قرآن میں خواتین کا تذکرہ (ماہنامہ ”اطراف“ کی خاص اشاعت ”عورت نمبر“ کے لیے لکھا گیا“

معروف صحافی، شاعر و ادیب جناب محمود شام کی ادار ت میں شائع ہونے والا جریدہ ‘ اطراف ‘ کے خاص شمارے عورت نمبر میں شائع ہوا۔
قرآن میں خواتین کا تذکرہ
(ماہنامہ ”اطراف“ کی خاص اشاعت ”عورت نمبر“ کے لیے لکھا گیا“
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ ’الحجر‘ کی آیت ۶۲ میں ارشاد ہوا کہ ’ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔ اس سے قبل اللہ نے جنات کو ’لو‘ والی آگ سے پیدا کیا۔ فرشتے پہلے ہی تخلیق پاچکے تھے۔ آدم کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفتہ اللہ فی الارض اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں، ابلیس نے سجدے سے انکارکیا اور نافرمانی کے باعث راندہئ درگاہ ٹہرا، آدم علیہ السلام کا ٹہکانہ جنت تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی بائیں پسلی سے ایک عورت’حوا‘ پیدا کی۔ گویا آدم کے ساتھ حوا بھی لازمی تھیں۔شیطان کے بہکانے پر ممنوعہ پھل کھالیا جس کی پاداش میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں کو جنت سے زمین پر بھیج دیا گیا۔دونوں کے ملاپ سے انسان جن میں مرد اور عورت شامل تھے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے اور دنیا پھیلتی چلی گئی۔
مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں سے اللہ کا خطاب
اللہ کا مردوں کے علاوہ عورتوں سے خطاب،مسند احمد، ترمذی میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضہ اللہ عنہا اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کیا بات ہے، اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتاہے، عورتوں سے نہیں جس پر سُوْرَۃُالْاحْزَاب آیت 35نازل ہوئی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے’‘بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں،، فرماں برداری والے مرد اور فرمانبردار عورتیں، راست باز مرد اورراست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرداور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں،بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اورکرنے والیاں سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار رکھا ہے“۔ اللہ کے مرد وں اور عورتوں سے خطاب سے واضح ہے کہ اللہ کے نذدیک دونوں کی حیثیت برابر ہے، عبادت و اطاعت، اخروی درجات وفضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں، دونوں کے لیے یکساں طور پر میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب کما سکتے ہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید میں جن خواتین کا تذکرہ مذکور ہے یہاں بعض کے بارے میں تفصیل سے اور بعض کے بارے میں اختصار سے بیان کیا جائے گا۔ان خواتین میں کافر بھی ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی زوجہ وا ہلہ، حضر لوط کی زوجہ‘واعلہ‘ ان کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ تحریم میں آیا ہے جنہوں نے نبیوں کی زوجیت میں رہتے ہوئے بھی دشمنی کی اور ایمان کے بغیر ہی ان کا خاتمہ ہوا اورمسلمان نیک اور صالح عورتوں کاتذکرہ اللہ نے واضح الفاظ میں بعض کا بہت تفصیل سے کیا ہے۔بعض بعض خواتین تو ایسی بھی ہیں جن کے نام پر سورتیں موجود ہیں۔ جیسے حضرت عیسی ؑ کی والدہ ماجدہ کے نام پر سورۃ مریم۔ جب کہ قرآن کی سورہ النساء میں عورتوں کے حوالے سے تمام امور تفصیل کے ساتھ، واضح الفاظ میں، صاف صاف بیان ہوئے ہیں۔یہ مدنی سورۃ ہے، کلام مجید میں ترتیب کے اعتبار سے چوتھی اور نزول ترتیب کے اعتبار سے 92ویں سورہ ہے۔ اس سور ۃ کو سورۃ النساء کبریٰ یعنی بڑی سورۃ النساء بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ 28ویں پارہ کی سورہ طلاق کو سورۃ النساء قصر ی یعنی چھوٹی سورۃ النساء کہا جاتا ہے۔ سورہ النساء جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے خواتین سے متعلق ہے۔ اس سورہ میں عورتوں کے مسائل، احکامات و معاملات کا بیان ہے اس وجہ سے اس کا نام سورۃ النساء ہے۔یہ سورۃ آپ محمد ﷺ کے مدینہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی۔ اس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا، یہ وہ دور تھا جب ریاست مدینہ اپنے ابتدائی قیام اور استحکام، نیز نئے ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کے شروع کے دور میں تھی۔ مسلمانوں کو زندگی گزارنے، ریاست کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے، حکمرانی، اخلاقی و معاشرتی طریقوں کے لیے کسی لا ئحہ عمل کی اشد ضرورت تھی، کفار مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف تھے۔ ایسی صورت میں سورۃ النساء نے ان تمام معاملات میں کھل کر اور تفصیلی ہدایات و رہنمائی فراہم کی۔ خاندانی معاملات، شرعی احکامات، عورتوں کے حقوق و فرائض، وراثت میں ان کا حصہ، نکاح و دیگر تمام معاملات اس سورہ میں بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
ابو البشر اماں حوازوجہ حضرت آدم علیہ السلام
سورۃ النِّسَاء کی ابتدائی آیات میں پرور دگار نے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”اپنے ر ب سے ڈرو جس نے انسان کو پیدا کیا ایک جان سے اور پیدا کیا اسی میں سے جوڑا اس کا اور پھیلا ئے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں“۔یہاں ایک جان سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں جب کہ ”اسی میں سے جوڑا اس کا“جوڑے کا اشارہ اماحوا کی جانب ہے،پھر ’ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں‘ یعنی جب آدم علیہ السلام اور حوا تخلیق پاگئے تو پھر ان دونوں سے بچے پیدا ہوتے گئے، دنیا پھیلتی گئی۔ اماں حوا کی پیدائش کے بارے دیگر سورتوں میں بھی بیان ہوا ہے لیکن اتنا ہی کہ آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے اماں حوا نے جنم لیا، پھر دونوں سے تمام مرد اورعورتوں کو پیدا کیا اور دنیاپھیلی۔
مریم بنت عمران(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ)
سورۃ آلِ عمران کی آیت ۴۳ میں اللہ تعالیٰ نے عمران کی اس عورت کا ذکرکیا ہے جس کی منت مانی گئی تھی کہ اگر میرے بیٹا ہوا تو میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی لیکن جب اس کی مراد پوری ہوئی تو اس کے بیٹا نہیں بلکہ بیٹی پیدا ہوئی، سورہ آل عمران کی آیت35میں اس بات کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے ”وہ اس وقت بھی سن رہا تھا جب کہا تھا عمران کی عورت نے اے میرے رب! بے شک میں نے نذر مانی ہے تیرے حضور کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، وہ تیرے نام پر آزاد ہوگا، سو قبول فرما مجھ سے، بے شک تو ہے ہر بات کا سننے والا، سب کچھ جاننے والا، پھر جب پیدا ہوئی اس کے ہاں وہ بچی تو بولی اے میرے رب میرے ہاں تو پیداہوئی ہے لڑکی جب کہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ درحقیقت اس نے کیا جنا ہے اور نہیں ہے لڑکا اس لڑکی جیسا اور میں نے نام رکھا اس کا مریم اور میں پناہ میں دیتی ہوں اسے تیری اور اس کی اولاد کو بھی شیطان مردود سے بچا نے کے لیے“۔ یہ لڑکی مریم ؓ تھی جس کی پرورش اللہ نے زکریا ؑ کے سپرد کرائی، زکریاؑ کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی اس لڑکی کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانے پینے کا سامان دیکھتے تو کہتے کہ اے مریم یہ سب کچھ کہاں سے آیا تو وہ لڑکی کہتی اللہ کے ہاں سے۔ حضرت زکریا کی عمر طویل ہوچکی تھی کوئی سو سال کی، ان کی بیوی بھی بانجھ تھی لیکن انہیں حسرت ہوئی کہ اللہ انہیں بھی ایسی ہی اولاد سے نواز دے تو کیا بات ہے، اللہ نے زکریاؑ کی فریاد سنی تو بشارت دی زکریا ؑ کو اللہ اسے اولاد سے نوازے گا اور ایسا ہی ہوا حضرت زکریاؑ کو بڑھاپے میں حضرت یحیٰ عطا کیے۔ زکریا نے اللہ سے کہا کہ اے میرے رب کیوں کر ہوگا میرے ہاں لڑکا جب کہ میں ہوچکا ہوں بوڑھا اور بیوی میری بانجھ ہے، اللہ کا جواب سورہ آل عمران کی آیت 40میں ”جواب دیا ”اسی طرح“ اللہ کرتا ہے جو چاہے“۔ مریم رضی اللہ عنہا پریہودیوں نے جو تہمت لگائی اس کی سختی سے مزمت کی گئی اور انہیں پاک دامن، متقی پرہیز گار خاتون قرار دیا گیا۔
وا ہلہ (حضرت نوح علیہ السلام کی زوجہ)
قرآن مجید کی سورۃ ’تحریم“ میں چار عورتوں کا ذکر ہے، واعلہ (حضرت لوط علیہ السلام کی زوجہ)، آسیہ، مریم اور واہلہ(زوجہ حضرت نوح علیہ السلام)۔ وا ہلہ حضرت نوح علیہ السلام کی شریک حیات تھیں اور طویل عرصہ نبی کی زوجیت میں رہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی زوجیت میں ہوتے ہوئے بھی دل سے ایمان نہیں لائیں۔ ان کی دل میں منافقت رہی۔ اس کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دشمنی اور توہین و بے ادبی کے سبب بے ایمان دنیا سے کوچ کرگئیں۔ حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے۔وہ اپنی قوم کے درمیان پچاس سال رہے۔حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا، انہوں نے کشتی بنائی، سورہ ہود میں ہے حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کو کہااس نے انکار کیا، کہاکہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا وہ مجھے بچا لے گا، کشتی تواللہ کے حکم سے محفوظ رہی اور پہاڑ جودی پر ٹہر گئی،قرآن نے حضرت نوح کی زوجہ کو خیانت کار قرار دیا،نبی کی زوجہ ہونے کے باوجود جہنم کی مستحقق بن گئی۔اللہ پاک نے کفر اختیار کرنے والوں زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔
وا علہ (حضرت لوط علیہ السلام کی زوجہ)
سورہ تحریم میں حضرت لوط علیہ السلام کی شریک حیات واعلہ کا ذکر ہے۔ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اللہ نے پتھروں کی بارش کی، تو حضرت نوح علیہ السلام اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے باہر چلے گئے۔ چلتے ہوئے انہوں نے سب سے کہا کہ دوران سفر کوئی بھی باہر کی جانب نہ دیکھے، اگر ایسا کیا تو وہ شخص عذاب کا شکار ہوجائے گا۔ تمام لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کیا لیکن ان کی بیوی وا علہ نے خاموشی سے باہر کی جانب دیکھا، اسی لمحے عذاب کا ایک پتھر ان پر آلگا اور وہ ہلاک ہوگئیں۔سورہ نمل میں ہے کہ حضرت لوظ کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلہ ہوئی۔
آسیہ بنت ِ مزحم (مصر کے بادشاہ فرعون کی بیوی)
قرآن کی سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام اور آسیہ مصر کے بادشاہ فرعون کا قصہ بیان ہوا ہے۔ وہ انتہائی نیک، ہمدرد، خدا ترس خاتون تھیں۔ فرعون اس سے بالکل برعکس، مسلمانوں کا دشمن، اسلام کا دشمن تھا۔ فرعون کو ہمیشہ اپنی سلطنت چھن جانے کا ڈر و خوف رہتا تھا۔ کسی نے اس کے دل میں یہ ڈال دیا کہ اس کی سلطنت میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ بڑا ہوکر فرعون کی سلطنت کے خاتمہ کردے گا۔ چنانچہ اس نے اعلان کردیا کہ اب جو بچہ بھی پیدا ہوگا اس کو ماردیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہی دنوں پیدا ہوئے، ان کی والدہ نے خوف اور فرعون کے ڈر سے اپنے بچے کو ایک صندوق میں ڈال کر دریائے نیل کی لہروں کے سپرد کردیا، یہ صندوق جس میں حضرت موسیٰ بہت آرام اور اطمینان سے لیٹے تھے دریا کی لہریں انہیں جھولا جھلاتی ہوئی فرعون کے محل میں لے گئیں۔ کنیزوں نے ملکہ آسیہ کو اطلاع دی تو آسیہ نے بچہ کو خفیہ طور پر، فرعون سے مخفی رکھتے ہوئے محل میں چھپادیا اور اس کی پرورش کرنے لگے۔آسیہ کا یہ عمل اللہ کو بھی پسند آیا، بلکہ یہ سارا عمل بچے کا دریا میں محفوظ رہنا، صندوق کا محل میں پہنچنا سب اللہ ہی کی جانب سے تھا۔آسیہ کی نیکیوں کے باعث ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے جن چار عورتوں کو جنتی کہا ہے ان میں حضرت ختیجہ، فاطمہ، مریم اور آسیہ شامل ہیں۔قرآن کریم میں دو پار سا(نیک) عورتوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک آسیہ ہیں، فرعون کی بیوی ہوتے ہوئے انہوں نے اسلام کو سچ جانا، حضرت موسیٰ پر ایمان لائیں، اللہ نے قرآن میں ان کا ذکر بطور مثال کے کیا ہے۔

عزیز مصر اور ذلیخا
ذلیخا عزیز مصر (فوطیقار یا پوتیفار) کی زوجہ اور عابیل کی بیٹی تھی اور بے اولاد بھی۔ اس کا تعلق مصر سے تھا۔ یہ بت پرست تھی، بائبل میں اس کا نام فوطیقار ہے، قرآن میں اس کا ذکر عزیز کے لقب سے آیا ہے اسی نے حضرت یوسف کوخریدا تھا۔وہ شاہی خزانہ کا سربراہ تھا۔اس کی بیوی کا نام ذلیخا تھا، اسے راعیل بھی کہا گیا ہے۔عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو اپنے گھر میں رکھ لیا، جوان ہونے تک عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ کے حسن اور اچھے اخلاق پر فریفتہ ہوگئی۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو برائی کی دعوت دی، آپ اللہ کے خوف اور اس کی نشانیوں کو دیکھتے ہوئے گناہ کی جانب مائل نہ ہوئے اور اس کی دعوت کو ٹھکرادیا، عزیز مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قید خانے میں بھی آپ نے دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے۔ آپ اپنی نیک سیرت، علم و دانش، خوابوں کی تعمیر اور دیگر اچھائیوں کی وجہ سے لوگوں میں پہچانے جانے لگے، ایک مرتبہ بادشاہ مصر نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں اور انہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سرسبز اور سات خوشے خشک ہیں، بادشاہ کے دربار میں سے کوئی بھی اس خواب کی تعبیر نہ بتا سکا، اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سے رجوع کیا گیا، انہوں نے تعبیر بتائی کہ سات سال خوشحالی کے ہوں گے اور سات سال سخت قحط پڑے گا پھر خوشحالی ہوگی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت بادشاہ مصر کے دل میں گھر کرگئی، اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس بلا بھیجا، وہ تمام تر الزامات سے مکمل بری ہوئے اور ان کا سچ ہر ایک کی زبان پر جاری ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خلیفہ اول حضرت ابو بکرصدیق کی صاحبزادی اور پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریک حیات تھیں۔ حضرت محمد ﷺ کی ازواج میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تما م ازواج بیوہ و مطلقہ(طلاق شدہ) تھیں۔ آپ ہمارے نبی ﷺ کی سب سے چہیتی زوجہ تھیں۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ’واقعہ افک‘جس میں آپ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگا یا گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہا کی برأ ت نازل فرمائی۔ یہ برأت قرآن کریم کے پارہ ۸۱ (قد افلح) کی ’سورۃ النور‘کی آیت ۱۱و ۲۱ میں بیان ہوئی ہے۔ منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھالیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی برأت نازل فرماکر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ نبی ﷺ ایک ماہ تک جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے برأت نازل نہیں ہوئی سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی جگہ بے قرار و مضطرب رہیں۔ اللہ نے اس واقع کو اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اور کہا اہل ایمان سے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا۔ اللہ نے یہاں یہ بھی کہا کہ ’اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا‘، پھر فرمایا آیت17میں فرمایا ”اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے اگر تم مومن ہوتو دوبارہ کبھی اس جیسی بات نہ کرنا“۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد (زوجہ اول محمد ﷺ)
حضرت محمد ﷺ کی روجہ اول حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جو خواتین میں سب سے پہلے ایمان لائیں، ہمارے نبی نے فرمایا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا مجھ پر تب ایمان لائیں جب لوگ منکر تھے انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول کے فرامین پر عمل کرنے والی تھیں۔آپ ﷺ نے نبوت سے قبل ۵۲ برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ اس وقت حضرت حجرت خدیجہ کی عمر ۰۴ برس تھی۔ حضر ت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ محمد ﷺ کی پہلی زوجہ تھیں۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حیات رہیں آپ ﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی، باقی تمام شادیاں ۰۵ برس کی عمر کے بعد کیں اور ۳۶ برس کی عمر میں آپ ﷺپردہ فرماگئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے نکاح میں آنے کے بعد ۵۲ برس تک حیات رہیں۔سُوْرَۃُ الْاحْقَافِ کے موضوعات میں کفار مکہ کی زیادتیاں اور حضورﷺ کو طرح طرح سے پریشانیوں میں مبتلا کرنا، اس سال کو آپ ﷺ نے عام الحزن یعنی رنج کا سال بھی فرمایا، اس لیے کہ اس سال آپ کے چچا ابو طالب اور آپ کی شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا، ان دونوں سے آپ کو بہت سہارا اور ڈھارس تھی، ان کی جدائی کے بعد کفار مکہ نے اور زیادہ پریشان کیا اور اذیتیں پہنچائیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش
حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو نبی ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں کا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، دونوں میں اختلاف رہااور بات بن نہ سکی، معاملا طلاق پر منتج ہوا،زید بن حارثہ عرب ضرور تھے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ عرب ضرور تھے لیکن آپ غلام تھے جب کہ حجرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا محمد ﷺ کے خاندان سے تھیں،زیدجب چھوٹے تھے تو انہیں بطور غلام بیچ دیا گیا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حضور اکرم ﷺ سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انہیں حضرت محمد ﷺکو ہبہ کردیا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا منہ بولا بیٹا (متبنیٰ) بنالیا تھا، نبی ﷺ نے ان کے نکاح کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو آپﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں کوچنا، حضور ﷺ کی خواہش تھی اس لیے نکاح تو ہوگیا لیکن خاندان میں اس نکاح پر کچھ اختلاف بھی پایا جاتا تھا اس کی بنیادی وجہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کاغلام ہونا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں کہ اس میں دخل دے، بلکہ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اسے دل سے تسلیم کرلے۔ اس آیت کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا سمیت سب نے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ نکاح ہوگیا۔ لیکن دونوں میاں بیوی کے مزاج میں فرق تھا، ہم آہنگی نہیں تھی، اس میں خاندانی نسب، اور اس بات کا بھی دخل تھا کہ جب یہ بات شروع ہوئی تو دل میں اس کے لیے ناپسندیگی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا، وقت کے ساتھ ساتھ اختلافات بڑھتے گئے، نبی ﷺ کے علم میں ان دونوں کے اختلافات آتے رہے آپﷺ دونوں کو سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ طلاق کا عندیہ بھی دیا گیا، آپ ﷺ نے طلاق دینے سے روکا اورنبا ہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرمادیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہوکر رہے گی اور اس کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا، اس کا ایک مقصد اس رسم اور خیال کی نفی کرنا بھی تھا کہ منہ بولا بیٹا، شریعت میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کا مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں ان باتوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا،فرمایا اللہ نے آیت 37میں ”پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی، ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا، تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں، اللہ کا یہ حکم تو ہوکر ہی رہنے والا تھا“۔ گویا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حکم خداوند ی تھا، یہ نکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے آسمانوں پرہوا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی۔ یہ پہلے سے ہی تقدیر الہٰی میں تھا۔حضرت ذینب دنیا کی وہ واحد خاتون اور ہمارے نبی ﷺ زوجہ ہیں جن کا نکاح دنیا میں ہونے والے نکاحوں کی مانند نہ تھا بلکہ یہ ایسا نکاح تھا جس میں عام لوگوں کی شرکت نہیں تھی۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمانوں پر آپ کا نکاح ہوا جس پر حضرت زینب کو فخر بھی تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔

آمنہ بنت وھب (والدہ محترم حضرت محمد ﷺ)
آمنہ بنت وھب ہمارے بنی حضرت محمد ﷺ کی والدہ محترمہ تھیں۔آپ کی والدہ کا نام وہب بن عبد مناف تھا، آپ کا تعلق بنوزہرہ سے تھا۔ آپ کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ کے جدِ امجد عبد مناف بن قصی سے ملتا ہے۔حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی ظاہری وضع قطع میں ایک خوبصورت اور باوقار خاتون تھیں اور قبیلہ قریش میں بالعموم اور بنو زہرہ قبیلے میں بالخصوص ممتاز شخصیت کی مالک تھیں۔حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااپنے خاندانی نسب و نسبت اور ذاتی حسن و جمال کے علاوہ بھی منفرد خصوصیات کی حامل تھیں جو آپ کو بنو زہرہ قبیلہ کی دیگر خواتین سے ممتاز کرتی تھیں۔ جن میں بالخصوص آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی، شرافت، زکاوت، برد باری اور حلم شامل تھا۔آپ مکہ سے مدینہ کے سفر کے دوران ”ابوا“ موجودہ نام وادی ِ الخُر بیہ“ کے مقام پر آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور آپ اللہ کوپیاری ہوئیں۔ ۷۷۵ء میں آپ کا اسی مقام پر انتقال ہوا اور اسی جگہ ایک چھوٹی سے پہاڑی پر مدفن ہوئیں۔
ملکہ سبا(ملکہ بلقیس)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں مستقل طور پر رہنے والا پرندہ ہد ہد بھی تھا۔جس نے ایک دن سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا، اس کے مثالی تخت اور اس کی قوم کی اطلاع دی۔یہ بھی بتایا کہ وہ سورج کی بوجا کرتے ہیں۔سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کے ذریعے ملکہ سبا کو خط پہچایاجس میں اسے ان کے دربار میں حاضر ہونے کا کہا گیا تھا،ملکہ سبا کو اپنی مملکت، مادی اسباب پر بڑا ناز تھا، ملکہ کا تخت اس کے آنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں پہنچادیاگیا، ملکہ سبا جب سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی تو اس کا اپنا شاندان تخت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہلے سے موجود پایا، وہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت اور سج دھج دیکھ کر حیران رہ گئی، وہ متاثر ا س حد تک ہوئی کہ اسلام قبول کر لیا۔ سورہ توبہ کی ایک خاص بات جو کسی اور سورت میں نہیں وہ یہ کہ اس کی آیت 30 کے درمیان میں بِسمِ ا للہِ الرَّحمْن ِ الرَّحِیْم آیا ہے،دیگر سورتوں سوائے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن یہ واحد سورۃ ہے کہ جس کے آغاز میں اور آیت30میں بسم اللہ آیا ہے۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے واقعہ میں ہے۔ جب سلیمان علیہ السلام ہدد کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ملکہ سبا کو ان کا خط پہنچا کر آئے، اس طرح کہ اسے محسوس نہ ہو، ہد ہد وہ خط ملکہ کو پہنچادیتا ہے، بلقیس اپنے سرداروں سے مشورہ کرتے ہوئے کہتی ہے ”اے سردارو! ایک گرامی نامہ ڈالا گیا ہے، بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے، اور بے شک اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہے”جو نہایت مہربان، بہت رحم کرنے والا ہے“اور یہ کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرنا“، ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جانے کا پروگرام بناتی ہے ادھر جنات میں سے ایک’دیو جن‘ نے کہا کہ میں آپ کو تخت لادیتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں، یہی ہوا کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں آئی تو اس کا تخت پہلے سے موجود تھا۔
ان خواتین کے علاوہ نبی ِآخر حضرت محمد ﷺ کے ازواج مطہرات جن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہاکے علاوہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہا،حضرت زینب بنت حزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرجویریہ بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت صفیہ بنت حی بنت اخطب رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہااورحضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا شامل ہیں۔سورہ احزاب کی آخری آیت ازواج مطہرات کے بارے میں ہے، آیت32 میں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے خطاب ہے فرمایا ”اے نبی ﷺ کی بیویوں! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرواور اپنے گھر میں قرار سے رہو،او ر قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہارنہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو، اے اہل بیتِ! بس اللہ توچاہتا ہے کہ وہ تم سے ناپاکی دور کردے اور تمہیں پوری طرح پاک صاف کردے۔ یاد رکھو اللہ کی آ یات اورسنت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں وہ یاد کرو۔ بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے“۔ان آیات کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے کہ اہل البیت سے مراد نبیﷺ کی تمام ازواج ہیں اللہ نے پہلے نبیﷺ کی ازواج مطہرات کو برائی سے اجتناب کا کہا بعد میں انہیں نیکی اختیار کرنے کی ہدیت کی۔
ان کے علاوہ دیگر عورتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات ہاجرہ جو حضرت اسماعیل کی والدہ محترمہ تھیں، حضرت موسیٰ کی والدہ یوخابز، قرآن میں ام موسیٰ کے الفاظ دو مرتبہ استعمال ہوئے ہیں، بہن اور بیوی، عمران کی بیوی، ماریہ قبطیہ، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت اسحق کی زوجہ اور حضرت یعقوم اور حضرت عیسی کی والدہ راحیل، حضرت یوسف اور بن یامین کی والدہ، عمران کی زوجہ، زکریہ کی زوجہ اور دیگر عورتوں کا کہیں کہیں اور سرسری ذکر آیا ہے۔ بعض خواتین کا نام نہیں لیا گیا بلکہ انہیں کسی حوالے سے مخاطب کیا گیا۔جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو جب عورتوں نے دیکھا تو انہوں نے یوسف کی خوبصورتی، وجاہت کو دیکھا تو اپنی انگلیاں دانتوں میں دے لیں۔ یہاں عورتوں کا نام نہیں لیا گیا صرف
عورتیں ہی کہا گیا۔ ان عورتوں کا یہ عمل حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و خوبصورت ہونے کی جانب اشارہ تھا۔(۵۱ فروری ۴۲۰۲ء، جدہ)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436361 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More