Surah Araf Tafseer

The Tafseer of Surah Araf in Urdu is available with mp3 audio format. This Makki Surah, consisting of 206 verses, can be listened to online in the voice of Dr. Israr Ahmed. A renowned Islamic scholar Dr. Israr Ahmed, provides detailed explanations of the Quran on various topics, helping listeners understand the essence of Surah Araf.

Para / Chapter Voice
8 - 9 Dr. Israr Ahmed
<
Al-A'raf Ayat 1 to 58
Al-A'raf Ayat 59 to 129
Al-A'raf Ayat 130 to 166
Al-A'raf Ayat 167 to End
>
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ِ

المص ﴿۱﴾ (اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیئے، (یہ نازل) اس لیے (ہوئی ہے) کہ تم اس کے ذریعے سے (لوگوں) کو ڈر سناؤ اور (یہ) ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے ﴿۲﴾ (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو (اور) تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو ﴿۳﴾ اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جب وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے ﴿۴﴾ تو جس وقت ان پر عذاب آتا تھا ان کے منہ سے یہی نکلتا تھا کہ (ہائے) ہم (ہائے) ہم (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہے ﴿۵﴾ تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے ﴿۶﴾ پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے ﴿۷﴾ اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں ﴿۸﴾ اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اس لیے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بےانصافی کرتے تھے ﴿۹﴾ اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے سامان معشیت پیدا کئے۔ (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو ﴿۱۰﴾ اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا ﴿۱۱﴾ (خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا۔ اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے ﴿۱۲﴾ فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے پس نکل جا۔ تو ذلیل ہے ﴿۱۳﴾ اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے ﴿۱۴﴾ فرمایا (اچھا) تجھ کو مہلت دی جاتی ہے ﴿۱۵﴾ (پھر) شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا ﴿۱۶﴾ پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا ﴿۱۷﴾ (خدا نے) فرمایا، نکل جا۔ یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں (ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال کر) تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا ﴿۱۸﴾ اور ہم نے آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوش جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جاؤ ورنہ گنہگار ہو جاؤ گے ﴿۱۹﴾ تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کی ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو ﴿۲۰﴾ اور ان سے قسم کھا کر کہا میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں ﴿۲۱﴾ غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ﴿۲۲﴾ دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے ﴿۲۳﴾ (خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانہ اور (زندگی کا) سامان (کر دیا گیا) ہے ﴿۲۴﴾ (یعنی) فرمایا کہ اسی میں تمہارا جینا ہوگا اور اسی میں مرنا اور اسی میں سے (قیامت کو زندہ کر کے) نکالے جاؤ گے ﴿۲۵﴾ اے بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں ﴿۲۶﴾ اے بنی آدم (دیکھنا کہیں) شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو (بہکا کر) بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان کے ستر ان کو کھول کر دکھا دے۔ وہ اور اس کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطانوں کو انہیں لوگوں کا رفیق کار بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے ﴿۲۷﴾ اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور خدا نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے۔ کہہ دو خدا بےحیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔ بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ﴿۲۸﴾ کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو۔ اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہوگے ﴿۲۹﴾ ایک فریق کو تو اس نے ہدایت دی اور ایک فریق پر گمراہی ثابت ہوچکی۔ ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو رفیق بنا لیا اور سمجھتے (یہ) ہیں کہ ہدایت یاب ہیں ﴿۳۰﴾ اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزّین کیا کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ﴿۳۱﴾ پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھنے والوں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے ﴿۳۲﴾ کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے۔ اور اس کو بھی کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ﴿۳۳﴾ اور ہر ایک فرقے کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی ﴿۳۴﴾ اے بنی آدم! (ہم تم کو یہ نصیحت ہمیشہ کرتے رہے ہیں کہ) جب ہمارے پیغمبر تمہارے پاس آیا کریں اور ہماری آیتیں تم کو سنایا کریں (تو ان پر ایمان لایا کرو) کہ جو شخص (ان پر ایمان لا کر خدا سے) ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ﴿۳۵﴾ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی وہی دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے ﴿۳۶﴾ تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ ان کو ان کے نصیب کا لکھا ملتا ہی رہے گا یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے تو کہیں گے کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارا کرتے تھے وہ (اب) کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے (معلوم نہیں) کہ وہ ہم سے (کہاں) غائب ہوگئے اور اقرار کریں گے کہ بےشک وہ کافر تھے ﴿۳۷﴾ تو خدا فرمائے گا کہ جنّوں اور انسانوں کی جو جماعتیں تم سے پہلے ہو گزری ہیں ان کے ساتھ تم بھی داخل جہنم ہو جاؤ۔ جب ایک جماعت (وہاں) جا داخل ہو گئی تو اپنی (مذہبی) بہن (یعنی اپنے جیسی دوسری جماعت) پر لعنت کرے گی۔ یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہو جائیں گے تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی کہ اے پروردگار! ان ہی لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا تو ان کو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔ خدا فرمائے گا کہ (تم) سب کو دگنا (عذاب دیا جائے گا) مگر تم نہیں جانتے ﴿۳۸﴾ اور پہلی جماعت پچھلی جماعت سے کہے گی کہ تم کو ہم پر کچھ بھی فضیلت نہ ہوئی تو جو (عمل) تم کیا کرتے تھے اس کے بدلے میں عذاب کے مزے چکھو ﴿۳۹﴾ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے اور گنہگاروں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ﴿۴۰﴾ ایسے لوگوں کے لیے (نیچے) بچھونا بھی (آتش) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی (اسی کا) اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ﴿۴۱﴾ اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ہم (عملوں کے لیے) کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ایسے ہی لوگ اہل بہشت ہیں (کہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے ﴿۴۲﴾ اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے۔ ان کے محلوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا راستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پا سکتے۔ بےشک ہمارا پروردگار کے رسول حق بات لے کر آئے تھے اور (اس روز) منادی کر دی جائے گی کہ تم ان اعمال کے صلے میں جو دنیا میں کرتے تھے اس بہشت کے وارث بنا دیئے گئے ہو ﴿۴۳﴾ اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچا پایا؟ وہ کہیں گے ہاں تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت ﴿۴۴﴾ جو خدا کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے اور آخرت سے انکار کرتے تھے ﴿۴۵﴾ ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ) کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے ﴿۴۶﴾ اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو ﴿۴۷﴾ اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صورتوں سے شناخت کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا) ﴿۴۸﴾ (پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ خدا اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا (تو مومنو) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کچھ خوف نہیں اور نہ تم کو کچھ رنج واندوہ ہوگا ﴿۴۹﴾ اور وہ دوزخی بہشتیوں سے (گڑگڑا کر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے (کچھ ہمیں بھی دو) وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کر دیا ہے ﴿۵۰﴾ جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے اور ہماری آیتوں سے منکر ہو رہے تھے۔ اسی طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ﴿۵۱﴾ اور ہم نے ان کے پاس کتاب پہنچا دی ہے جس کو علم ودانش کے ساتھ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے (اور) وہ مومن لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ﴿۵۲﴾ کیا یہ لوگ اس کے وعدہٴ عذاب کے منتظر ہیں۔ جس دن وہ وعدہ آجائے گا تو جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے ہوں گے وہ بول اٹھیں گے کہ بےشک ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے۔ بھلا (آج) ہمارا کوئی سفارشی ہیں کہ ہماری سفارش کریں یا ہم (دنیا میں) پھر لوٹا دیئے جائیں کہ جو عمل (بد) ہم (پہلے) کرتے تھے (وہ نہ کریں بلکہ) ان کے سوا اور (نیک) عمل کریں۔ بےشک ان لوگوں نے اپنا نقصان کیا اور جو کچھ یہ افتراء کیا کرتے تھے ان سے سب جاتا رہا ﴿۵۳﴾ کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔ یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے ﴿۵۴﴾ (لوگو) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ﴿۵۵﴾ اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے ﴿۵۶﴾ اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (یعنی مینھ) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (بنا کر) بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہے تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔ پھر بادل سے مینھ برساتے ہیں۔ پھر مینھ سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو (زمین سے) زندہ کرکے باہر نکال لیں گے۔ (یہ آیات اس لیے بیان کی جاتی ہیں) تاکہ تم نصیحت پکڑو ﴿۵۷﴾ جو زمین پاکیزہ (ہے) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں جو کچھ ہے ناقص ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگزار لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ﴿۵۸﴾ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے (ان سے کہا) اے میری برادری کے لوگو خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا (بہت ہی) ڈر ہے ﴿۵۹﴾ تو جو ان کی قوم میں سردار تھے وہ کہنے لگے کہ ہم تمہیں صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں ﴿۶۰﴾ انہوں نے کہا اے قوم مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں پروردگار عالم کا پیغمبر ہوں ﴿۶۱﴾ تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور مجھ کو خدا کی طرف سے ایسی باتیں معلوم ہیں جن سے تم بےخبر ہو ﴿۶۲﴾ کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ﴿۶۳﴾ مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی۔ تو ہم نے نوح کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کو تو بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں غرق کر دیا۔ کچھ شک نہیں کہ وہ اندھے لوگ تھے ﴿۶۴﴾ اور (اسی طرح) قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ بھائیو خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم ڈرتے نہیں؟ ﴿۶۵﴾ تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ تم ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں ﴿۶۶﴾ انہوں نے کہا کہ بھائیو مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں ﴿۶۷﴾ میں تمہیں خدا کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں ﴿۶۸﴾ کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو تو کرو جب اس نے تم کو قوم نوح کے بعد سردار بنایا۔ اور تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا۔ پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ تاکہ نجات حاصل کرو ﴿۶۹﴾ وہ کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں۔ اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں؟ تو اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے لے آؤ ﴿۷۰﴾ ہود نے کہا تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب کا (نازل ہونا) مقرر ہو چکا ہے۔ کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنی طرف سے) رکھ لئے ہیں۔ جن کی خدا نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ تو تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ﴿۷۱﴾ پھر ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ان کو نجات بخشی اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں ﴿۷۲﴾ اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ (تو) صالح نے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معجزہ آ چکا ہے۔ (یعنی) یہی خدا کی اونٹنی تمہارے لیے معجزہ ہے۔ تو اسے (آزاد) چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا۔ ورنہ عذابِ الیم میں تمہیں پکڑ لے گا ﴿۷۳﴾ اور یاد تو کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد سردار بنایا اور زمین پر آباد کیا کہ نرم زمین سے (مٹی لے لے کر) محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے ہو۔ پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو ﴿۷۴﴾ تو ان کی قوم میں سردار لوگ جو غرور رکھتے تھے غریب لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے کہنے لگے بھلا تم یقین کرتے ہو کہ صالح اپنے پروردگار کی طرف بھیجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں جو چیز دے کر وہ بھیجے گئے ہیں ہم اس پر بلاشبہ ایمان رکھتے ہیں ﴿۷۵﴾ تو (سرداران) مغرور کہنے لگے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم تو اس کو نہیں مانتے ﴿۷۶﴾ آخر انہوں نے اونٹی (کی کونچوں) کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ صالح! جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے تھے اگر تم (خدا کے) پیغمبر ہو تو اسے ہم پر لے آؤ ﴿۷۷﴾ تو ان کو بھونچال نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ﴿۷۸﴾ پھر صالح ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ﴿۷۹﴾ اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا ﴿۸۰﴾ یعنی خواہش نفسانی پورا کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو ﴿۸۱﴾ تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا اور بولے تو یہ بولے کہ ان لوگوں (یعنی لوط اور اس کے گھر والوں) کو اپنے گاؤں سے نکال دو (کہ) یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں ﴿۸۲﴾ تو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی ﴿۸۳﴾ اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔ سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا ﴿۸۴﴾ اور مَدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ (تو) انہوں نے کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے ﴿۸۵﴾ اور ہر رستے پر مت بیٹھا کرو کہ جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اسے تم ڈراتے اور راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو اور (اس وقت کو) یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے تو خدا نے تم کو جماعت کثیر کر دیا اور دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ﴿۸۶﴾ اور اگر تم میں سے ایک جماعت میری رسالت پر ایمان لے آئی ہے اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی ہے۔ اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی۔ تو صبر کیے رہو یہاں تک کہ خدا ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ﴿۸۷﴾ (تو) ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے، وہ کہنے لگے کہ شعیب! (یا تو) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ انہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟) ﴿۸۸﴾ اگر ہم اس کے بعد کہ خدا ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بےشک ہم نے خدا پر جھوٹ افتراء باندھا۔ اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو (ہم مجبور ہیں)۔ ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارا خدا ہی پر بھروسہ ہے۔ اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ﴿۸۹﴾ اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے، کہنے لگے (بھائیو) اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بےشک تم خسارے میں پڑگئے ﴿۹۰﴾ تو ان کو بھونچال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ﴿۹۱﴾ (یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑگئے ﴿۹۲﴾ تو شعیب ان میں سے نکل آئے اور کہا کہ بھائیو میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور تمہاری خیرخواہی کی تھی۔ تو میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج وغم کیوں کروں ﴿۹۳﴾ اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو (جو ایمان نہ لائے) دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں ﴿۹۴﴾ پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا یہاں تک کہ (مال واولاد میں) زیادہ ہوگئے تو کہنے لگے کہ اس طرح کا رنج وراحت ہمارے بڑوں کو بھی پہنچتا رہا ہے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑلیا اور وہ (اپنے حال میں) بےخبر تھے ﴿۹۵﴾ اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا ﴿۹۶﴾ کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ (بےخبر) سو رہے ہوں ﴿۹۷﴾ اور کیا اہلِ شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ نازل ہو اور وہ کھیل رہے ہوں ﴿۹۸﴾ کیا یہ لوگ خدا کے داؤ کا ڈر نہیں رکھتے (سن لو کہ) خدا کے داؤ سے وہی لوگ نڈر ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہیں ﴿۹۹﴾ کیا ان لوگوں کو جو اہلِ زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں، یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔ اور ان کے دلوں پر مہر لگادیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں ﴿۱۰۰﴾ یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں۔ اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے۔ مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے ہوں اسے مان لیں اسی طرح خدا کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے ﴿۱۰۱﴾ اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں (عہد کا نباہ) نہیں دیکھا۔ اور ان میں اکثروں کو (دیکھا تو) بدکار ہی دیکھا ﴿۱۰۲﴾ پھر ان (پیغمبروں) کے بعد ہم نے موسیٰ کو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان کے ساتھ کفر کیا۔ سو دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا ﴿۱۰۳﴾ اور موسیٰ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں ﴿۱۰۴﴾ مجھ پر واجب ہے کہ خدا کی طرف سے جو کچھ کہوں سچ ہی کہوں۔ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی رخصت دے دیجیے ﴿۱۰۵﴾ فرعون نے کہا اگر تم نشانی لے کر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لاؤ (دکھاؤ) ﴿۱۰۶﴾ موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اژدھا (ہوگیا) ﴿۱۰۷﴾ اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا) ﴿۱۰۸﴾ تو قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا علامہ جادوگر ہے ﴿۱۰۹﴾ اس کا ارادہ یہ ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ بھلا تمہاری کیا صلاح ہے؟ ﴿۱۱۰﴾ انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ فی الحال موسیٰ اور اس کے بھائی کے معاملے کو معاف رکھیے اور شہروں میں نقیب روانہ کر دیجیے ﴿۱۱۱﴾ کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں ﴿۱۱۲﴾ (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور جادوگر فرعون کے پاس آپہنچے اور کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں صلہ عطا کیا جائے ﴿۱۱۳﴾ (فرعون نے) کہا ہاں (ضرور) اور (اس کے علاوہ) تم مقربوں میں داخل کرلیے جاؤ گے ﴿۱۱۴﴾ (جب فریقین روزِ مقررہ پر جمع ہوئے تو) جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم (جادو کی چیز) ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ﴿۱۱۵﴾ (موسیٰ نے) کہا تم ہی ڈالو۔ جب انہوں نے (جادو کی چیزیں) ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا (یعنی نظربندی کردی) اور (لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنا بنا کر) انہیں ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا ﴿۱۱۶﴾ (اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔ وہ فوراً (سانپ بن کر) جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک کرکے) نگل جائے گی ﴿۱۱۷﴾ (پھر) تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ فرعونی کرتے تھے، باطل ہوگیا ﴿۱۱۸﴾ اور وہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر رہ گئے ﴿۱۱۹﴾ (یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے ﴿۱۲۰﴾ اور کہنے لگے کہ ہم جہان کے پروردگار پر ایمان لائے ﴿۱۲۱﴾ یعنی موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر ﴿۱۲۲﴾ فرعون نے کہا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے؟ بےشک یہ فریب ہے جو تم نے مل کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہلِ شہر کو یہاں سے نکال دو۔ سو عنقریب (اس کا نتیجہ) معلوم کرلو گے ﴿۱۲۳﴾ میں (پہلے تو) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دوں گا پھر تم سب کو سولی چڑھوا دوں گا ﴿۱۲۴﴾ وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ﴿۱۲۵﴾ اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ اے پروردگار ہم پر صبرواستقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو ﴿۱۲۶﴾ اور قومِ فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجیے گا کہ ملک میں خرابی کریں اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔ وہ بولے کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بےشک ہم ان پر غالب ہیں ﴿۱۲۷﴾ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو۔ زمین تو خدا کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بناتا ہے۔ اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے ﴿۱۲۸﴾ وہ بولے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا کہ قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ﴿۱۲۹﴾ اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں ﴿۱۳۰﴾ تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں۔ اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی بتاتے۔ دیکھو ان کی بدشگونی خدا کے ہاں مقرر ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے ﴿۱۳۱﴾ اور کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس (خواہ) کوئی ہی نشانی لاؤ تاکہ اس سے ہم پر جادو کرو۔ مگر ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ﴿۱۳۲﴾ تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں۔ مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار ﴿۱۳۳﴾ اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا تو کہتے کہ موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا کرو۔ جیسا اس نے تم سے عہد کر رکھا ہے۔ اگر تم ہم سے عذاب کو ٹال دو گے تو ہم تم پر ایمان بھی لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ جانے (کی اجازت) دیں گے ﴿۱۳۴﴾ پھر جب ہم ایک مدت کے لیے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے ﴿۱۳۵﴾ تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا کہ ان کو دریا میں ڈبو دیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے بےپروائی کرتے تھے ﴿۱۳۶﴾ اور جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو زمین (شام) کے مشرق ومغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث کردیا اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہٴ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو (محل) بناتے اور (انگور کے باغ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ کردیا ﴿۱۳۷﴾ اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار اتارا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں (کی عبادت) کے لیے بیٹھے رہتے تھے۔ (بنی اسرائیل) کہنے لگے کہ موسیٰ جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔ ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دو۔ موسیٰ نے کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو ﴿۱۳۸﴾ یہ لوگ جس (شغل) میں (پھنسے ہوئے) ہیں وہ برباد ہونے والا ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں سب بیہودہ ہیں ﴿۱۳۹﴾ (اور یہ بھی) کہا کہ بھلا میں خدا کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام اہل عالم پر فضیلت بخشی ہے ﴿۱۴۰﴾ (اور ہمارے ان احسانوں کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعونیوں (کے ہاتھ) سے نجات بخشی وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سخت آزمائش تھی ﴿۱۴۱﴾ اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔ اور اس دس (راتیں) اور ملا کر اسے پورا (چلّہ) کردیا تو اس کے پروردگار کی چالیس رات کی میعاد پوری ہوگئی۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے (کوہِٰ طور پر جانے کے) بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو (ان کی) اصلاح کرتے رہنا ٹھیک اور شریروں کے رستے نہ چلنا ﴿۱۴۲﴾ اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں ﴿۱۴۳﴾ (خدا نے) فرمایا موسیٰ میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے۔ تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور (میرا) شکر بجالاؤ ﴿۱۴۴﴾ اور ہم نے (تورات) کی تختیوں میں ان کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پھر (ارشاد فرمایا کہ) اسے زور سے پکڑے رہو اور اپنی قوم سے بھی کہہ دو کہ ان باتوں کو جو اس میں (مندرج ہیں اور) بہت بہتر ہیں پکڑے رہیں۔ میں عنقریب تم کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھاؤں گا ﴿۱۴۵﴾ جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔ اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر راستی کا رستہ دیکھیں تو اسے (اپنا) رستہ نہ بنائیں۔ اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے رستہ بنالیں۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے ﴿۱۴۶﴾ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ﴿۱۴۷﴾ اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ اس کو انہوں نے (معبود) بنالیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا ﴿۱۴۸﴾ اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہوجائیں گے ﴿۱۴۹﴾ اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے۔ تو کہنے لگے کہ تم نے میرے بعد بہت ہی بداطواری کی۔ کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم (یعنی میرا اپنے پاس آنا) جلد چاہا (یہ کہا) اور (شدت غضب سے تورات کی) تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر (کے بالوں) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی جان لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے اور قریب تھا کہ قتل کردیں۔ تو ایسا کام نہ کیجیے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملایئے ﴿۱۵۰﴾ تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ﴿۱۵۱﴾ (خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿۱۵۲﴾ اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اس کے بعد (بخش دے گا کہ وہ) بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۵۳﴾ اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا تو (تورات) کی تختیاں اٹھالیں اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں کے لیے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔ ہدایت اور رحمت تھی ﴿۱۵۴﴾ اور موسیٰ نے اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب (کرکے کوہ طور پر حاضر) ٹل کیے۔ جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بےعقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کردے گا۔ یہ تو تیری آزمائش ہے۔ اس سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جس کو چاہے ہدایت بخشے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے ﴿۱۵۵﴾ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم تیری طرف رجوع ہوچکے۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰة دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں ﴿۱۵۶﴾ وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں ﴿۱۵۷﴾ (اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ ﴿۱۵۸﴾ اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ﴿۱۵۹﴾ اور ہم نے ان کو (یعنی بنی اسرائیل کو) الگ الگ کرکے بارہ قبیلے (اور) بڑی بڑی جماعتیں بنا دیا۔ اور جب موسیٰ سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مار دو۔ تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ اور سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔ اور ہم نے ان (کے سروں) پر بادل کو سائبان بنائے رکھا اور ان پر من وسلویٰ اتارتے رہے۔ اور (ان سے کہا کہ) جو پاکیزہ چیزیں ہم تمہیں دیتے ہیں انہیں کھاؤ۔ اور ان لوگوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ (جو) نقصان کیا اپنا ہی کیا ﴿۱۶۰﴾ اور (یاد کرو) جب ان سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار کرلو اور اس میں جہاں سے جی چاہے کھانا (پینا) اور (ہاں شہر میں جانا تو) حِطّتہٌ کہنا اور دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا۔ ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے۔ اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے ﴿۱۶۱﴾ مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس لیے کہ ظلم کرتے تھے ﴿۱۶۲﴾ اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جب لب دریا واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے (یعنی) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو ان کی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے ﴿۱۶۳﴾ اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو الله ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں ﴿۱۶۴﴾ جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے ﴿۱۶۵﴾ غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ ﴿۱۶۶﴾ (اور اس وقت کو یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے (یہود کو) آگاہ کردیا تھا کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے شخص کو مسلط رکھے گا جو انہیں بری بری تکلیفیں دیتا رہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے ﴿۱۶۷﴾ اور ہم نے ان کو جماعت جماعت کرکے ملک میں منتشر کر دیا۔ بعض ان میں سے نیکوکار ہیں اور بعض اور طرح کے (یعنی بدکار) اور ہم آسائشوں، تکلیفوں (دونوں) سے ان کی آزمائش کرتے رہے تاکہ (ہماری طرف) رجوع کریں ﴿۱۶۸﴾ پھر ان کے بعد ناخلف ان کے قائم مقام ہوئے جو کتاب کے وارث بنے۔ یہ (بےتامل) اس دنیائے دنی کا مال ومتاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بخش دیئے جائیں گے۔ اور (لوگ ایسوں پر طعن کرتے ہیں) اگر ان کے سامنے بھی ویسا ہی مال آجاتا ہے تو وہ بھی اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب کی نسبت عہد نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہیں گے۔ اور جو کچھ اس (کتاب) میں ہے اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے۔ اور آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے کیا تم سمجھتے نہیں ﴿۱۶۹﴾ اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز کا التزام رکھتے ہیں (ان کو ہم اجر دیں گے کہ) ہم نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے ﴿۱۷۰﴾ اور جب ہم نے ان (کے سروں) پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے تو (ہم نے کہا کہ) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو۔ اور جو اس میں لکھا ہے اس پر عمل کرو تاکہ بچ جاؤ ﴿۱۷۱﴾ اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے)۔ یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی ﴿۱۷۲﴾ یا یہ (نہ) کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھا۔ اور ہم تو ان کی اولاد تھے (جو) ان کے بعد (پیدا ہوئے)۔ تو کیا جو کام اہل باطل کرتے رہے اس کے بدلے تو ہمیں ہلاک کرتا ہے ﴿۱۷۳﴾ اور اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ رجوع کریں ﴿۱۷۴﴾ اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہٴ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا ﴿۱۷۵﴾ اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان سے یہ قصہ بیان کردو۔ تاکہ وہ فکر کریں ﴿۱۷۶﴾ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں نے نقصان (کیا تو) اپنا ہی کیا ﴿۱۷۷﴾ جس کو خدا ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ﴿۱۷۸﴾ اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ﴿۱۷۹﴾ اور خدا کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے ﴿۱۸۰﴾ اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا رستہ بتاتے ہیں اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ﴿۱۸۱﴾ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ﴿۱۸۲﴾ اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے ﴿۱۸۳﴾ کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے رفیق محمد (ﷺ) کو (کسی طرح کا بھی) جنون نہیں ہے۔ وہ تو ظاہر ظہور ڈر سنانے والے ہیں ﴿۱۸۴﴾ کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں جو چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان پر نظر نہیں کی اور اس بات پر (خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں ان (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو۔ تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے ﴿۱۸۵﴾ جس شخص کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور وہ ان (گمراہوں) کو چھوڑے رکھتا ہے کہ اپنی سرکشی میں پڑے بہکتے رہیں ﴿۱۸۶﴾ (یہ لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کردےگا۔ وہ آسمان وزمین میں ایک بھاری بات ہوگی اور ناگہاں تم پر آجائے گی۔ یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو۔ کہو کہ اس کا علم تو خدا ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ﴿۱۸۷﴾ کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں ﴿۱۸۸﴾ وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے ﴿۱۸۹﴾ جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں۔ جو وہ شرک کرتے ہیں (خدا کا رتبہ) اس سے بلند ہے ﴿۱۹۰﴾ کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں ﴿۱۹۱﴾ اور نہ ان کی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں ﴿۱۹۲﴾ اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو تمہارا کہا نہ مانیں۔ تمہارے لیے برابر ہے کہ تم ان کو بلاؤ یا چپکے ہو رہو ﴿۱۹۳﴾ (مشرکو) جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں ﴿۱۹۴﴾ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں؟ کہہ دو کہ اپنے شریکوں کو بلالو اور میرے بارے میں (جو) تدبیر (کرنی ہو) کرلو اور مجھے کچھ مہلت بھی نہ دو (پھر دیکھو کہ وہ میرا کیا کرسکتے ہیں) ﴿۱۹۵﴾ میرا مددگار تو خدا ہی ہے جس نے کتاب (برحق) نازل کی۔ اور نیک لوگوں کا وہی دوستدار ہے ﴿۱۹۶﴾ اور جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں ﴿۱۹۷﴾ اور اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو سن نہ سکیں اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ (بہ ظاہر) آنکھیں کھولے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر (فی الواقع) کچھ نہیں دیکھتے ﴿۱۹۸﴾ (اے محمدﷺ) عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو ﴿۱۹۹﴾ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو خدا سے پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے ﴿۲۰۰﴾ جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں ﴿۲۰۱﴾ اور ان (کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں پھر (اس میں کسی طرح کی) کوتاہی نہیں کرتے ﴿۲۰۲﴾ اور جب تم ان کے پاس (کچھ دنوں تک) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنالی۔ کہہ دو کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔ یہ قرآن تمہارے پروردگار کی جانب سے دانش وبصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ﴿۲۰۳﴾ اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ﴿۲۰۴﴾ اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا ﴿۲۰۵﴾ جو لوگ تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے گردن کشی نہیں کرتے اور اس پاک ذات کو یاد کرتے اور اس کے آگے سجدے کرتے رہتے ہیں ﴿۲۰۶

Reviews & Comments

Aoa, sir ik mistake he is page ki tarteeb me (https://hamariweb.com/islam/Surah_Araf_tafseer7.aspx) aap ne is (Al-A'raf Ayat 59 to 129) audio box ko end per kar diya he jab k ye is (Al-A'raf Ayat 1 to 58) audio box k baad aana thi. Kindly isko dekh lijiye ga

  • Abdul Raffy, Sahiwal
  • Fri 13 Jan, 2023

Muslims all over the world can access Surah Araf tafseer online and can learn a lot. No matter where you live, this page gives you access to most authentic tafseer no matter what.

  • Aalia, Lahore
  • Fri 12 May, 2017
captcha