آج کی مسلم دُنیا کی یہ باتیں میرے لیے نئی اور تکلیف دہ ہیں۔ورنہ جو کفارآج کر رہے ہیں ۔ وہ تو میرے زمانے میں بھی کرتے تھے لیکن میرے شیدائی میرے چاہنے والے میری زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو فوراً مان کر اور اس پر عمل کرکے کفارکے دِلوں میں ایسی آگ لگادیتے تھے جس سے ان کا تن من جل جاتا تھا اور ان کے ارادے راکھ بن جاتے تھے۔

لیکن آج کے مسلمان تو میری کسی بات پر عمل نہ کرکے ان کے دِلوں میں آگ کی جگہ ٹھنڈک بھر رہے ہیں۔

اور میری اُمت اﷲ کے محبوب کی نافرمانی کرکے جل کر راکھ ہورہی ہے۔ تم میری نافرمانی کرکے اﷲ سے دُنیا میں اپنی عزت کی دُعا مانگتے ہو نیک ۔ عمال کے بغیر عزت تُم زبانی محبت کرکے اﷲ کے غصے کو ٹھنڈا نہیں کرسکتے ۔ تم اپنے ہی بھائی کی ، جان ، مال ، عزت سے کھیل رہے ہو۔

تُم میری کوئی بات نہیں مانتے اور دُنیا تمہیں بُرا کہے تو سن لو کہ دکھ مجھے اس وقت ہوتا ہے ۔

کفار کی باتوں سے میں دکھی نہیں ہوتا۔

تم میرے لیے اپنے نفس کو ما رو۔ تب میں جان سکوں گا کہ تم لوگوں ک مجھ سے پیار ہے نفس کے غلام میری غلامی اور مجھ سے محبت کا دعویٰ کیسے کرتے ہیں۔

مجھے بتائیں ہاں تو ہے کوئی ایسا مسلمان ۔سب نعرے لگانے والے جس کے خواب میں حضورؐ آئیں۔ان کو اگر آج پاکستان کی زمین چھوڑنے کا پروانہ ملے تو یہ فوراً خود یا اپنے بیٹے کو دوسرے ملک بھیج دیں کہ جاؤ پاکستان میں رکھا کیا ہے۔ جاؤ اور پھر ہمیں بھی بلا لینا۔

اس وقت کوئی بھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ پروانہ آیا کہاں سے ہے ۔ اس وقت محبت کہاں جائے گی ۔ یہ تو ہمارا صدیوں سے تکیہ کلام ہے ہم آپؐ پر قربان پہلے آپ اپنی خواہشوں کو قربان کرکے دِکھا دیں۔ مادہ پرست لوگ۔
جن کے دلوں میں چیزوں کی محبت ہو۔ یہ مل جائے وہ مل جائے چاہے جیسے ہی مل جائے حرام ، حلال کسی کا پتہ ہی نہیں بس مال مل جائے ۔جن لوگوں کو اپنے علاوہ کسی کی فکر نہ ہو تو وہ کیا اسلام کیلئے کچھ کر سکتے ہیں ۔ ذرا سوچیں ہم لوگوں نے سوائے اسلام کو نقصان پہنچانے کے آج تک کیاکیا ہے۔ نہ کوئی قابِل فخر مسلمان نہ کوئی مکمل اسلامی ریاست ۔

دُنیا میں آنے کا ہم مسلمان اور خاص کر پاکستانی یہی مقصد سمجھتے ہیں بچوں کو ڈاکٹر ،انجینیر، وغیرہ وغیرہ بناؤ پھر بڑی تنخواہ اور بڑا جہیز۔ اسی لیے ہم عبادت کرتے ہیں اور وظیفے پڑھتے ہیں اور دُعائیں مانگتے ہیں کہ ہماری اولاد کو اعلیٰ عہدے دے ۔ تاکہ ہماری اولاد ہمارا سر فخر سے بلند کرسکے۔ اور ہمیں خاندان اور ملنے والوں میں عزت ملے۔

کبھی کسی نے بھی اسلام کی سر بلندی کیلئے کچھ کیا ۔ ہم اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ دُنیا میں ہمارے بچے سچے مسلمان بن کر اسلا م کا نام دُنیا میں روشن کریں۔

کبھی اسلام کے بارے میں سو چاہی نہیں ۔ ہمیں تو اسلام حرف جلسے جلوسوں میں یاد آتا ہے اور ہمیں یاد آتا ہے کہ اسلام سے زبانی کلامی سہی محبت کا اظہار کرنا ہے ۔

ہمیں یہاں تو کچھ سننا نہیں پڑتا اس لیے کہ سب ایک سے ہیں ۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ لیکن جو لوگ باہر رہتے ہیں۔ اصل شامت تو ان کی آتی ہے جو ان کو وہاں سب کی باتیں سنی پڑتی ہیں۔

کہ تم بڑی محبت کرتے ہو اپنے بنیؐ سے لیکن حیرت ہے ان کی تم مسلمان ایک بات بھی نہیں مانتے اور ان جلوسوں میں تواسلام کے منہ پر ایسی سیاہی پھیرتے ہوکہ بیان سے باہر ہے ۔

وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں میں یہاں لکھ نہیں سکتی لیکن حیرت مجھے ان کی باتوں سے نہیں ہوتی۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم میں غیرت بلکل ہی ختم ہوگئی ہے ۔ہم ان کی باتیں سن کر بھی غیرت میں آکر سچے پکے مسلمان نہیں بنتے۔ بس دولت اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بڑا شور کرتے ہوکہ وہاں مسلمانوں پر غیر مسلم ظلم کر رہے ہیں۔ اس جگہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہورہا ہے ویسا ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ تمہارے اپنے ملک میں کون کس کو مار رہا ہے۔

یہاں تم حجاب کی بات کرتے ہو اور اپنے تمہارے ملک میں کتنے لوگ حجاب پہنتے ہیں۔

تم مسلمان بھی عجیب لوگ ہو جن سے تمہیں نفرت ہے اسی سے قرضے بھی لیتے ہو۔

ہم اپنی خواہش کم نہیں کرتے ۔ ذرا سی تکلیف برداشت کرنے کو ہم تیار نہیں ۔ ہم فاقے کیا کریں گے ہم تو معمولی کھانا کھانے کو تیار نہیں ۔نہ معمولی لباس لینے کو تیار کر پاتے ہیں اپنے آپ کو ۔نہ ہم اپنی بُری عادتیں چھوڑنے کو ہم تیار ہیں۔

اپنی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ہم منہ اور گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔

سن لو اور جان لو

مادہ پرست لوگ اور دنیا وی چیزوں کے عاشق عاشقِ رسول ؐ کیسے ہوسکتے ہیں۔

Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.