دُعا بھی ایک عبادت ہے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

اﷲ تعالیٰ نے سورہ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۸۳سے ۱۸۷ تک متعدد فضائل ومسائل رمضان ذکر کئے ہیں۔ مسائل رمضان کے بیان کے دوران )آیت نمبر ۱۸۶( میں دعا کا ذکر اس بات کی واضح علامت ہے کہ دعا کا رمضان سے خاص تعلق ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا: روزہ دار کی افطار کے وقت کی دعا رد نہیں ہوتی۔ نیز ارشاد فرمایا: رمضان کے ہر شب وروز میں مسلمان کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس ماہ مبارک میں دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ اب جب کہ آخری عشرہ شروع ہورہا ہے جس میں ایک رات کی عبادت کرنے کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے، ہمیں دیگر نیک اعمال کے ساتھ دعاؤوں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔

دعا کی حقیقت:دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا، شریعت کی اصطلاح میں اﷲ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اﷲ تعالیٰ کو پکارتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (سورۃ الزمر: ۸) حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ (ترمذی) نیز حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: دُعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی) اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
دُعا کی ضرورت:ہر شخص محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اﷲ ہی کے قبضہ میں ہیں، وہی سائلوں کوعطا کرتا ہے، ارشاد باری ہے: اﷲ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔ (سورۃ محمد:۳۸) انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اﷲ سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے کیونکہ یہ مقام عبدیت اور دعا کے منافی ہے۔

دُعا کی اہمیت:دعا کی اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے: (اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶) غرضیکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے بندوں کوحکم دیتے ہوئے فرمایا: تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (سورۃ المؤمن: ۶۰)

حضور اکرم ﷺنے بھی نہ صرف اﷲ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں، چنانچہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: اﷲ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ (ابن ماجہ) یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اﷲ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔ (ترمذی) حضور اکرم ﷺنے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے۔ دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔

دعا کے چند اہم آداب وارکان وشرائط اور واجبات:دعا چونکہ ایک اہم عبادت ہے، اس لئے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔ حضور اکرم ﷺنے دُعا کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں، دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔احادیث میں دعا کے لئے مندرجہ ذیل آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے، جن کو ملحوظ رکھ کر دُعا کرنا بلاشبہ قبولیت کی علامت ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی وقت بعض آداب کو جمع نہ کرسکے توایسا نہ کرے کہ دُعا ہی کوچھوڑ دے، دعا ان شاء اﷲ ہرحال میں مفید ہے۔ آداب دعا میں بعض کورکن یا شرط یا واجب کا درجہ حاصل ہے، جبکہ کچھ چیزیں مستحبات دعا کے زمرہ میں آتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن سے دعا کے موقع پر منع کیا گیا ہے، جومنہیات ومکروہات دُعا کہلاتی ہیں، جو حسب ذیل ہیں: ۱) اﷲ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دُعا کرنا، یعنی یہ یقین ہو کہ اﷲ تعالیٰ ہی ہماری ضرورتوں کوپوری کرنے والا ہے، ارشاد باری ہے: تم لوگ اﷲ کو خالص اعتقاد کرکے پکارو۔ (سورۃ المؤمن:۱۴) ۲) دعا کے قبول ہونے کی پوری اُمید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اﷲ تعالیٰ نے قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ بلاشبہ قبول کرے گا، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔ (ترمذی) ۳) دعا کے وقت دل کو اﷲ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک اﷲ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دُعا کرتا ہے۔ (ترمذی) غرضیکہ دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور خشوع وخضوع اور سکون قلب ورقت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ۔ ۴) دعا کرنے والے کی غذا اور لباس حلال کمائی سے ہونا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشانی وپراگندگی کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتے ہوئے دُعا کرے جب کہ اس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کمائی ہی استعمال کرتا ہو تواس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم) ۵)دُعا کے شروع میں اﷲ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اﷲ ﷺپردرود بھیجنا۔ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اﷲ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اﷲ ﷺپر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی) ۶) دعا کے وقت گناہ کا اقرار کرنا، یعنی پہلے گناہ سے باہر نکلنا، اس پر ندامت کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ ۷)دعا آہستہ اور پست آواز سے کرنا یعنی دعا میں آواز بلند نہ کرنا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم لوگ اپنے پروردگار سے دُعا کیا کرو گڑ گڑا کر اور آہستہ۔ (سورۃ الاعراف: ۵۵) ( البتہ اجتماعی دعا تھوڑی آواز کے ساتھ کریں)۔

دعا کے چند اہم مستحبات: وہ اُمور جن کا دُعا کے وقت اہتمام کرنا اولیٰ وبہتر ہے: ۱)دعا سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ ۲)قبلہ کی طرف رُخ کرکے دوزانو ہوکر بیٹھنا اوردونوں ہاتھوں کا مونڈھوں تک اس طرح اُٹھانا کہ ہاتھ ملے رہیں اور انگلیاں بھی ملی ہوں اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوں۔ ۳) اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ ذکر کرکے دعا کرنا۔ ۴) اس بات کی کوشش کرنا کہ دُعا دل سے نکلے۔ ۵) دُعا میں اپنے خالق ومالک کے سامنے گڑ گڑانا، یعنی رو رو کر دعائیں مانگنا یا کم از کم رونے کی صورت بنانا۔ ۶) دعا کو تین تین مرتبہ مانگنا۔ ۷)دُعا کے وہ الفاظ اختیار کرنا جوقرآن کریم میں آئے ہیں یاجو حضور اکرم ﷺ سے منقول ہیں کیونکہ جودُعائیں قرآن کریم میں آئی ہیں ان کے الفاظ خود قبولیت کی دلیل ہیں اور احادیث میں بھی ان کی فضیلت مذکور ہے اور جودُعائیں حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہیں وہ ضرور اﷲ تعالیٰ کوپیاری ہونگی۔ ۸)تمام چھوٹی اور بڑی حاجتیں سب اﷲ تعالیٰ ہی سے مانگنا۔ ۹) نماز کے بعد اور بالخصوص فرض نماز کے بعد دُعا مانگنا۔ ۱۰)دعا کرانے والا اور ساتھ میں دعا کرنے والے کا دعا کے بعد آمین کہنا ،اور اخیر میں دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پرپھیرلینا ۔

منہیاتِ ومکروہاتِ دعا: وہ اُمور جن کا دعا کے وقت کرنا ممنوع یامکروہ ہے:۱) دعا کے وقت اسباب کی طرف نظر نہ ہو بلکہ اسباب وتدابیر سے قطع تعلق ہوکر مسبب الاسباب کی ذات پریقین رکھنا۔ ۲) دعا میں حد سے تجاوز کرنا غلط ہے، یعنی کسی ایسے امر کی دعا نہ کرنا جوشرعاً یاعادۃً محال ہو یاجوبات پہلے ہی طے ہوچکی ہو مثلاً یوں نہ کہے کہ فلاں مردہ کوزندہ کردے یاعورت یہ دُعا کرے کہ مجھے مرد بنادے، ایسی دعا ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ ۳) دعا میں کسی قسم کا تکلف یاقافیہ بندی نہ کرے کیونکہ یہ امر حضور قلب سے باز رکھتا ہے اور اگر خود بخود بمقتضائے طبیعت قافیہ بندی ہوجائے تومضائقہ نہیں۔ ۴) اپنی جان مال اور اولاد کے لئے بددعا نہ کرے، ممکن ہے کہ قبولیت کی ساعت میں یہ بددعا نکلے اور بعد قبولیت پشیمانی اٹھانی پڑے۔ ۵) دعا کی عدم قبولیت پرمایوس ہوکر دعا کرنا نہ چھوڑنا بلکہ حتی الامکان پرامید رہنا اور دعا قبول ہو یانہ ہو اپنے مالک کے روبرو ہاتھ پھیلاتے رہنا، عجب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو رحم آجائے اور دعا قبول ہوجائے۔

قبولیت دعا کے بعض اوقات وحالات:یوں تودعا ہروقت قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ اوقات وحالات ایسے ہیں جن میں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے، اس لئے ان اوقات وحالات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے: ۱)شب قدر یعنی رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی راتیں ۔ ۲)ماہ رمضان المبارک کے تمام دن ورات ، اور عید الفطر کی رات۔ ۳) عرفہ کا دن (۹ ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک)۔ ۴) مزدلفہ میں۱۰ ذی الحجہ کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سے طلوعِ آفتاب سے پہلے تک۔ ۵) جمعہ کی رات اور دن۔ ۶)آدھی رات کے بعد سے صبح صادق تک ۔ ۷)ساعت جمعہ۔ احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جس میں جودعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ مگراس گھڑی کی تعیےن میں روایات اور علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ روایات اور اقوال صحابہؓ وتابعین سے دو وقتوں کی ترجیح ثابت ہے، اوّل امام کے خطبہ کے لئے ممبرپر جانے سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک ، خاص کر دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت۔ خطبہ کے درمیان زبان سے دعا نہ کریں، البتہ دل میں دعا مانگیں، اسی طرح خطیب خطبہ میں جودعائیں کرتا ہے ان پر بھی دل ہی دل میں آمین کہہ لیں۔ قبولیت دعا کا دوسرا وقت جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ ۸) اذان واقامت کے درمیان۔ ۹) فرض نماز کے بعد۔ ۱۰) سجدہ کی حالت میں ۔ ۱۱)تلاوت قرآن کے بعد۔ ۱۲)آب زم زم پینے کے بعد۔ ۱۳) جہاد میں عین لڑائی کے وقت۔ ۱۴) مسلمانوں کے اجتماع کے وقت۔ ۱۵) بارش کے وقت۔ ۱۶) بیت اﷲ پر پہلی نگاہ پڑتے وقت۔
دعا قبول ہونے کے چند اہم مقامات:یوں تودُعا ہرجگہ قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے۔ ۱) طواف کرتے وقت ۔ ۲) ملتزم پرچمٹ کر۔ (ملتزم اس جگہ کو کہتے ہیں جو حجر اسود اور بیت اﷲ کے دروازہ کے درمیان ہے، ملتزم عربی میں چمٹنے کی جگہ کوکہا جاتا ہے؛ چونکہ اس جگہ چمٹ کر دُعا کی جاتی ہے اس لئے اس کوملتزم کہتے ہیں)۔ ۳) حطیم میں۔ ۴) بیت اﷲ شریف کے اندر۔ ۵) صفا ومروہ پر، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے وقت ۔ ۶) مقام ابراہیم کے پیچھے ۔ ۷) مشاعر مقدسہ (عرفات، مزدلفہ ا ور منی) میں ۔ ۸)جمرۂ اولیٰ اور جمرۂ وسطیٰ کی رمی کرنے کے بعد وہاں سے ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر۔

مستجاب الدعوات بندے: وہ حضرات جن کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور احادیث میں جن کی دُعاؤں کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے: ۱)مظلوم کی دعا یعنی ایسا شخص جس پر کسی طرح کا ظلم ہوا ہو ۔ ۲)مضطر یعنی مصیبت زدہ کی دعا۔ ۳) والدین کی دُعائیں اولاد کے حق میں تیزی کے ساتھ اثر کرتی ہے،لہذا ہمیشہ ان کی دُعائیں لیتے رہنا چاہئے اور اُن کی بددعا سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ ۴) اسی طرح وہ اولاد جووالدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور دل وجان سے ان کی خدمت کرے ان کی دُعاؤں میں بھی شانِ قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ۵)مسافر یعنی جو اپنے گھر بار اہل وعیال سے دور ہو، مسافر چونکہ اپنے مقام سے دور ہوتا ہے، آرام نہ ملنے کی وجہ سے مجبور اور پریشان ہوتا ہے، جب اپنی مجبوری اور حاجت مندی کی وجہ سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا اخلاص سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور صدق دل سے نکلنے کی وجہ سے قبول ہوتی ہے۔ ۶) افطار کے وقت روزہ دار کی دعا کیونکہ یہ وقت لمبی بھوک پیاس کے بعد کھانے پینے کے لئے نفس کے شدید تقاضے کا ہوتا ہے، چونکہ اس نے اﷲ تعالیٰ کے ایک فریضہ کو انجام دیا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بھوک پیاس برداشت کی ہے اس لئے روزہ کے اختتام پربندہ کو یہ مقام دیا جاتا ہے کہ اگروہ اس وقت دُعا کرے توضرور قبول کی جائے۔ ۷) ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لئے غائبانہ دعا بھی مقبول ہے، اپنے لئے توسب دعا کرتے ہیں مگراس کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے بھی خصوصی اور عمومی دعا کرنی چاہئے، خواہ کوئی دعا کے لئے کہے یانہ کہے، دوسروں کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ سب دعاؤں سے بڑھ کر جلداز جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جوغائب کی غائب کے لئے ہو۔ کیونکہ یہ دعا ریاکاری سے پاک ہوتی ہے، محض خلوص اور محبت کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اس میں اخلاص بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کی غیرحاضری میں کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے سرکے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جب وہ اپنے بھائی کے لئے دُعا کرتا ہے توفرشتہ آمین کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ (بھائی کے حق میں تونے جودعا کی ہے) تیرے لئے بھی اس جیسی نعمت ودولت کی خوشخبری ہے۔ ۸)حجاج ومعتمرین کی دُعا، جوشخص حج یاعمرہ کے سفر پر نکلا ہواس کی دعا قبول ہونے کا وعدہ حدیث میں ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج وعمرہ کے مسافر بارگاہ الہی کے خصوصی مہمان ہیں اگر یہ اﷲ تعالیٰ سے دُعا کریں توقبول فرمائے اور اگر اس سے مغفرت طلب کریں توان کی بخشش فرمادے۔ ۹)مریض اور مجاہد فی سبیل اﷲ کی دعا، احادیث سے ثابت ہے کہ مریض جب تک شفایاب نہ ہو اور مجاہد جب تک واپس نہ ہو ان کی دُعا بھی قبول ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب تم بیمار کے پاس جاؤ تواس سے دعا کے لئے کہو۔ مجاہد فی سبیل اﷲ، اﷲ کے راستہ میں اپنی جان ومال کی قربانی دینے کے لئے نکل کھڑا ہوا توجب مجاہد دعا کرتا ہے تواﷲ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔

دُعا قبول ہونے کی علامت:دعا قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اپنے گناہوں کویاد کرنا، اﷲ کا خوف طاری ہونا، بے اختیار رونا آجانا، بدن کے روئیں کھڑے ہوجانا، اس کے بعد اطمینان قلب اور ایک قسم کی فرحت محسوس ہونا، بدن ہلکا معلوم ہونے لگنا، گویا کندھوں پر سے کسی نے بوجھ اُتار لیا ہو۔ جب ایسی حالت پیدا ہو تو اﷲ کی طرف خشوع قلب کے ساتھ متوجہ ہوکر اس کی خوب حمد وثنا اور درودکے بعد اپنے لئے، اپنے والدین، رشتہ داروں، اساتذہ اور مسلمانوں کے لئے گڑگڑا کر دُعا کریں۔ انشاء اﷲ اس کیفیت کے ساتھ کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوگی۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کا وقت معین ہے اور نااُمید بھی نہیں ہونا چاہئے اور یوں نہیں کہنا چاہئے کہ میں نے دعا کی تھی مگر قبول نہ ہوئی، اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ناامید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دعا کی قبولیت میں اﷲ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری شیء انسان کو عطا فرماتا ہے، یا کوئی آنے والی مصیبت دور کردیتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دعا مظہر عبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ دعا مضطرب قلوب کے لئے سامان سکون، گمراہوں کے لئے ذریعۂ ہدایت، متقیوں کے لئے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہگاروں کے لئے اﷲ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لئے ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم دشمنوں سے نجات اور طرح طرح کی مصیبتوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس اہم اور مہتم بالشان عبادت کے ارکان وشرائط وواجبات ومستحبات کے ساتھ اور منہیات ومکروہات سے بچتے ہوئے اپنے خالق ومالک کے سامنے وقتاً فوقتاً خوب دعائیں کریں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں اپنے سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 145561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.