21جون کو پوری دنیا میں یوگا ڈے کے طور پر منایا گیا ۔جس میں اقوام متحدہ
کے ذریعہ دنیا کے مختلف اداروں کی جانب سے یوگا آسنوں کے ذریعہ صحت مندی
کے لئے انسان کے اندر بیداری پید اکرنے کی کوشش کی گئی ۔ہندوستان کے
دارالحکومت دہلی میں بھی بڑے پیمانے پر یوگا کر کے گنیز بک آف ورڈ میں
ریکارڈ قائم کیا گیا۔چونکہ یوگا کا تعلق ہندوقدیم کلچر سے ہے اور ملک کے
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہی کوششوں اور درخواست پر اقوا م متحدہ نے 21جون
کو یوم یوگا کے طور پر منانے کو تسلیم کیا تھا اس لئے ہندوستان میں مودی کی
قیادت میں بڑے پیمانے پر یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔21جون کو دہلی کا
راج پتھ یوگا پتھ میں تبدیل ہو گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و
طالبات کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کر کے ایک ساتھ یوگا کر کے
ریکارڈ قائم کیا۔
یوگا کا تعلق چونکہ ہندومذہبی کلچر سے ہے جس میں کچھ ویدک اشلوک کا ورد بھی
لازمی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ یوگا کے اندر ہندو عقیدے کے مطابق سوریہ
نمسکاربھی ایک اہم جز ہوتا ہے اس لئے حکومت کی جانب سے پورے ملک میں یوگا
کو لازمی قرار دیئے جانے پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ خصوصا اسلام کے عقیدہ توحید
سے یوگا کے متصادم ہونے کے سبب مسلمانوں میں زبر دست تشویش پیدا ہو گئی اور
بڑے پیمانے پراس کی مخالفت بھی کی گئی ۔ کانگریس سمیت متعدد سیکولر سیاسی
تنظیموں نے بھی ایک خاص مذہب فکر کو ملک پر مسلط کرنے کی مخالفت کی ۔بعد
میں عیسائی طبقے نے بھی مسلمانوں کی طرح یوگا لازمی کئے جانے کے خلاف آواز
اٹھائی ۔ ان تمام تنازعات کے درمیان سنگھی ذہنیت اور سنگھی مکتب فکر کے لئے
نرم گوشہ رکھنے والا مسلمانوں کے کچھ علماء صورت سنگھی لوگوں نے اس یوگا کی
حمایت کی ۔اور حکمراں طبقے سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں کچھ اس قدر اندھے
ہوئے کہ انہو ں نے نہ صرف یوگا کو نماز کے مماثل قرار دیا بلکہ قرآن کریم
کی ایک آیت کریمہ کی انتہائی بے وقوفانہ اور احمقانہ تشریح کرتے ہوئے
سوریہ نمسکار کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ۔بلکہ اس سلسلے میں
’یوگا اور اسلام‘ نامی ایک کتاب کا ان سنگھی علماء نے اجرا بھی کیا جس کے
ذریعہ سے مسلمانوں کے درمیان یوگا کے سلسلے میں پھیلی تشویش کو دور کرنے
اور حکومت کے سنگھی فکر کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔
حیرت ،تعجب اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جس وقت راج پتھ پر مودی کی قیادت میں
ہزاروں لوگ یوگا کے مختلف آسن کر رہے تھے وہیں ایسے ہی کچھ ’سنگھی
مسلمانوں ‘کو ان آسنوں میں نماز کے ارکان نظر آ رہے تھے اور انہیں یہ
کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا تھا کہ مودی نے نماز کے کچھ ارکان تسلیم کر لئے
ہیں۔قومی یکجہتی اور بھائی چارے کا حوالہ دے کر اپنے اسلامی تشخص اور عقیدہ
توحید کو دائوں پر لگا کر حکومت وقت سے اپنی وفاداری ثابت کرنا کہاں تک
درست ہے ۔دین اسلام کے بنیادی عقیدے سے سمجھوتہ کرلینا قومی یکجہتی اور
بھائی چارے کا ثبوت ہر گز نہیں ہو سکتا ۔جس قوم کے سامنے بھائی چارے کا
کشکول لے کر یوگا کو عین نماز ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس قوم کی
بنیاد ہی اسلام مخالف ایجنڈوں پررکھی گئی ہے ۔جس کی شاخائوں میں اسلامی
تشخص کو مٹانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔جن کے نزدیک ہندوستان میں مسلمانوں کا
وجود نا جائز ہو ،جو مسلمانوں کی مساجد اور ان کی عبادت گاہوں پر قبضے کی
دعویداری کر رہے ہوں ،جوکاشی ،متھرا اور ایودھیا سے ہر وقت دستبرداری کا
مطالبہ کر رہے ہوں ان کے سامنے اپنے دین و مذہب کو دائوں پر لگا کر یہ
سنگھی مسلمان کس قومی یکجہتی کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھائی چارے
اور قومی یکجہتی کے نام پر پوری ملت کو کاسہ گدائی تھمانے والے اور اسلامی
عقیدے کی غلط تشریح کر کے حکومت وقت کی حاشیہ بر داری کرنے والے نہ صرف
اسلام کی بد نامی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ عقیدہ توحید پر عمل پیرا اور یوگا
کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کے لئے مصیبت بھی بن رہے ہیں۔ چند مفادات کے
حصول کیلے یہ پوری ملت اور دین کا سودا کررہے ہیں ۔ تاریخ ایسے مسلمانوں کو
کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پورے یوگا یا یوگا کے کچھ ارکان کو نماز کے ارکان تسلیم کرنے والے شاید
نماز کی اہمیت اور اس کے بنیادی مقصد سے واقف نہیں ہیںکہ اللہ تعالی نے
مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کیوں عطا کی ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کیوں قرار دیا ۔اللہ کے نبی نے مصیبت
کے وقت نماز کے ذریعہ اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے کی تلقین کیوں کی۔کیا صرف
اس لئے کی نماز سے جسمانی فائدے ہوتے ہیں ۔نماز سے گھٹنوں کا درد دور ہوتا
ہے ۔نماز کے ذریعہ مسلمان کچھ ورزش کر لیتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔نماز کی
اپنی الگ اہمیت ہے اور مرتبہ ہے ۔اس کا الگ مقصد ہے ۔نماز اللہ اور اس کے
بندے کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے ،نماز اسلام کا ایک اہم رکن ہے ،دین
اسلام کا ستون ہے ۔نماز عبادت الہی کا ذریعہ ہے ،نمازرسو ل اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ،نماز مومن کی معراج ہے ۔اس لئے یوگا میں
نماز کے ارکان دیکھنے والی نظروں سے گزارش ہے کہ میری نماز کو نماز رہنے
دیں ۔میری عبادت کو عبادت رہنے دیں ،یوگامیں نماز دیکھ کر نماز کی روح اور
اس کے اصل مقصد کو زائل نہ کریں۔نماز کو عبادت ہی رہنے دیں اسے عادت یا
جسمانی ورزش نہ بننے دیں۔نماز کو عبادت کی نیت سے ادا کریں ورنہ مساجد اور
جم خانوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔
جہاں تک نماز سے جسمانی فائدے اور ورزش کے فائدے حاصل ہونے یا گھٹنوں اور
کمر کا درد ختم ہونے کی بات ہے تو وہ ایک اضافی فائدہ ہے ۔لیکن اسے نماز کی
اصل نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ ہی اس درد کو دور بھگانے کی نیت سے نماز
ادا کی جا سکتی ہے ۔اگر ہماری نیتوں میں کچھ اس طرح کا شائبہ بھی پایا گیا
تو آپ یاد رکھیں ،آپ نماز جیسی ایک اہم عبادت یا فرض ادا نہیں کر رہے ہیں
بلکہ ورزش کر رہے ہیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیثوں میں
اس بات کا ذکر ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی ۔بخاری
اور مسلم کی صحیح حدیث بھی اس جانب ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ’اعمال کا دارو
مدار نیتوں پر ہے ۔‘اس لئے نماز کو عبادت الہی اور ایک فرض کی ادائیگی کی
نیت سے ادا کریں نہ کی ورزش یا گھٹنوں کا درد بھگانے کیلئے رکوع و سجدہ
کریں۔
رہی بات غیر مسلم بھائیوں سے یکجہتی اور بھائی چارے کی تو اس کے سلسلے میں
اسلام کی تعلیمات واضح ہیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس کی
جانب ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔حسن سلوک اور اخلاق مندی سے پیش آنا ،صلح
رحمی کرنا ،بیماروں کی عیادت ،ناداروں کی مدد، یتیموں کی امداد ،ضرورت
مندوں کی عیانت ،بزرگوں کا ادب و احترام اس سے اسلام نے کبھی منع نہیں کیا
اور نہ ہی ان اخلاقی اصولوں میں سامنے والے کے مسلم ہونے یا کلمہ گو ہونے
کی شرط لگائی ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکنے والی
بوڑھی خاتون کے واقعہ سے اسلام کا ایک ادنی طالب علم بھی واقف ہے۔اس کے
علاوہ کفار و مشرکین کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے غیر مسلم اقوام کے ساتھ معمولات سے
ان کی حالات زندگی بھرے پڑے ہیں۔تاریخ اسلا م میں متعدد ایسے واقعات درج
ہیں جہاں یہود و نصاری اور غیر مسلم اقوام نے مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو
دیکھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔لیکن ان تمام کے درمیان کبھی بھی مسلمانوں
نے عقیدہ توحید پر حرف نہیں آنے دیا اور نہ ہی اسلام کے کسی ایک رکن پر
غیر مسلم اقوام سے سودا کیا۔
آپ یوگا کریں شوق سے یوگا کریں ،شرکیہ الفاظ کو ترک کر کے صرف جسمانی ورزش
کی نیت سے اور جسمانی علاج کے طور پر ایکسرسائز کی حیثیت سے اگر آپ یوگا
یا کوئی اور اٹھک بیٹھک کرتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ غلط ہوگا یا اسلام
میں نا جائز ہوگا ۔لیکن یوگا میں نماز دیکھ کر یا نماز میں یوگا دیکھ کر
ایسے افعال انجام دیتے ہیں تو یقینا آپ کی طرف انگلی اٹھے گی ۔یاد رکھیں
غیر مسلم برادران سے قومی یکجہتی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ان کے
مندروں میں گھنٹے بجائیں اور ان کے خدائوں کے آگے نتمسک ہوں اور وہ آپ کی
مسجدوں میں اذان دیں اور نماز پڑھیں ۔اپنے اپنے مذہبی دائرے میں بھی رہ کر
بھائی چارے کی فضاء قائم کی جا سکتی ہے اور قومی یکجہتی کی فضاساز گار ہو
سکتی ہے ۔میرے خیال سے وہی حقیقی بھائی چارہ اور قومی یکجہتی ہوگی جہاں
مسلمان مساجد میں سکون سے نماز ادا کر سکیں اور ہندو مندروں میں امن کے
ساتھ گھنٹیاں بجا سکیں۔لیکن کسی ایک مذہب پر پابندی لگا کر ان کی عبادت
گاہوں کو منہدم کر کے کوئی یکجہتی قائم نہیں ہو سکتی۔ |