Narrated Abu 'Uthman An-Nahdi:
from Ibn Mas'ud who said: The Messenger of Allah (ﷺ) performed 'Isha, then he turned and took the hand of 'Abdullah bin Mas'ud until he went with him to the wide valley of Makkah. He sat him down, then he drew a line around him. Then he said: 'Do not go beyond your line, for indeed there shall come some men to you, but do not speak to them for they shall not speak to you.' He said: Then the Messenger of Allah (ﷺ) went to where he wanted to go, and while I was sitting within the line, some men came to me that appeared as if they were from Az-Zut (A dark people, either from North Africa or India. See Tuhfat Al-Ahwadhi and An-Nihayah), both their hair and their bodies. I did not see nakedness nor covering. They ended up before me but they did not pass the line. Then they returned toward the Messenger of Allah (ﷺ) and when it was near the end of the night, the Messenger of Allah (ﷺ) came to me while I was sitting, and he said: I have been awake watching all night' then he entered into the line with me and lay down on my thigh to sleep. And the Messenger of Allah (ﷺ) would snore when he slept. So while I was sitting there, and the Messenger of Allah (ﷺ) was sleeping (with his head resting) on my thigh, there appeared some men wearing white garments, and Allah knows best just how handsome they were. They came towards me, and a group of them sat at the head of the Messenger of Allah (ﷺ), and a group at his feet. Then they said to each other: 'We have not ever seen a slave (of Allah) who was given the likes of what this Prophet has been given. Indeed his eyes sleep but his heart remains awake. His parable is that of a chief who built a castle, then he placed a table-spread in it, and invited the people to eat from his food and drink. So whoever answers his invitation, he eats from his food and drinks from his drink. Whoever does not answer, he is punished - or he said - he is chastised.' Then they alighted and the Messenger of Allah (ﷺ) awoke at that time, and said: 'I heard what they were saying. Do you know who they were?' I said: 'Allah and His Messenger know better.' He said: 'They were the angels. Do you know the meaning of the parable they stated?' I said: 'Allah and His Messenger know better.' He said: 'The meaning is that Ar-Rahman [Most Blessed and Most High] built Paradise, and He invited His Slaves to it. Whoever replies he shall enter Paradise, and whoever does not reply, he shall be punished or chastised.'
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَأَجْلَسَهُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَلِّمُونَكَ، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ، لَا أَرَى عَوْرَةً، وَلَا أَرَى قِشْرًا، وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ، فَقَالَ: لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي، فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، فَرَقَدَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ، فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنَ الْجَمَالِ، فَانْتَهَوْا إِلَيَّ، فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ، إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا، ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً، فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ، أَوْ قَالَ عَذَّبَهُ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلَاءِ ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: هُمُ الْمَلَائِكَةُ، أَفَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ، وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ، قَالَ عَلِيٌّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گئے ( وہاں ) انہیں ( ایک جگہ ) بٹھا دیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں، اور ان سے کہا: ”ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آ کر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے“۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی ( ان کے جسموں پر مجھے ) لباس نظر آ رہا تھا، وہ میرے پاس آ کر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتا ہوں ( یعنی میں سو نہ سکا ) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہو کر میرے پاس آئے۔ اور میری ران کا تکیہ بنا کر سو گئے، آپ سونے میں خراٹے لینے لگتے تھے، تو اسی دوران کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سو رہے تھے۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتا ہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آ کر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملا ہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کا دل بیدار رہتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو ( پھر انہوں نے کہا ان کی مثال ) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا، پھر ایک دستر خوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دستر خوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کر لی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ ( سردار ) اسے سزا دے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”سنا، کیا کہا انہوں نے؟ اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟“ میں نے ( پھر ) کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”انہوں نے جو مثال دی ہے وہ ہے رحمن ( اللہ ) تبارک و تعالیٰ کی، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ تو جس نے دعوت قبول کر لی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب و عقاب سے دوچار کرے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابو تمیمہ: ہجیمی ہیں اور ان کا نام طریف بن مجالد ہے، ۳- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، ۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں، وہ اصلاً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہو گئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔